کرائے کے کرپشن بیانیے کو مثالیے کی ضرورت نہیں


6 روز تک سربراہ مملکت کا انتظار کرنے والی ہزارہ برادری کی طرف سے اپنے پیاروں کی تدفین کے بعد وزیراعظم کوئٹہ پہنچے اور لواحقین کو بہادر خان وومن یونیورسٹی بلوا کر ان سے اظہار تعزیت کے بعد اپنی کوئٹہ تاخیر سے آنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”کسی بھی وزیر اعظم کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، جب ایک عام شہری تھا تو فوراً آپ کے پاس آ گیا تھا لیکن اب میں وزیراعظم ہوں، جب آپ شرط لگائیں گے تو سب کے لیے یہ مثال بن جائے گی ، کل کوئی اور سانحہ بھی ہو سکتا ہے“

وزیراعظم کی وضاحت اپنی جگہ مگر ایک لمحے کو سوچیے جس ماں کا لخت جگر خون میں تر ہو، جن چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی موت کی وادی میں اتر چکا ہو ، جس باپ کا آخری سہارا تابوت میں پڑا ہو ، جس کا سہاگ اجڑ چکا ہو ، جس معصوم بچی کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھین لیا گیا ہو اور جن کا آخری سہارا اب ریاست ہو اور وہ ریاست کے سربراہ سے ہمدردی کے دو بول سننا چاہتے ہوں ، وہ حاکم وقت کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت کی داستان سنا کر انصاف کی یقین دہانی کے دو بول سننا چاہتے ہوں اور انہیں کہہ دیا جائے کہ آپ مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے،  یہ اس ماں، بہن، بیٹی اور اس باپ کے لیے کتنا کرب ناک لمحہ ہو گا ، لکھا نہیں جاسکتا۔  اس کی اذیت اور درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس درد سے دوچار ہوا ہو۔

مگر ہزارہ برادری کے درد کی کہانی کوئی نئی نہیں ، جب سے اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگوں کو خون میں نہلا دیا گیا،  2001 سے  لے کر 2021 تک ، ان بیس سالوں میں 80 سے زائد مرتبہ ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کر کے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جن میں 1600 سے زائد معصوم ہزارہ شہید ہو چکے ہیں ، متعدد بار ہزارہ اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کرتے رہے ، کئی کئی روز تک حکمرانوں اور ریاستی اداروں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے رہے ، اپنے تحفظ کی ضمانتیں مانگتے رہے ، اپنے جینے کا حق مانگتے رہے مگر ہر بار ایک نئی تسلی دی جاتی ہے ، ہر بار ایک نیا معاہدہ ہوتا ہے اور ہر چند سال بعد ایک نئی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم  نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی جس میں ہر مکتب فکر ہر طبقہ زندگی اور ہر ادارے نے بے بہا قربانیاں دیں ۔ ملک کو معاشی معاشرتی اور اقتصادی طور پر ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ۔ اس کے باوجود پاکستانی قوم نے سیسہ پلائی دیوار بن کر حالات کا مقابلہ کیا ۔ یہ اسی ہمت حوصلے جذبے قربانیوں اور اتحاد و یکجہتی کا ثمر ہے کہ آج بہت حد تک دہشت گردی پر قابو پایا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے اور عملی طور پر شدت پسندوں، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے نظریاتی سہولت کاروں کے خلاف مکمل کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی دہشت گردی کی نرسریاں پروان چڑھ رہی ہیں اور ہر چند ماہ بعد دہشت گردی کا کوئی نا کوئی افسوسناک سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔

بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائی اسی سلسلے کی ایک خوف ناک کڑی ہے جس سے نہ صرف پورے ملک میں خوف اور عدم تحفظ کی لہر نے جنم لیا بلکہ فرقہ واریت کو بھی ہوا ملی ، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

یقیناً کسی بھی سفاکانہ کارروائی کے خلاف مذمت ایک کمزور ترین احتجاج ہوتا ہے لیکن اگر حکومت وقت اور ذمہ دار ریاستی ادارے بھی صرف مذمت تک محدود ہو جائیں تو پھر عام لوگوں میں احساس تحفظ دم توڑ جاتا ہے اور یہی کچھ سال ہا سال سے ہزارہ برادری کے ساتھ ہو رہا ہے ، ہر سانحے کے بعد ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے مگر مستقل بنیادوں پر ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکا۔

ریاست ایک ماں کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جب بھی کسی پر کوئی مشکل وقت آتا ہے وہ اپنے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے ، اس لیے ہزارہ برادری کا وزیر اعظم کی کوئٹہ آمد کا مطالبہ اس ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت سے غیر قانونی تھا اور نہ ہی غیر اخلاقی مگر حکومتی رویہ انتہائی افسوسناک تھا جس کی وجہ سے پورے ملک میں اضطراب کی لہر نے جنم لیا اور کوئٹہ سے شروع ہونے والے دھرنے پورے ملک میں پھیل گئے۔

ایک تسلسل کے ساتھ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی ریاست اور ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ہاں البتہ عدم کارکردگی کے لگے ان زخموں پر ہمدردی کا مرہم لگا کر ان کے درد کو کچھ حد تک کم کیا جا سکتا تھا مگر بروقت ایسا نہیں کیا جا سکا ۔

معلوم نہیں کہ آخر حکومت وقت ایسی نئی مثال کیوں نہیں قائم کرنا چاہتی حالانکہ عوام  نے تو تبدیلی والوں کو مثال بننے کے لیے کامیاب کرایا تھا، انہیں آنے والے لوگوں کے لیے بہت سی مثالیں قائم کرنا تھیں ، انہیں چوروں اور لٹیروں کو عبرت ناک سزائیں دے کر مثال قائم کرنا تھی ، کڑا احتساب کر کے مثال قائم کرنا تھی ، مافیاز کو عبرت کا نشان بنا کر مثال قائم کرنا تھی انہیں دو نہیں ایک پاکستان بنا کر، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کر کے، امیر اور غریب کی تفریق ختم کر کے مثال قائم کرنا تھی مگر افسوس انھوں نے بروقت انصاف کی امید رکھنے والوں کے پاس جا کر بروقت ہمدردی کے دو بول بولنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ کہیں یہ آنے والوں کے لیے مثال نہ بن جائے ، شاید وہ تبدیلی اور مثالیں قائم کرنے کے تمام تر دعووں کے باوجود اپنے دور حکومت میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے جو آنے والے حکمرانوں کے لیے قابل تقلید مثال بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).