خیرپور میں سات سالہ بچی کا مبینہ ریپ اور قتل: ’میری بیٹی کام سے واپسی پر گھر کھانا بھی لاتی تھی‘


ریپ
’کیلے کے فصل میں میری سات سالہ بیٹی کی نیم برہنہ لاش پڑی ہوئی تھی، اس کو گلے میں دوپٹا ڈال کر مارا گیا تھا۔‘

سات سالہ بچی کے والد سے جب ٹیلیفون پر بات ہوئی تو وہ لوگوں سے بیٹی کے قتل پر تعزیت وصول کر رہے تھے اور ہر کوئی ان سے یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔

بچی کے والد سندھ کے ضلع خیرپور کے رہائشی ہیں۔ گذشتہ روز ان کی سات سالہ بیٹی کی لاش ملی تھی جو والد کے مطابق گذشتہ تین روز سے گم تھی۔

ایس ایس پی خیرپور امیر سعود مگسی نے بی بی سی کو بتایا کہ بچی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچی کا ریپ کیا گیا ہے جبکہ پولیس نے تین نامعلوم افراد کے خلاف قتل اور مبینہ ریپ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

بچی کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی گھر سے لگ بھگ ایک کلومیٹر دور واقعہ ایک حویلی میں گھر کے کام کاج کرنے جاتی تھی اور کبھی کبھار وہاں رات کو رُک بھی جاتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کو کیسے پہچانیں؟

قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل کی منظوری دے دی

پاکستان میں ’سیکس اوفینڈر رجسٹر‘ کیوں موجود نہیں؟

’نو جنوری کی صبح بھی وہ گھر سے وہاں (حویلی) جانے کے لیے نکلی تھی۔‘

’جب دو روز گزر گئے اور وہ واپس نہیں آئی تو میں نے گھر والوں سے معلوم کیا کہ بچی نظر نہیں آ رہی ہے وہ کہاں ہے؟ بچوں نے بتایا کہ وہ نہیں آئی ہے، جس کے بعد میں اپنی بچی کی معلومات کے لیے حویلی گیا جنھوں نے بتایا کہ وہ تو یہاں آئی ہی نہیں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ حویلی والوں نے انھیں پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کا مشورہ دیا لیکن انھوں نے کہا کہ وہ پہلے رشتے داروں سے معلوم کر لیں پھر ان سے اس حوالے سے مشاورت کریں گے۔

والد کے مطابق اس کے بعد وہ اس خاتون کے ہاں بھی گئے جس کا حویلی آنا جانا تھا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہیں وہ اس خاتون کے ساتھ تو نہیں، لیکن پھر بھی کچھ پتا نہ چلا۔

قتل

پاکستان میں کمسن بچیوں کے اغوا، ریپ اور قتل کے واقعات گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں

والد نے بتایا کہ گذشتہ روز پیروں کے نشانات کی مدد سے انھوں نے اپنی بچی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تو گھر سے کوئی نصف کلومیٹر دور ان کی بیٹی کی لاش ملی، جس پر تشدد کیا گیا تھا اور وہ نیم برہنہ حالت میں تھی۔۔۔

بچی کے والد کرائے کی موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی حویلی میں کام کر کے گھر واپسی پر (حویلی سے) کھانا بھی لاتی تھی۔ والد کے مطابق جائے وقوع سے انھیں کھانے کا برتن، ایک جوتا اور دوپٹہ بھی ملا ہے۔

مقامی پولیس نے والد کی مدعیت میں تین نامعلوم افراد کے خلاف گینگ ریپ، قتل اور انسداد دہشت گردی کی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ مقامی ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ بچی کی تدفین کر دی گئی ہے۔

ایس ایس پی خیرپور امیر سعود مگسی نے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ ابھی دستیاب نہیں ہے تاہم ابتدائی رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریپ کیا گیا ہے اور جو پیروں کے نشانات ہیں وہ کم از کم دو افراد کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل لڑکی لاپتہ ہوئی اور دوسرے روز اس کی لاش ملی ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لاش پرانی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس نے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر لیے ہیں اور چند مشکوک افراد کو حراست میں بھی لیا ہے، لیکن ابھی تک یہ ایک بلائنڈ کیس ہے۔

پاکستان میں گذشتہ رات سے اس بارے میں ٹوئٹر پر ٹرینڈ چل رہے ہیں اور صارفین ناصرف اس واقعے پر دکھ کا اظہار کر رہے ہیں بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام اور سخت سے سخت سزائیں دینے کے مطالبات دہرائے جا رہے ہیں۔

صارف کومل شاہد نے لکھا کہ ’سات سالہ بچی گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ انھیں اغوا کیا گیا، ریپ کیا گیا اور قتل کیا گیا۔ ایک اور دن اور ایک اور نیا ہیش ٹیگ۔ اس ملک میں اس بچی کو انصاف کون دے گا۔ کچھ گھنٹوں تک یہ ہیش ٹیگ چلے اور پھر سب بھول جائیں گے۔‘

شیخ عبدالرشید نامی صارف نے لکھا کہ ’خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کے جو بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو پائیں گے جب تک جب تک ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے مسئلے کو حل نہیں کر لیا جاتا۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’ریاست ماں ہوتی ہے۔ ریاست کب اپنا یہ کردار ادا کرے گی۔ اس طرح کے واقعات کب تک ہوتے رہیں گے۔‘

عائشہ رضا نے لکھا کہ ’ایک اور دن اور ایک اور زینب کا ریپ۔ ہم کس انہونی کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp