ہزارہ شہریوں کو انصاف ملنا چاہیے



کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ مختلف لکھاریوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس افسوس ناک واقعے پر تبصرے کیے ہیں۔ اس ظلم پر جتنا بھی قلم اٹھایا جائے کم ہے۔ کیونکہ یہ بد نصیب لوگ بڑے عرصے سے دہشت گردی کے واقعات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس قتل و غارت کے نتیجے میں ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ظالموں نے اس برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد کو بڑی بے دردی اور سفاکی سے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس سانحے نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہزارہ برادری کے مظلوم افراد سے اظہار یکجہتی کیا۔

مقتولین کے بدنصیب ورثاء ایک ہفتے تک اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر اس امید پر بیٹھے رہے کہ ریاست کا حکمران آ کر ان کے سروں پر ہاتھ رکھے گا۔ ان کی یہ امید بلاوجہ نہیں تھی کیونکہ وہ ایک اسلامی جمہوری حکومت کے باسی تھے۔ ان بدقسمت لوگوں کو شاید یہ بھی امید ہو چلی تھی کہ وہ ریاست مدینہ کے شہری ہیں اور مدینے کی ریاست کا داعی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے ضرور آئے گا۔

بدقسمتی سے ان کی امید اس وقت دم توڑ گئی جب حاکم وقت نے ان کی فریاد سننے سے صاف انکار کر دیا اور علی الاعلان ان کو ٹکا سا جواب دے دیا۔ محترم وزیراعظم کے اس ردعمل پر پوری قوم ہکا بکا رہ گئی۔ ریاست کے سربراہ کی یہ منطق کہ ورثاء کی طرف سے عائد کیا جانے والا مطالبہ بلیک میلنگ کے مترادف ہے ، کو کسی حلقے کی جانب سے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنے چند وزراء اور چیف منسٹر بلوچستان کی کوئٹہ جانے کی درخواست کو بھی رد کر دیا۔ موصوف کی اس بے حسی پر مبنی رویے نے ایک طرف قتل ہونے والوں کے رشتے داروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور دوسری طرف پوری قوم کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا۔

خان صاحب نے کوئٹہ نہ جانے کا جو جواز پیش کیا ہے، وہ بالکل وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ ہزارہ برادری کا مسئلہ باقی ملک میں پیش آنے والے واقعات سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ یہ بدنصیب لوگ جو کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کافی عرصے سے ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے تھے۔ ان کا یہ مطالبہ بڑی حد تک جائز تھا کہ وزیراعظم ان کے پاس آ کر ان کو تسلی بھی دیں اور انہیں مستقبل میں تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائیں کیونکہ صوبائی حکومت سے وہ لوگ بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے۔

لیکن عمران خان ایک ضدی بچے کی طرح اڑ گئے۔ اور لاشوں کی تدفین تک بلوچستان جانے سے صاف انکار کر دیا۔ آخر کار مقتولین کے دکھی ورثاء نے ہی شکست تسلیم کرنے میں عافیت سمجھی اور اپنے معصوم اور بے ضرر مطالبے سے دست برداری اختیار کرلی۔

بعد میں جناب وزیراعظم اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شاہانہ انداز میں عازم کوئٹہ ہوئے۔ ان کی شاہی سواری جب اس بد نصیب شہر سے گزررہی تھی تو کسی پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ شہر میں کوئی بندہ نظر آ رہا تھا نہ بندے کی ذات۔ اپنے آپ کو ریاست کا چوتھا ستون کہنے اور کہلوانے والوں کو بھی وزیراعظم کے دورے سے بے خبر رکھا گیا۔ پی ٹی وی کی کمان سنبھالنے والے وکیل جناب نعیم بخاری کی مہربانی سے صرف سرکاری ٹی وی کو اس دورے کی کوریج کرنے کی اجازت دی گئی۔

وزیراعظم جو آج کل کالے چشمے استعمال کرتے ہیں ، نے ایک یونیورسٹی کے لان میں چند بد نصیب خواتین کو بلا کر شرف ملاقات بخشا،  ان کو مطالبات منظور ہونے کی نوید سنائی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس مظلوم برادری کے مطالبات صرف منظوری کی حد تک ہی رہ جانے کا قوی امکان ہے۔ ان پر عمل درآمد ہوتا بڑا مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وعدے کر کے مکر جانے میں تحریک انصاف کی حکومت اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں پاکستانی سوشل میڈیا چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ ہمارے نوجوان چند سطری ٹویٹ کے ذریعے ایسی گہری بات کہہ ڈالتے ہیں کہ کسی صحافی کا پورا کالم یا بلاگ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ ایسے ایسے ٹرینڈ چلاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ اب اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ موجودہ حکومت نے اس کے پر کاٹ دیے ہیں۔ زیادہ تر بے روزگار صحافی حضرات نے یوٹیوب چینل بنا لیے ہیں اور اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف ہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہمارا آج کا موضوع ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ تھا۔ جب بھی یہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں تو چند دن تک حکومتی اکابرین ان کو تسلیاں دینے کے بعد تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی مگر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو مستقل بنیادوں پر سیکورٹی فراہم کرے تاکہ ان کو تحفظ کا احساس ہو۔ ان کا بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ کئی گھرانے اپنے کمانے والوں سے محروم ہو چکے ہیں۔

ہمارے ملک میں یہ عجیب روایت ہے کہ سیاستدانوں، وزرا اور بڑے لوگوں کو آؤٹ آف دا وے سیکورٹی مہیا کی جاتی ہے لیکن گلی محلوں اور بازاروں میں جہاں لاقانونیت عروج پر ہوتی ہے ، کو مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں جرائم اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سیکورٹی اداروں کی غفلت اور مناسب گشت کا نہ ہونا بھی ہے۔

مدینے کی ریاست بنانا تو درکنار حکومت اپنے موجودہ وسائل کو بروئے کار لا کر شہریوں کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہمارے وزیراعظم صرف گفتار کے غازی بن چکے ہیں۔ وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کو کب تک بے وقوف بناتے رہیں گے۔ یہ بات ان کو یاد رکھنی چاہیے کہ قدرت کے کاموں میں دیر ضرور ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں۔ ظلم کی سیاہ رات ایک دن ضرور ختم ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).