حسن نثار قومی نفسیات کا نمائندہ نشان کیسے بنا؟ (وجاہت مسعود کا ناقابل اشاعت کالم)


آج اس پیر فرتوت، تند خو صحافی کا ذکر رہے جو ہماری اجتماعی نفسیات اور ہمارے انفرادی مزاج کا نمائندہ ترین نمونہ ہے۔ حقیقی نام لینے کی ضرورت نہیں۔ غالب نے بھی تو کہا تھا، ’بنا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا‘۔ آپ انہیں اسرارالحق کہہ لیجیے۔ اگرچہ 69 برس اور چھ ماہ کی عمر میں ایسی سیماب صفت ہستی کے لئے کون سے اسرار کی دریافت باقی رہ گئی ہو گی۔ اس پیرانہ سالی میں تو عاقبت کے امکانات تک پختہ خطوط اختیار کر لیتے ہیں۔ محترم صحافی کے دوست اور دشمن متفق ہیں کہ یہ بندہ سرزمین پاک کا افلاطون زمان ہے، جلالی طبع ہے، قرب خسروی کا جویا ہے، نرگسیت کے کوہ و دمن کی گیاہ آخریں ہے اور اس دعوے کے ازخود بیان میں انکسار کا قائل نہیں۔ قدرت حق نے اس مشت خاک میں وہ تمام خوب و زشت عناصر جمع کر دیے ہیں جن کے 23 کروڑ باشندگان ملک میں فشار اور انتشار سے ہمارا قومی تشخص مرتب ہوا ہے۔ البتہ ایک خوبی ایسی ہے جو اس نادرہ روزگار ہستی نے ذاتی کاہش سے پیدا کی ہے۔ بعض معمولی درجے کے شعرا کے ہاں آپ نے شعر دولخت ہوتے دیکھا ہو گا۔ اسے شعری عیب شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ممدوح نے نثر میں یہ کمال دکھایا ہے کہ ایک ہی جملے کے دو حصوں میں معنی کی ایسی خلیج رکھ دیتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والا بھونچکا رہ جاتا ہے البتہ حضرت کے مزاج شناس ہوائے شہر تمنا کا رخ جان لیتے ہیں۔
اگلے روز فرمایا کہ ( 1 ) وزیراعظم نے بلیک میل کا لفظ غلط استعمال کیا لیکن ان کی نیت غلط نہیں تھی۔ ( 2 ) مریم نے کوئٹہ جا کر اچھا کام کیا، انہیں ماڈل ٹاﺅن جا کر اپنے باپ اور چچا کی طرف سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔ ( 3 ) مولانا فضل الرحمن خود ٹھیک ہیں مگر ان کی صحبت غلط ہے۔ ( 4 ) پرویز مشرف کا دور نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے بہتر تھا۔ ( 5 ) مسلمانوں کا نظام خلافت کا ہے۔ ہماری بدنصیبی کہ یہاں چپڑ قناتیے مغربی جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ اب ان بیانات پر غور فرمائیے۔ نیتوں کا حال کشاف ازل جانتا ہے۔ صحافی سررشتہ خبر سے تعلق رکھتا ہے، نیت کے ضمن میں یہی کافی ہے کہ ہزارہ والوں کا مبینہ بلیک میل کوئٹہ پہنچ کر پی ڈی ایم پر چپکا دیا گیا۔ مریم نواز کے کوئٹہ پہنچنے میں فی نکالنا تھی، ماڈل ٹاﺅن کی پخ لگا دی۔ جون 2014 کا سانحہ ماڈل ٹاﺅن زیر سماعت ہے، مریم کس خوشی میں معافی مانگے۔ وہ دستار صد رنگ کا ہامان پیادہ کینیڈا سے پلٹ کر پیروی کیوں نہیں کرتا؟ اپنے رفقا کا انتخاب مولانا فضل الرحمن کی صوابدید ہے، قاضی جی شہر کی فکر میں دبلے کیوں ہو رہے ہیں۔ ویسے ان چار پرفتوح ہستیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو طویل صحبت کے بعد ابھی مولانا سے الگ ہوئی ہیں۔ غاصب پرویز مشرف کا کسی منتخب صدر اور وزیر اعظم سے موازنہ وہی کر سکتا ہے جس نے دستور کی شق 5 اور 6 نہ پڑھی ہو۔ یہ ملک مغربی جمہوریت کے اصولوں کی روشنی میں حاصل کیا گیا تھا۔ چپڑ قناتیے کا مطلب تو کوئی چپڑ قناتیا ہی بتا سکتا ہے اور اگر اس میں ہمت ہے تو اپنی مطبوع خلافت کی صراحت میں چند صفحات کا ایک کتابچہ ہی لکھ دے۔ بہتوں کا بھلا ہو گا۔


