یہ لڑکی کنواری ہے، سو ڈالر دو سو ڈالر


” جمیلہ کنواری ہے۔ جمیلہ سو ڈالر۔ جمیلہ دو سو ڈالر۔“ ایک آدمی منہ سے چھوٹا لاؤڈ سپیکر لگا کر چلا رہا تھا۔ یہ کسی بکری یا اونٹنی کی فروخت نہیں ہو رہی۔ اس ویڈیو میں داعش سے وابستہ یہ داڑھی والا شخص چلا چلا کر لڑکیاں فروخت کر رہا ہے۔ یہ داعش کے ایک کیمپ کا منظر ہے جہاں پر گرفتار ہونے والی لڑکیوں کی فروخت کا دھندا کیا جا رہا ہے۔

یہ ویڈیو صحیح ہے کہ نہیں؟ یا خود داعش نے اپنی دہشت پھیلانے کے لئے جاری کی تھی۔ یہ ایک لاحاصل بحث ہو گی۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ داعش نے خاص طور پر یزیدی مذہب سے وابستہ لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کو لونڈیاں بنا کر فروخت کیا تھا۔

جی وہی داعش جس نے حال ہی میں بلوچستان میں ہزارہ برادری کے گیارہ افراد کو ذبح کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے بعد ہمارے معزز وزیراعظم نے ہزارہ برادری کے لوگوں کے ہاتھوں سے بلیک میل ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ویسے تو یہ جملہ کہنا کہ ”میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔“ کچھ اچھے ذوق کی علامت نہیں ہے۔ لیکن جب انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہو تو اعلیٰ ذوق کی زیادہ ضرورت باقی نہیں رہتی۔

18 فروری 2020 کو ”ہم سب“ پر خاکسار کا ایک کالم شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ”کیا داعش کے جنگجو پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں؟“ ۔ اس کالم میں خاکسار نے عرض کیا تھا کہ کئی رپورٹوں سے معلوم ہو رہا ہے کہ اب اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے جنگجو مختلف ممالک خاص طور پر افغانستان سے بھاگ کر پاکستان میں جمع ہونا شروع کر دیں گے اور یہ خبریں مل رہی ہیں کہ انہوں افغانستان کے صوبہ کنڑ اور پاکستان کی سرحد پر لکڑی کی سمگلنگ پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔

اس بات پر رونے دھونے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت پاکستان کی حکومت نے ان خبروں پر توجہ نہیں دی تھی۔ نتیجہ گیارہ لاشوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ نتیجہ ایک دن میں سامنے نہیں آیا۔ ایک سال پہلے سے یہ خبریں منظر عام پر آ چکی تھیں کہ باقی ممالک سے بھاگنے کے بعد اب داعش کے دہشت گرد پاکستان میں پاؤں جمانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔

پاکستان میں یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی ہے کہ پہلے دہشت گردوں کی کارروائیوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور جب وہ مستحکم ہو جاتے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ اب ان کو کچھ کہا تو بہت خون خرابہ ہو گا، بہتر ہے کہ ان سے مذاکرات کیے جائیں۔ ان مذاکرات کے نام پر دہشت گرد مزید طاقت حاصل کرتے ہیں اور یہ منحوس چکر جاری رہتا ہے۔

اگر حکومت اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ قتل و غارت صرف ہزارہ برادری تک محدود رہے گی یا یہ کہ داعش کے لوگ صرف مذہبی اقلیتوں کے چند لوگوں کو قتل کرتے رہیں گے تو بہتر ہو گا کہ اس خوش فہمی کو ترک کر دیا جائے۔ اس سے پہلے یہ گروہ شام اور عراق میں جو چاند چڑھا چکا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔

دنیا میں کوئی ان کی کارروائیوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا۔ لیکن چند ہفتوں میں انہوں نے اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر عراق اور شام کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے تباہی مچا دی۔ ان کے کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے خاص طور پر یزیدی مسلک سے وابستہ لوگوں کی آبادیوں پر حملہ کر کے ان کو گرفتار کر لیا۔ پہلے تو انہیں مذہب تبدیل کرنے کا کہا لیکن جب انہوں نے اس کا انکار کیا تو ان کے مردوں کو قتل کر دیا اور اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے ان کی عورتوں اور لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر یا تو اپنے جنگجوؤں میں بطور انعام تقسیم کیا یا بھیڑ بکریوں کی طرح ان کی بولیاں لگا کر ان کو نیلام کیا۔ لڑکیوں کی یہ فروخت صرف ایک بار نہیں ہوئی اکثر عورتوں کو کئی مرتبہ فروخت کیا گیا۔

