عہد حاضر اور ناصر عباس نیر کا افسانہ


ناصر عباس نیر افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو میں ادبی تھیوری کے نظری اور عملی مباحث پر استناد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی فکر اور فن واحد معنی کے اجارے کی بجائے معنی کی تکثیریت کا اثبات کرتے ہیں۔ وہ کلیت اور آفاقیت کے دعوؤں پر قائم مہابیانیوں کے متبادل بیانیے تخلیق کرتے ہیں۔ وہ جبر، تشدد اور استحصال کی صورتوں کا، خواہ وہ طاقت کے مراکز سے پیدا ہوں یا ان مراکز کو تقویت دیتے ہوئے تقلیدی روش کے حامل اذہان سے، اپنی انسان دوست فکر سے جوابی بیانیہ تیار کرتے ہیں۔ ناصر صاحب اپنے افسانوں میں نہ صرف نئی استعماریت میں جکڑے ایک مابعد نو آبادیاتی معاشرے کے مسائل کو موضوع بناتے ہیں بلکہ بنیادی انسانی صورت حال سے جنم لینے والے سوالات کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

عہد حاضر میں انسان کی تشکیل میں جو عناصر حصہ لیتے ہیں وہ دنیا کی مقتدر قوتوں پر اور عام انسانوں پر الگ الگ انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ محکوم طبقات تاریخ کے دہرے جبر کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو مابعد نو آبادیاتی عرصے میں بھی نو آبادیاتی صورت حال کا استقرار اور دوسری طرف مابعد جدید عہد میں عالم گیریت کا غلغلہ، اگرچہ ایک مقام پر ایک دوسرے سے ٹکراتے بھی محسوس ہوتے ہیں مگر ان کا تصادم تیسری دنیا کے انسانوں کے معاملے میں اس طرح ہم آہنگی میں بدلتا ہے کہ یہ تشکیلی وجود ایک معمول کا درجہ اختیار کرنے میں دیر نہیں کرتا۔

افسانہ ”خواب سگاں“ میں ایک محفل میں کتوں کی عادات و اطوار اور خصوصیات کے بارے میں بحث کے دوران بیان کنندہ پر یہ لازم ٹھہرتا ہے کہ وہ ملک سراج کے فارم ہاؤس پر موجود نایاب نسل کے کتوں کے ساتھ وقت گزار کر معلوم کرے کہ وہ کیا خواب دیکھتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ بیان کنندہ خود اپنے خوابوں سے قطع تعلق کرے۔ بیان کنندہ بہت تگ و دو کے بعد اپنے خوف پر قابو پا کر کتوں سے انسیت کا مرحلہ طے کرتا ہے اور بالآخر جن خوابوں کو وہ سو صفحات پر رقم کرتا ہے انھیں اسی ملک سراج کے حوالے کرنے پر مجبور ہے جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ جاسوس ہے اور بڑے بڑے وزیر مشیر بھی اس کے ہاں حاضری دیتے ہیں۔

خواب کیا ہے؟ خواب جامد وجود میں امکان اور امید کا دروازہ کھولتا ہے۔ دوسری طرف نئے استعماری بندوبست میں یہی خواب وہ خام مال ہیں جسے استعمال کر کے ضرورت اور طلب کی ”پیداوار“ بڑھائی جاتی ہے۔ جس سے استعمار اپنی استعماریت کو استحکام دیتا ہے اور محکوم اپنی محکومیت کے گڑھے میں کچھ مزید گہرا اتر جاتا ہے۔ عہد حاضر میں استعمار زدہ باشندوں کے خواب اگر ان کی اپنی ملکیت میں رہیں گے تو وہ انھیں زندگی گزارنے کی متبادل راہیں دکھائیں گے، یک رخی حقیقت کے جبر کو توڑیں گے اور تشدد سے نجات دلائیں گے۔ نتیجتاً نیا استعماری بندوبست متزلزل ہوگا جو کسی بھی طرح مقتدر قوتوں کو راس نہیں آتا۔ اسی لیے ”خواب سگاں“ کا بیان کنندہ کسی بھی قیمت پر اپنے مرقوم خوابوں کی نقل حاصل نہیں کر سکتا۔

افسانہ ”غارت گر“ میں ناصر عباس نیر ایک طرف وقت کے بہاؤ میں خس و خاشاک کی طرح بہتے انسان، ان کی آرزوؤں، امنگوں، چاہتوں اور ہجرو وصال کی ساعتوں کو دکھاتے ہیں تو دوسری طرف اس بہاؤ میں استقامت سے باقی رہنے والے فن کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔ جب فن کی زندگی کا اکھوا تخلیق کار کے وجود کی ان اتھاہ گہرائیوں جن کا سراغ شاید وقت کی غارت گر قوت بھی نہیں پا سکتی سے پھوٹتا ہے تو وقت کا وار اس پر بے اثر ٹھہرتا ہے۔

یہی فن خواہ شاعری اور فکشن میں ظاہر ہو ، خواہ مصوری اور موسیقی میں ، خود تو وقت کی غارت گری سے محفوظ رہتا ہے مگر وقت کی آغوش میں پرورش پانے والی ان قوتوں کی بنیادیں ہلا ڈالتا ہے جن کی عمارت واحد معنی کے اجارے پر تعمیر ہوتی ہے جبکہ استعماریت میں جکڑے ہوئے اذہان کو امکانات کے جہانوں کی سیر کراتا ہے اور غلامی کے آسیب سے نجات دلاتا ہے۔

طاقت اور اختیار کے حامل گروہ یا انسان دو طرح کی شدید مجبوریوں کا شکار رہتے ہیں۔ ایک تو وہ اپنے اختیار کے چھن جانے کے خوف سے اس کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دوسری مجبوری جو کسی حد تک پہلی کی آغوش میں ہی پروان چڑھتی ہے۔ وہ اپنی طاقت کو انسان کی حرکات و سکنات پر کنٹرول سے توسیع دے کر انسان کے خیالات، سوچ اور فکر تک کو اپنے احاطہ تسلط میں لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خواہ اس کے لیے وبائے عام کے خوف میں مبتلا انسانوں کے خوف سے ہی فائدہ کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

نو آبادیاتی ماضی کا بوجھ اٹھائے باشندوں میں طاقت کے اداروں میں پائی جانے والی اس قسم کی عیاری کو سمجھنے کی صلاحیت یوں بھی نہیں پنپتی۔ وہاں کا تعلیمی نظام سوال کی حوصلہ شکنی اور تقلید کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ صورت حال نو آبادیاتی آقاؤں کے مفاد میں تھی مگر افسوس کہ یہی وراثت آزادی کے بعد مقامی حکمرانوں میں منتقل ہو جاتی ہے اور پھر نئی استعماریت میں صارفی ثقافت اور مابعد جدید فضا کی دیگر صورتوں سمیت یہ ورثہ بھی مستحکم ہوتا جاتا ہے۔

ناصر عباس نیر تیسری دنیا میں رائج ان استحصالی رویوں کو نہ صرف نشان زد کرتے ہیں بلکہ ان کی تشکیل میں کارفرما عناصر کو سطح پر لاتے ہوئے متبادل بیانیے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ افسانہ ”اتنے آوارہ کتے کہاں سے آئے“ کے یہ جملے دیکھیے:

”اگلے کئی دنوں کتا مار مہم جاری رہی۔ یہ اتنے آوارہ کتے کہاں سے آ گئے، یہ سوال سب کے ذہن میں تھا۔ کتوں کی لاشیں سڑتی اور تعفن پھیلاتی رہیں۔ لوگ ان کی وجہ سے ایک دوسرے سے الجھتے رہے۔ دو دن بعد لوگ سڑکوں پر آئے لیکن بہت کم۔“

سرمایہ دارانہ دور کے آغاز کے ساتھ ہی بادشاہت اور مذہب کے گٹھ جوڑ میں ایک تیسری قوت بھی شامل ہو گئی۔ اب طاقت کے حصے داروں میں اضافے کے ساتھ ساتھ طاقت پر قبضے کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی۔ اب انسانوں پر اختیار قائم رکھنے کے لیے جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی تسلط کا ہتھیار بھی استعمال کیا جانے لگا۔ (شہنشاہیت میں بھی ذہنی تسلط قائم کیا جاتا تھا مگر مخصوص منطقے میں، اتنی وسعت سے ہر گز نہیں) یہ تسلط پہلے کی نسبت زیادہ مستحکم ہوتا ہے۔

البتہ ان معاشروں میں اس کے اندر ہی اس سے آزاد ہونے کی صورت بھی نمودار ہوتی ہے جہاں افراد کے ذہن کو آزادانہ سوچنے، تجزیہ کرنے، تشکیکی رویہ اپنانے، سوال اٹھانے اور تضادات پر غور کرنے کی تربیت دی گئی ہو۔ مگر جس سماج میں ذہن تقلید محض اور اندھے اعتقاد کا عادی ہو وہاں طاقت کے ادارے اپنے من پسند بیانیوں کو رائج کر کے جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کا تسلط قائم کرتے ہیں اور مکمل اختیار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے جو نو آبادیاتی ماضی کے حامل ہیں اور آزادی کے بعد ایک نئی استعماریت کے تجربے سے گزر رہے ہیں وہاں اسی قسم کے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔

ناصر عباس نیر کا افسانہ نو آبادیاتی صورت حال میں جکڑے معاشروں کی روح کے اس کرب کو محسوس بھی کرتا ہے اور ایک قدم آگے بڑھ کر اس پر سوال بھی اٹھاتا ہے۔ افسانہ ”تمھارا قانون ہو یا“ خواب سگاں ”، مرگ عام نعمت ہے۔ ہو یا“ اتنے آوارہ کتے کہاں سے آئے ”،“ ملبے کا بزنس ہو ”یا“ یاد اور بھول کا کھیل ”ناصر عباس نیر ان منطقوں میں قدم رکھتے ہیں جن کی خبر مابعد نو آبادیاتی باشندوں کو اول تو ہوتی ہی نہیں اگر ہو بھی جائے تو سوچ کر ہی پر جلتے ہیں۔

ناصر عباس نیر کا افسانہ واہموں، خوابوں، حکایتوں اور داستانوی طرز بیان سے قائم ہوتا ہے۔ اکثر بیان کنندہ کو کہانی سناتے سناتے کوئی ضمنی حوالہ، کوئی خواب، کسی کتاب میں پڑھا گیا واقعہ، کسی بادشاہ کی کہانی، کسی قدیم زمانے کی روایت یا پھر کسی اجنبی زمان و مکان سے تعلق رکھنے والا قصہ یاد آ جاتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک بیان کنندہ کی بات کو کوئی دوسرا کردار کسی اور حوالے سے مختلف معنی کے ساتھ بیان کرنے لگتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی بیان کنندہ ہوتا ہے مگر کسی حتمی بات، رائے یا نتیجے کا اظہار اس کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی معنی کو مسلسل التوا میں ڈالے رکھتا ہے۔ مصنف کی یہ تکنیک نئی استعماریت میں طاقت کے ارتکاز، جبر اور تشدد پر مبنی بیانیوں کے متبادل بیانیوں کے لیے دروازہ کھولتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).