ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس: ’فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے، کسی سے کوئی بیک ڈور رابطے نہیں‘


پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کے کسی سے کوئی بیک ڈور رابطے نہیں، فوج کو سیاسی معاملات میں آنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے۔

ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کو کم کرانے میں فوج کے کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی ائی ایس پی آر نے کہا کہ فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے، اس ضمن میں جو بھی بات کی گئی ہے حکومت پاکستان نے اس کا بہت اچھے طریقے سے جواب دیا ہے۔

انھوں نے کہا ’فوج کو سیاسی معاملات میں آنے کے ضرورت ہے اور نہ ہی سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومتِ وقت نے فوج کو الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی، فوج نے پوری دیانت داری سے الیکشن کرائے، پھر بھی کسی کو کسی قسم کا کوئی شک ہے تو متعلقہ اداروں سے رجوع کیا جانا چاہیے۔

فوج مخالف بیانیے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پاکستان فوج کے ترجمان نے کہا کہ فوج اپنا کام کر رہی ہے اور قربانیاں بھی دے رہی ہے، انھوں نے کہا کہ تنقید اور الزامات کا جواب اس وقت دیا جاتا ہے جب اس میں کوئی وزن یا حقیقت ہو۔

انھوں نے کہا ’ہم بہت مصروف ہیں، ہم ان چیزوں میں نہ پڑنا چاہتے ہیں نہ پڑیں گے، فوج کا جو اپنا کام ہے وہ کرتی رہے گی، پوری فوج اور شہدا کے اہلخانہ کے حوصلے بہت بلند ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف فوج کو بغاوت کرنے کا کہہ رہے ہیں: وزیراعظم کا الزام

فوج سے بات ہو سکتی ہے لیکن عوام کے سامنے، چھپ چھپا کر نہیں: مریم نواز

’کسی طرح کے مِنی یا گرینڈ ڈائیلاگ کی باتیں بے معنی ہیں‘

ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مولانا فضل الرحمان نے دھمکی دی ہے کہ وہ پنڈی آئیں گے، میجر جنرل بابر افتخار نے کہا: ’مجھے ان کے پنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، اگر وہ آنا چاہتے ہیں تو ہم انھیں چائے پانی پلائیں گے اور ان کا خیال کریں گے۔‘

سکیورٹی صورتحال

اس موقع پر بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں مستقل کمی کا رجحان ہے، پہلے ہماری توجہ سابقہ فاٹا پر تھی اور اب گزشتہ دو برسوں کے دوران ہم نے اپنی توجہ بلوچستان کی جانب موڑ دی ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا 40 فیصد حصہ ہے، وہاں ہر جگہ نفری کھڑی کرنا ممکن نہیں لیکن صوبے کی سکیورٹی کو مضبوط کیا جا رہا ہے، یہ یقینی بنایا جائے گا کہ بلوچستان محفوظ ہو کیونکہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان بہت بڑا علاقہ ہے، اس کی سکیورٹی کو مربوط کرنے کے لیے بہت سے وسائل چاہئیں، ہم نے اس مد میں بلوچستان کی ایف سی کی استعداد میں اضافہ کیا ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے ایک نیا سکیورٹی ڈویژن بنایا گیا ہے جو گوادر میں ہے اور ساحلی پٹی کی سکیورٹی کو بھی دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی بھی مسائل ختم نھیں ہوئے اور حالات میں مزید بہتری آئے گی۔

ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے یہ بھی بتایا کہ آرمی چیف اسی ہفتے کوئٹہ کا دورہ کریں گے۔

پاکستان انڈیا سرحد پر بڑھتی کشیدگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے انڈین اشتعال انگیزیوں کا ہمیشہ بھرپور طریقے سے جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بدقسمتی سے انڈیا شہری آبادی کو بہت زیادہ نشانہ بنا رہا ہے، ہمارا جواب ہمیشہ ان کے فوجی اہداف ہوتے ہیں لیکن وہ شہریوں عورتوں، بچوں اور بزرگوں تک کو نشانہ بناتے ہیں حتیٰ کہ جانوروں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

انھوں نے بتایا ’حکومت پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر رہنے والوں کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ مختص کیے ہیں، ہر گھر میں ان کو حفاظتی بنکر بنا کر دے رہے ہیں اور اسی طرح ہم نے اپنے دفاعی مورچوں کو بھی بہت بہتر کیا ہے، ان اقدامات کے بعد امید ہے کہ شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے میں نمایاں کمی آئے گی۔‘

اپنی پریس کانفرنس میں سکیورٹی سے متعلق اقدامات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت 3 لاکھ 71 ہزار سے زیادہ انٹیلیجنس آپریشن کیے گئے، 72 ہزار سے زائد اسلحہ، 50 لاکھ امیونیشن اور ساڑھے 4 سو ٹن بارود برآمد کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’آج تمام قبائلی اضلاع مکمل طور پر خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں، دہشت گردی کے بڑے واقعات میں سنہ 2019 کی نسبت 2020 میں 45 فیصد کمی آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ سال ملک میں 50 فیصد سے زائد دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کو ناکام بنایا۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سنہ 2020 میں خودکش حملوں میں 97 فیصد واضح کمی آئی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کراچی، جو آبادی کے حساب سے دنیا کے بڑے شہروں میں 12ویں نمبر پر ہے اور ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، 2014 میں کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا اور 2020 میں 103 نمبر پر آ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp