زائر حرمین (قسط پنجم)



جیو نیٹ ورک کا آغاز ہوا تو اوائل دور میں اس پر ایک پروگرام نشر ہوتا تھا۔ پروگرام کا نام تھا ”جارج کا پاکستان“ ۔ جارج ایک غیر ملکی (برطانوی) تھا جو پاکستان کو از خود ”دریافت“ کرنا چاہتا تھا۔ دریافت اس طرح سے کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے پاکستان میں گھومے پھرے اور دیکھے کہ یہ ملک اور یہاں کے رہنے والے کیسے ہیں، یہاں کی روایات کیا ہیں، یہاں کی بودوباش کیسی ہے، یہاں کے پکوان کیسے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ پروگرام اپنے وقت کے مقبول ترین پروگراموں میں شمار ہوتا تھا۔

جمعرات کو میں نے جارج کے نقش قدم پر چلنے کا پلان بنایا۔ پلان کی بابت گھر والوں کو مطلع کیا اور ہوٹل کی شٹل سروس میں سوار ہو کر بس ٹرمینل تک کا سفر طے کیا۔ ٹرمینل پر اتر کر گردوپیش کا جائزہ لیتے ہوئے خراماں خراماں حرم کی جانب چلنے لگی۔ داخلی دروازوں کے قریب پہنچ کر سوچا کہ کس دروازے سے اندر داخل ہوا جائے۔ باب ترہتر کا انتخاب کیا۔ جوتے اتار کر ایک تھیلے میں منتقل کیے اور باب ترہتر سے نیچے بیسمنٹ میں جاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔

خانہ کعبہ کی حاضریوں میں جوتے تھیلے میں ڈال کر ساتھ رکھنے کا ایک عملی فائدہ رہا اور وہ یہ کہ یہاں ہمہ وقت ایک خلقت موجود رہتی ہے، کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ نماز پڑھنے کی جگہ کہاں ملے گی۔ کبھی کبھی ایک دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور جگہ کی تلاش میں چلتے چلتے داخلے کی بالکل مخالف سمت جا نکلتے ہیں۔ ایسے میں واپسی پر پھر سے داخلے کے دروازے تک جانے کے لئے بہت سا چلنا پڑتا ہے جس میں وقت اور قوت کا زیاں ہوتا ہے اور وہاں آپ ان دونوں چیزوں کے زیاں کے متحمل ہرگز نہیں ہو سکتے۔

نیچے جانے والی سیڑھیوں کا اختتام ایک نہایت وسیع و عریض لائبریری پر ہوتا ہے۔ لائبریری میں موجود ان گنت بک ریکس میں قرآن مجید کے بے شمار نسخے سجے ہیں۔ بیسمنٹ فلور کی اس لائبریری میں بنیادی طور پر نسخوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک عرب ممالک میں رائج عربی رسم الخط والے نسخے اور دوسرے برصغیر پاک و ہند میں رائج عربی رسم الخط والے نسخے۔ اور پھر ان دونوں اقسام کے نسخوں میں نصف بڑے حروف والے نسخے اور نصف نسبتاً چھوٹے حروف والے نسخے۔

میں نے باری باری دونوں اقسام کے نسخے اٹھا کر رسم الخط کے اس فرق پر غور کرتے ہوئے چند سورتوں کی تلاوت کی اور انہیں واپس ریک میں رکھ کر اس فلور کا طائرانہ جائزہ لیا۔ چونکہ نماز کا وقت بیت چکا تھا، اس لیے وہاں موجود بیشتر افراد قرآن پاک کی تلاوت اور تسبیحات میں مشغول نظر آئے۔ کچھ آرام کرتے بھی دکھائی دیے۔ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ دعاؤں کی فہرست جو احباب نے ہمراہ کی تھی اس کو اس کے سامع تک پہنچانے کا اس سے نادر موقع شاید ہی ملے۔

سو فہرست نکال کر سب کی عرضیاں پیش کر دیں اور  بے فکر ہو گئی۔ اب وہاں سے کوچ کا ارادہ کیا۔ بیسمنٹ سے گراؤنڈ فلور پر آئی۔ خانہ کعبہ کے صحن میں پہنچ کر چند تصاویر لیں۔ چونکہ وہاں زائرین کی کثیر تعداد طواف میں مصروف تھی اس لیے فسٹ فلور کی جانب قدم بڑھا دیے۔ فسٹ فلور پر بھی طواف کرنے والے موجود تھے۔ ان کے راستے سے ہٹ کر ایک جگہ کھڑی ہو گئی اور خانہ کعبہ کے صحن میں طواف کرتے لوگوں کو دیکھنے لگی۔

ہر طرح کے امتیاز سے بالاتر ہو کر ایک اللہ کی عبادت میں مصروف لوگ۔ جمعرات ہونے کے سبب لوگوں کی کثیر تعداد۔ سب کے سب ایک ہم آہنگی سے دائروں میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے۔ بلا شبہ ایک خوبصورت اور قابل دید منظر تھا۔ میں مزید وہاں کھڑی یہ منظر اپنی آنکھوں میں محفوظ کرتی رہتی لیکن بھائی کی کال آ گئی اور مجھے وہاں سے رخصت لینی پڑی۔

اس دن جارج کے نقش قدم پر اتنا ہی چل سکی۔ باقی دنوں میں بھی جب جب موقع ملا اس طریق کو قائم رکھا۔ پہلے دن جارج کا سیاق و سباق بیان کرنا پڑا تھا، اس کے بعد یہ ہمارے لیے ایک اصطلاح بن گئی۔ جب بھی اکیلے نکلنے کا پلان ہوتا تو ”جارج“ کہہ کر نکل کھڑی ہوتی۔

جارج بننے کا اصل سکوپ بیرون ملک ہے جہاں آپ تن تنہا بے فکری سے گھوم پھر سکتے ہیں، جہاں جتنی دیر رکنا چاہیں رک سکتے ہیں۔ کوئی آپ کے چلنے، آپ کے رکنے کا نوٹس نہیں  لے گا۔ سب اپنے اپنے کاموں یا مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان میں کسی خاتون کے لیے ایسا طریق رکھنا کسی قدر مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).