تعلیم۔ ہمہ پہلو زوال


اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ کسی بھی شعبے سے متعلق کوئی اچھی خبر کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ وہ ادارے بھی رفتہ رفتہ اپنا اعتبار اور وقار کھونے لگے ہیں، جو کبھی قابل فخر ہوا کرتے تھے۔ کچھ دن سے پنجاب پبلک سروس کمیشن (PPSC) خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ نے کمیشن کے تحت ہونے والے امتحانات کے پرچے لیک کرنے والے ایک گروہ کا پتہ لگایا ہے۔ پی پی ایس سی نے 58 سرکاری آسامیوں کو پر کرنے کے لئے اشتہار شائع کیا تھا۔

پنجاب بھر سے کم و بیش 103487 امیدواروں نے امتحان دینے کے لیے اپلائی کیا۔ امتحان سے چند گھنٹے قبل اینٹی کرپشن کے اہلکاروں نے کارروائی کی۔ مشکوک افراد کو گرفتار کیا۔ ان سے پرچے برآمد کیے۔ پوچھ گچھ کے بعد مزید گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ پتہ یہ چلا کہ ایک ایک پرچہ لاکھوں روپے کے عوض فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ مکروہ دھندہ نہایت منظم طریقے سے جاری تھا۔ پی پی ایس سی کے معمولی ڈیٹا انٹری کلرک سے لے کر سینئر افسر تک اس کام میں ملوث تھے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ایک کنسلٹنٹ بھی، جو اس سے پہلے این۔ ٹی۔ ایس (NTS) کے ساتھ منسلک تھا۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ اینٹی کرپشن انسپکٹر کے امتحان میں ٹاپ کرنے والے دو امیدوار بھی پرچے کی خریداری میں ملوث تھے۔ یعنی امتحانی نتائج میں ان کی اعلیٰ پوزیشن پرچہ لیک کرنے والے گروہ کی مرہون منت تھی۔ اس سکینڈل نے پی پی ایس سی کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے اور کمیشن کے تحت ماضی میں ہونے والے امتحانات کے نتائج مشکوک بنا کر رکھ دیے ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

فروری 2019 میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کے حوالے سے بھی ایسی خبریں سننے کو ملی تھیں۔ سی ایس ایس (CSS) کا پرچہ لیک ہونے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس وقت بھی گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ ملزموں نے اعتراف جرم کیا تھا کہ انہوں نے تقریباً ایک ہزار امیدواروں کو واٹس ایپ کے ذریعے پرچے فراہم کیے۔ ایک ایک پرچے کے عوض لاکھوں روپے وصول کیے۔

کچھ دن یہ معاملہ میڈیا میں زیر بحث آیا۔ اس کے بعد کوئی اطلاع یا خبر سننے کو نہیں ملی۔ پی۔ پی۔ ایس۔ سی کا اسکینڈل بھی چند دن بعد قصہ پارینہ ہو جائے گا۔ حکومتی کمیٹی کی سفارشات کسی فائل میں بند پڑی رہ جائیں گی۔ سچ یہ ہے کہ مجرموں کا کھوج لگانا، انہیں نشان عبرت بنانا اور اصلاح احوال کی سنجیدہ کاوش کرنا، ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہی نہیں ہے۔

وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنز نہایت حساس ادارے ہیں۔ ملکی نظام کی باگ ڈور تھامنے والے چھوٹے بڑے افسران انہی اداروں کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ نجانے کب سے چند کالی بھیڑیں امتحانی پرچوں کی خرد برد کا دھندہ کر رہی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ نقل اور رشوت کے بل بوتے پر نوکری حاصل کرنے والے افراد اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کس قدر دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوں گے؟ وہ دو امیدوار جنہوں نے لاکھوں روپے کی ادائیگی کے عوض پرچہ حاصل کیا۔ اس بے ایمانی کے ذریعے امتحان میں ٹاپ کیا اور اینٹی کرپشن انسپکٹر بھرتی ہو گئے، ہم ان سے رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کی امید کیونکر رکھ سکتے ہیں؟

درحقیقت ہمارا تعلیمی اور امتحانی نظام ہمہ پہلو زوال کا شکار ہے۔ چند ہفتے پہلے وکلاء کی ڈگریوں کا معاملہ میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا۔ پنجاب بار کونسل نے 230 وکیلوں کی ایل ایل بی ڈگریوں کا معاملہ جامعہ پنجاب کو بھجوایا تھا۔ گمان تھا کہ کچھ وکیلوں کی ڈگریاں مشکوک ہیں۔ جامعہ کے سٹاف نے نہایت عرق ریزی سے برسوں بلکہ عشروں پرانا ریکارڈ کھنگال ڈالا۔ کھوج لگایا تو پتہ چلا کہ کئی ناکام امیدوار امتحانی نتائج کے ریکارڈ میں رد و بدل کے مرتکب ہوئے۔

مجھے بھی بطور رکن ایک کمیٹی میں اس معاملے کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ وکلاء جو کئی برس کی پریکٹس کے بعد اب ”سینئر وکیل“ کہلاتے ہیں۔ ان کی ڈگریاں کینسل کرنا پڑیں۔ یہ کارروائی دیکھنا ایک سبق آموز تجربہ تھا۔ اندازہ ہوا کہ کس قدر ”کاوش“ کے ساتھ امتحانی ریکارڈ تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ احساس بھی ہوا کہ یہ کسی فرد واحد کا کام ہرگز نہیں۔ خیال آتا رہا کہ جتنی ”محنت“ امتحانی نتائج تبدیل کروانے میں کی گئی، کاش اس قدر کاوش امتحان پاس کرنے کے لیے کی جاتی تو ان وکلاء کو اس قدر خفت اور ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اسی طرح آئے روز جعلی میڈیکل ڈگریوں اور میڈیکل کالجوں کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

برسوں برطانیہ کی مختلف جامعات میں خدمات سر انجام دینے والے ایک ماہر تعلیم بتا رہے تھے کہ لندن میں قائم بھارتی ہائی کمیشن باقاعدگی سے پاکستان کی تعلیم و تحقیق کے متعلق شائع ہونے والی تمام خبروں کو مانیٹر کرتا ہے۔ چن چن کر تمام منفی خبروں کو جمع کیا جاتا ہے۔ ان خبروں کے تراشے اور ویڈیوز وغیرہ برطانوی وزارت تعلیم سمیت دیگر وزارتوں اور اداروں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں جعلی ڈاکٹروں، جعلی وکیلوں، جعلی پروفیسروں، جعلی محققوں، جعلی جامعات، جعلی میڈیکل کالجوں کی بھرمار ہے۔ بھرپور کاوش کی جاتی ہے کہ پاکستانیوں کو برطانیہ میں تعلیم اور نوکری کے مواقع میسر نہ آئیں۔

اگرچہ بھارت کی پاکستان دشمنی سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں، لیکن یہ جان کر مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ ہماری تعلیمی اسناد اور افرادی قوت کو بدنام کرنے کے لئے بھی بھارتی سفارتخانہ متحرک رہتا ہے۔ یقیناً برطانیہ کے علاوہ، دیگر ملکوں میں بھی بھارتی سفارتخانے یہ کام کرتے ہوں گے۔ چند ماہ پہلے یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی تھی کہ سعودی عرب، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے پاکستان کی میڈیکل ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اطلاعات تھیں کہ وہاں برسوں سے خدمات سر انجام دیتے پاکستانی ڈاکٹروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ بھارتی میڈیا نے یہ خبر بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کی۔ لیکن اس میں بھارت کا بھی کیا قصور؟ ایک دشمن ملک سے ہم اور کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اکثر و بیشتر ہم خود شکنی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

پاکستان ائر لائن کے پائلٹوں کی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملے کو یاد کریں۔ ڈگریوں کی تصدیق سے پہلے متعلقہ وفاقی وزیر نے بیان جاری کر دیا تھا کہ کئی سو پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ اس بیان پر ساری دنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔ بعد میں یہ اطلاع سراسر غلط ثابت ہوئی۔ اس بیان کے اثرات یہ ہیں کہ ابھی تک یورپی یونین ہماری فلائٹس کو بحال کر رہی ہے اور نہ ہی ہمارے پائلٹس کو تسلیم نہیں کر نے پر آمادہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اور امتحانی نظام کی اصلاح کریں۔ شفافیت اور معیار کا فقط رونا رونے کے بجائے، انہیں بہتر بنانے کے لئے عملی کاوش کریں۔ کچھ عرصے سے ہم نے جگہ جگہ ڈگریاں بیچنے والی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ معیار کا معاملہ تیزی سے زوال پذیر ہے۔

کچھ برس قبل پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین نے گورنر پنجاب (یعنی پنجاب کی جامعات کے چانسلر) کو باقاعدہ ایک خط لکھا تھا۔ توجہ دلائی تھی کہ ان کے پاس ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل جو امیدوار انٹرویو کے لئے آتے ہیں، ان کی قابلیت اور استعداد انتہائی قابل افسوس ہوتی ہے۔ بیشتر ڈگری یافتہ نوجوان اپنے تحقیقی مقالے کے موضوع پر بھی ڈھنگ سے دو تین جملے بولنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

رفیق رجوانہ صاحب پنجاب کے گورنر تھے۔ خط موصول ہوا تو انہوں نے پنجاب کی تمام جامعات کے وائس چانسلروں کو مراسلہ لکھ بھیجا۔ ہدایت کی کہ معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے فوری اقدامات کیے جائیں۔ لیکن کوئی سنجیدہ کاوش دیکھنے میں آئی، نہ کسی نے اس معاملے پر تحرک دکھایا۔

گزشتہ کئی برس سے مجھے پی ایچ ڈی اور ایم فل میں داخلہ لینے کے خواہش مند امیدواروں کے انٹرویو کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایسے مواقع میرے لیے نہایت دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ میری معلومات اور مشاہدے میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ مشاہدہ میرا یہ ہے کہ دن بدن معیار تعلیم مزید گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ ڈگری کے حصول کی ایک اندھی دوڑ میں تو سب شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن زیادہ تر امیدوار اپنے شعبے کی انتہائی بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتے۔

پچھلے ماہ مجھے بیسیوں امیدواروں کو سننے کا موقع ملا۔ ان میں وہ امیدوار بھی تھے، جو باقاعدہ کسی نہ کسی صحافتی ادارے سے منسلک ہیں۔ لیکن یہ تک نہیں جانتے کہ پیمرا (PEMRA) کا مطلب کیا ہے۔ اس کے ضابطہ اخلاق کا ایک آدھ نکتہ بتانے سے قاصر تھے۔ برسوں سے اخباری صحافت سے منسلک صحافی پریس کونسل آف پاکستان کے نام تک سے ناواقف تھے۔ اس دن سولہ دسمبر تھا۔ وہ دن جب سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا تھا۔ زیادہ تر کو اس بارے میں کوئی آگاہی نہیں تھی۔ بس اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ ہمارے نظام تعلیم پر رحم فرمائے۔ آمین

بشکریہ : روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).