قومی احتساب بیورو: کیا نیب نے وصولیوں کے متنازع اعداد و شمار کے ذریعے وزیراعظم کو گمراہ کیا؟


پاکستان میں انسدادِ بدعنوانی کے قومی ادارے (نیب) کی کارکردگی کے بارے میں سرکاری دعوؤں کے بعد سیاسی اور قانونی حلقوں میں یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے کہ کرپشن کے خلاف کام کرنے والا یہ ادارہ خاص طور پر لوٹی گئی رقم کی وصولی کے بارے میں متنازع اعداد وشمار پیش کر کے عوام اور حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں دعویٰ کیا کہ اُن کے دور حکومت یعنی گذشتہ دو سال کے عرصے میں انسدادِ بدعنوانی کے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) نے مجموعی طور پر (کرپٹ افراد سے) 389 ارب روپے ریکور کیے ہیں۔

عمران خان کے مطابق سابقہ ’بدعنوان ادوار حکومت‘ کے دس برسوں میں صرف 104 ارب روپے وصول کیے جا سکے تھے۔ وزیر اعظم نے حالیہ برسوں میں نیب کی جانب سے زیادہ ریکوریز کی وجہ ان کے دورِ حکومت میں اداروں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت کو قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا نیب نے واقعی 153 ارب کی ریکوری کی ہے؟

’نیب اب ٹیکس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا‘

’شریف کی کرپشن نہیں نیب کی نااہلی ثابت‘

وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسے وقت میں ٹویٹ کے ذریعے نیب کی کارکردگی کو سراہا ہے جب حزب اختلاف کے رہنما یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ نیب کا بنیادی کام احتساب اور بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی ملکی دولت کو ریکور کرنا ہے۔

دعوے میں حقیقت کتنی ہے؟

وزیر اعظم عمران خان نے نیب کی صرف گذشتہ دو برس کی کارکردگی کو سراہا ہے۔

چند روز قبل میڈیا کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق قومی احتساب بیورو نے سنہ 2019 میں بالواسطہ اور بلاواسطہ 137 ارب روپے ریکور کیے جبکہ سال 2018 سے لے کر 31 دسمبر 2020 تک 321 بلین ریکور ہوئے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب نے حقیقت میں یہ ریکوری کی ہے یا پھر اچھے مستقبل کی امید میں یہ اعداد و شمار پریس ریلیز کی شکل میں جاری کر دیے ہیں؟

نیب ابھی رقم کا تعین کر رہا ہے

بی بی سی نے جب وزیر اعظم کے ٹویٹ کی روشنی میں نیب سے دو سال کے کے اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا تو نیب کے ترجمان نوازش علی نے بتایا کہ نیب ابھی ریکور ہونے والی رقوم کا تعین کر رہا ہے اور ایسا متعلقہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق نیب نے ابھی ان زمینوں کی بھی مالیت کا اندازہ لگانا ہے جو ریکور کی گئی ہیں اور اس مقصد کے لیے نیب متعلقہ محکمے کی خدمات حاصل کرے گا تاکہ کوئی یہ اعتراض نہ اٹھا سکے کہ نیب نے اپنی من مرضی سے خود ہی ان کی قیمت کا تعین کر دیا ہے۔

ان کے مطابق نیب واگزار کرائی گئی زمین کی قیمت کے تعین میں بہت احتیاط سے کام لے رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ریونیو کے سینیئر حکام کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔

نیب ترجمان کے ساتھ جب وزیر اعظم عمران خان کا ٹویٹ شیئر کیا گیا تو اس پر انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نیب نے جتنی رقم براہ راست اور بالواسطہ ریکور کرائی ہے اگر اس کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے تو ریکور کی جانے والی رقم وزیر اعظم کی جانب سے بتائی گئی رقم سے بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔

اپنی بات کی دلیل میں انھوں نے کہا کہ ابھی نیب سکھر، کراچی اور بلوچستان نے جو زمینیں ریکور کی ہیں اس کی مالیت ان اعدادوشمار میں شامل نہیں کی جا رہی ہے۔

نیب نے 2018 سے 31 دسمبر 2020 تک کا ڈیٹا پریس ریلیز کی شکل میں اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا ہے۔ اس پریس ریلیز کے مطابق نیب کی ریکوری 321 ارب سے زائد بنتی ہے۔

نیب کی ویب سائٹ پر 2019 کی کارکردگی رپورٹ میں یہ درج ہے کہ نیب نے 2019 میں کل 137 ارب ریکور کیے ہیں، جن میں 121 ارب کی بالواسطہ ریکوریاں بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق نیب نے براہ راست صرف 16 ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔

تاہم نیب کے ترجمان ان اعدادوشمار کو بھی حمتی تصور نہیں کرتے۔

انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ نیب نے جو اعداد و شمار پریس ریلیز کی صورت جاری کیے ہیں یا جن اعدادو شمار پر وزیر اعظم نے ٹویٹ کر کے نیب کی حوصلہ افزائی کی ہے آخر ان کی پھر بنیاد کیا ہے؟

خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب نیب کو اپنے میگا کرپشن کے مقدمات سے ریکوری میں کوئی خاص کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

کیا وزیر اعظم کو غلط اعداد و شمار شمار پیش کیے گئے؟

مسلم لیگ نون کے رُکن قومی اسمبلی قیصر شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ نیب مختلف اوقات میں مختلف اعداد و شمار جاری کرتا رہتا ہے، جو مزید ابہام پیدا کر دیتے ہیں۔

ان کے مطابق فنانس کا تو اصول ہی یہی ہے کہ دعویٰ کرنے سے پہلے مکمل حساب کر لو جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ابھی پارلیمنٹیرینز تک کو نہیں پتا کہ کس مد میں کتنی وصولیاں کی گئی ہیں۔

ان کے خیال میں نیب جس طرح کی تصویر پیش کر رہا ہے وہ بطور معیشت دان اُن کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔

ان کے مطابق پارلیمینٹ ہر بار نیب کی کارکردگی کو تو ضرور زیر بحث لاتی ہے مگر نیب پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور وہ صرف پلی بارگین کے ذریعے سرمایہ کاروں سے رقوم وصول کرنے میں مگن رہتا ہے۔

قیصر شیخ کے مطابق جہاں نیب کے اعداد وشمار کا احتساب ہونا چاہیے وہیں اس بات کی تحقیقات بھی ہونی چاہییں کہ نیب بزنس کمیونٹی کو ڈرا اور دھمکا تو نہیں رہا ہے۔

ان کی رائے میں اکثر بیرون ملک کے سرمایہ کار احتساب کے ایسے نظام کے ڈر سے پاکستان کا رخ ہی نہیں کرتے ہیں۔ قیصر شیخ کے مطابق نیب کے اس طرح کے کنڈکٹ پر نہ صرف حزب اختلاف کے رہنماؤں نے بلکہ سپریم کورٹ نے بھی متعدد بار تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

نیب ریکوری کا تعین ایک بڑا مسئلہ کیسے بن گیا؟

روپے

اکتوبر 2019 کے آغاز میں نیب نے دعویٰ کیا تھا کہ ریکور کی جانے والی رقم 71 ارب روپے ہے تاہم دو، تین ماہ کی قلیل مدت میں ریکوری کا دعویٰ 71 ارب سے بڑھ کر 153 ارب تک پہنچا دیا گیا تھا مگر نیب کے اپنے مرتب کردہ ریکارڈ سے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل شاہ خاور خان نیب کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔

ان کے مطابق نیب کو یہ بات واضح کرنی چائیے کہ جو پیسہ ریکور ہو وہ Federal Consolidated Funds میں جانا چاہیے جہاں سے پھر اس کا مکمل حساب ہو سکے۔

شاہ خاور کے خیال میں جب اعداد و شمار میں فرق آ رہا ہو تو پھر فارنزک آڈٹ کے ذریعے ہی حقائق کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔

نیب کے سینیئر پراسیکیوٹر عمران الحق اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ نیب کا تمام ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے اور اس کا آڈٹ بھی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ہر سال نیب نے صدر پاکستان کو اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق نیب جتنا پیسہ ریکور کرتا ہے وہ 30 دن کے اندر متعلقہ بینک، محکمے، صوبے یا ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کو بھیج دیتا ہے۔

ان کے مطابق ریکور کی گئی رقم کا کچھ حصہ Federal Consolidated Funds میں بھی جمع کرا دیا جاتا ہے جو بعد میں نیب سپلیمنٹری گرانٹ کی صورت میں وصول کرتا ہے۔

نیب کو میگا کرپشن کے مقدمات سے کیا حاصل ہوا؟

نیب کے پاس اس وقت 179 ایسے مقدمات کی فہرست ہے جسے نیب میگا کرپشن کے مقدمات سے تعبیر کرتا ہے یعنی ان مقدمات سے نیب کو بڑی رقوم کی ریکوری کی امید ہے مگر کئی برس گزر جانے کے بعد بھی ان میں سے صرف 97 مقدمات میں ہی ریفرنس دائر کیے جا سکے ہیں جو ابھی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

ان میں سے 57 مقدمات اب نیب کی فہرست سے نکال دیے گئے ہیں۔ ماتحت عدالتوں سے اب تک نیب کے حق میں صرف 17 فیصلے آ سکے ہیں۔

نیب مالی خرد برد کے27 مقدمات سے اب تک کوئی ریکوری نہیں کر سکا ہے۔

نیب ان مقدمات میں سے صرف ایک میں پلی بارگین کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے، جس میں 300 ملین رقم کی خرد بُرد کا الزام تھا۔

دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نیب نے بینکوں کی براہ راست ریکوری کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔

زمینوں پر قبضے کے 19 مقدمات کا کیا بنا؟

جاوید اقبال

نیب چیئرمین جاوید اقبال

ان میگا کرپشن کے مقدمات میں متعدد مقدمات انکوائری کے ابتدائی مرحلے میں ہی بند کر دیے گئے جبکہ چار میں نیب نے والنٹیری ریٹرن کے ذریعے کچھ رقم وصول اور اور صرف دو مقدمات میں بلی بارگین کے ذریعے محدود رقوم حاصل کر سکا۔