ان کا شکار ہونے والی ہزاروں لڑکیوں میں سے ایک امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی نادیہ مراد صاحبہ بھی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ لڑکیوں کی یہ منڈی رات کو لگا کرتی تھی۔ گرفتار لڑکیوں کے کانوں میں آوازیں آنا شروع ہو جاتی تھیں کہ داعش کے نام نہاد مجاہد اس خرید میں حصہ لینے کے لیے اپنے نام لکھوا رہے ہیں۔ پھر دروازہ کھلتا تھا اور ان میں سے ایک جنگجو داخل ہوتا تھا۔

سب لڑکیاں سہم کر سمٹ جاتی تھیں یا بے سود چیخیں مارنا شروع کر دیتی تھیں۔ پھر اس بد معاش کا ہاتھ کسی خوب صورت لڑکی کی طرف بڑھتا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے بال اور اس کے دانت دیکھ کر کہتا۔ ”کیا یہ کنواری ہے؟“ ۔ اگر مال پسند آتا تو اس لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا چلا جاتا۔

جب ان لڑکیوں کی چیخیں اور زیادہ بلند ہوتیں تو گارڈ چلا کر انہیں خاموش رہنے کا حکم صادر کرتا۔ اگر وہ پھر بھی نہ باز آتیں تو مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا جاتا۔ ایک روز داعش کا ذرا اعلیٰ درجے کا بدمعاش نادیہ مراد صاحبہ کے قید خانے میں آیا۔ اس کے پاس ایک لونڈی پہلے سے موجود تھی لیکن ایک جیسے کھانے سے شاید اس کا جی بھر چکا تھا۔

اس نے نادیہ صاحبہ کے پاس آ کر کہا ”کھڑی ہو جاؤ“ ۔ جب دہشت زدہ نادیہ کھڑی نہ ہوئیں تو اس نے ایک عدد ٹھڈے سے ان کی تواضع کی۔ ”تم گلابی جیکٹ والی۔ میں نے تم سے کہا تھا کھڑی ہو جاؤ۔“ اس بھتنے سے انڈوں اور کولون کی ملی جلی بو آ رہی تھی۔

نادیہ نے ایک گارڈ کے پاؤں پکڑ لیے۔ جو کچھ چاہو مجھ سے کر لو مگر مجھے اس کے ساتھ نہ بھجواؤ۔ گارڈ کو نہ جانے کیا خیال آیا، ان نے کہا ”یہ میری ہے۔“ اس بھتنے نے دوسری لڑکی کی تلاش شروع کر دی۔ یہ سہولت ہر روز نہ ملتی۔ ان لڑکیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی بولیاں لگیں اور دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ نادیہ مراد صاحبہ کو بھی بار بار فروخت کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ ان تجربات پر ایک کتاب The Last Girl ”آخری لڑکی“ لکھ چکی ہیں۔

[گارڈین 6 اکتوبر 2018 ]

ہزارہ کے مقتولوں کی تعزیت کے لئے شرائط لگاتے ہوئے شاید محترم وزیراعظم صاحب کا یہ خیال ہو کہ یہ تو عراق اور شام کے واقعات ہیں۔ پاکستان میں تو ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ میری درخواست ہے کہ وہ اپنے مشیر طاہر اشرفی صاحب سے دریافت فرمائیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مشیر تھے تو انہوں نے جیل میں لشکر جھنگوی کے گرفتار دہشت گردوں سے ملاقات کی اور ان دہشت گردوں نے انہیں بتایا کہ انہیں شائع شدہ فتوے دکھائے گئے تھے کہ ان مسالک سے وابستہ لڑکیاں مال غنیمت کے طور پر تمہارے لیے حلال ہیں اور ان کو قتل کرنا ایک مذہبی ضرورت ہے۔ اور طاہر اشرفی صاحب نے خود ایک تقریر میں اس کا ذکر کیا تھا۔

(A Debate on Takfeer and Khrooj edited by Safdar Sial p 102)

داعش کے یہ منصوبے صرف عراق کے لیے نہیں تھے۔ ہر ملک کے بارے میں ان کے یہی منصوبے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سال سے یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ داعش پاکستان میں قدم جما رہی ہے۔ حکومت نے ان کے سدباب کے لیے کیا اقدامات کیے؟ میری وزیراعظم صاحب سے درخواست ہے کہ اگر وہ ہزارہ کے مظلوموں کی آہ و بکا نہیں سن سکے تو کم از کم ان لڑکیوں کی داستانیں ہی سن لیں جنہیں مجمع میں کھڑا کر کے آوازیں لگائی جاتی تھیں۔ ”یہ لڑکی کنواری ہے۔ سو ڈالر۔ دو سو ڈالر۔“

کیا داعش کے جنگجو پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).