ہمارے محترم صحافی کو اپنے علم پر بہت غرہ ہے اور دوسروں کی جہالت پر ایمان بالغیب۔ علم کا فیصلہ موضوعی نہیں ہوتا۔ جو شخص 16 برس تک تیسری سیاسی قوت کے ٹھیلے پر ہانک لگاتا رہا ہو، ستمبر 2014 میں کنٹینر پر جا چڑھا، وہ چند مہینوں میں چیں بول گیا۔ اپنی مردم شناسی پر سرعام نفرین کی۔ ہت ترے شعور کی دم میں نمدہ۔ جو ایم کیو ایم کے قصیدے لکھتا تھا، اب اسے بانی تحریک کا نام تک لینے کی توفیق نہیں۔ دہشت گردی کے واقعات پر ماتم کرتے رہے، کبھی دہشت گردی کی سازش کا پردہ چاک کیا؟ 30 برس میں کوئی ایک تجزیہ ایسا کیا جو درست نکلا ہو؟ یہ دانش نہیں، طاقت کی اوٹ میں سازش کی حمایت کے بدلے ذاتی مفاد کی آڑھت ہے۔ دلیل ہے نہیں اس لئے گالی دشنام کو شعار بنایا ہے۔ اہل سیاست کو برا کہنے کا شوق ہے تو قائد اعظم، نشتر، بھٹو اور بزنجو جیسے چار نہیں صرف دو غیرسیاستدان نکال کر دکھائیں۔ مغرب پسندی کے طعنے دینے والے خود مغرب کے تسموں سے بندھے ہیں۔ عورت کی تکریم سے اس لئے قاصر ہیں کہ احساس کمتری نے شدید ذہنی عدم تحفظ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خوف یہ ہے کہ اپنی ہمہ جہت نالائقی اور اخلاق باختگی کے باوجود ایک مسخ معاشرے میں جو ناجائز رسوخ حاصل کر رکھا ہے، اس سے محروم نہ ہو جائیں۔ الف لیلہ کا ابوالحسن سیاسی عمل کو حرم سرا کی سازش اور اقتدار کو بخشندہ خیرات سمجھتا ہے۔ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اپنے ملک کی قانون سازی، وسائل کی تقسیم اور پالیسی سازی میں حصہ لے۔ یہ سیاست ہے اور مساوی شہریت کے اصول پر ووٹ سیاسی عمل کی بنیادی اکائی ہے۔ ادھر جو سیاسی عمل ہی کے مخالف ہیں وہ دھمکی دیتے ہیں کہ ’فوج کے مخالفوں کا علاج ہو گا‘۔ شفاف جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے فوج کے مخالف نہیں، فوج کے دستوری احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان عناصر کی مخالفت کرتے ہیں جو دستوری عمل میں خلل اندازی کر کے فوج کا احترام داغدار کرتے ہیں۔ دوسری طرف کرپشن کی دہائی دینے والے ’ایک پیج‘ کی غیر دستوری اصطلاح کے ذریعے اقتدار کی دوئی تسلیم کرتے ہیں، ماورائے دستور بندوبست کا اقرار کرتے ہیں۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اتالیق پرویز مشرف کی مالا جپتا ہے اور تلمیذ ایوب خان کے گن گاتا ہے۔ روحانی شعور کی اس اعلیٰ سطح پر کیسے سمجھایا جائے کہ 2013 میں گردشی قرضہ 308 ارب روپے تھا جو جون 2018 میں 1126 ارب روپے ہو گیا۔ اب یہ قرضہ 2350 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ محترم صحافی کی دانش، وزیر اعظم کا ویژن اور ساحر علی بگا کا بیانیہ!
تم مرے نغمہ گرو، لاکھ ہنر مند سہی
راز آہنگ سمجھتے تو نہ مارے جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).