نیب نے کچھ عرصے قبل بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے داماد زین ملک سے بھی پلی بارگین کی ہے۔

گذشتہ سال تین بڑی پلی بارگین منظر عام پر آ سکیں، جن سے نیب کو چند ارب حاصل ہو سکے۔ زین ملک نے نیب کو نو ارب روپے دیے جبکہ نیب نے لکی علی سے دو ارب جبکہ جعلی بینک اکاؤنٹس میں 23 ارب روپے وصول کیے۔

اختیارات کے ناجائز استعمال کے 19 مقدمات میں کیا ہوا؟

اختیارات کے ناجائز استعمال کے 19 مقدمات میں نیب کو ریکوری میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

نیب نے متعدد انکوائریاں بند کر دیں ہیں اور صرف دو مقدمات میں ملزمان نے رضاکارانہ طور پر محدود رقوم واپس کی ہیں مگر ان ریکوریوں کا تعلق ماضی کے ادوار سے ہے۔

قانونی طور پر نیب کے دعوؤں کی چھان بین کیسے ممکن؟

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف فارنزک آڈٹ سے ہی یہ حقیقت سامنے لائی جا سکتی ہے کہ دراصل نیب نے کتنی ریکوری کی ہے اور اس عرصے میں نیب پر سرکار کا کتنا پیسا خرچ ہوا۔

نیب کی درجہ بندی کے مطابق ریکوری آٹھ مد میں ہوتی ہے:

  • والنٹری ریٹرن
  • پلی بارگین
  • بینکوں کے قرضوں کا معاملہ جو نیب دیکھ رہا ہے
  • وہ قرضے جو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ کیے
  • قرضوں کی ری سٹرکچرنگ یا ری شیڈولنگ
  • پنجاب کوآپریٹو بورڈ لمیٹڈ (پی سی بی ایل) کے مقدمے میں ریکوری
  • عدالت کی طرف سے عائد جرمانے
  • ‘ان ڈائریکٹ’ طریقے سے ریکوری

نیب کی درجہ بندی کے مطابق زیادہ تر ریکوری سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے بینک قرض ڈیفالٹرز کی صورت اور بلواسطہ طریقوں سے ہوئی ہے یعنی جس میں نیب کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہوتا۔

‘اِن ڈائریکٹ’ یعنی بلواسطہ ریکوری وہ ہوتی ہے جیسے عدالت کسی مقدمے میں کسی ملزم کو کہتی ہے کہ وہ اتنے پیسے قومی خزانے میں جمع کرا دے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ملک ریاض کو 460 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے حکم دیا ہے۔

ملک ریاض جیسے جیسے رقم سپریم کورٹ میں جمع کرا رہے ہیں نیب بھی اس جمع شدہ رقم کو اپنی دستاویزات میں اِن ڈائریکٹ ریکوری کی مد میں ظاہر کرتا جا رہا ہے۔ نیب ترجمان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر نیب کا ہی ریفرنس تھا جس کی بنیاد پر پیسے قومی خزانے میں جمع کرائے جا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے بحریہ ٹاؤن سے متعلق بینچ میں شامل ججز نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران ہی نیب پر یہ واضح کردیا تھا کہ سپریم کورٹ کی کارکردگی کو وہ اپنے کھاتے میں مت ڈالیں۔

تاہم نیب ترجمان نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جو پیسہ قومی خزانے میں چلا جاتا ہے تو ریکوری کی تمام اقسام میں نیب کا کردار ضرور شامل ہوتا ہے۔

والنٹری ریٹرن یا پلی بارگین کا عمل کیسے طے پاتا ہے

میگا کرپشن کیسز (بد عنوانی کے بڑے مقدمات) میں نیب کو ملزمان کے ساتھ بارگین یعنی ڈیل کرنے جیسے اختیارات بھی حاصل ہیں، جن پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔

والنٹری ریٹرن یعنی ملزمان کا عدالتی کارروائی سے قبل مبینہ طور پر لوٹی گئی دولت کا کچھ حصہ اپنی مرضی سے واپس دینے پر رضامند ہو جانا۔

قانونی ماہرین کے خیال میں اس عمل میں پراسکیوشن کا کوئی کمال نہیں ہوتا بلکہ نیب قوانین کے تحت عدالتی جنگ سے پہلے ہی وقت اور وسائل بچانے کے غرض سے ایسی ڈیل کی جاتی ہے جس کے تحت ملزم مبینہ طور پر لوٹی گئی دولت کے کچھ فیصدی حصے کو واپس کرنے پر رضامند ہوجاتا ہے۔

اس عمل میں عدالتی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

البتہ پلی بارگین انوسٹیگیشن اور ٹرائل کے دوران بھی کی جا سکتی ہے۔ اس عمل میں صرف ٹرائل کورٹ سے توثیق حاصل کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp