’انڈیا میں سیلفیوں سے سب سے زیادہ اموات‘: اب ٹرین کی چھت پر ایک لڑکا ہلاک


انڈیا
اس نے کالی پینٹ، کالی جیکٹ، کالے جوتے اور سفید دستانے پہنے ہوئے تھے۔ اس کے ہاتھوں میں ایک موبائل فون تھا۔ اس میں فرنٹ کیمرا تھا۔ اسے اپنی سیلفی لینے کا شوق تھااور اس نے اپنے فیس بک پیج پر بہت سی سیلفیاں لگائیں ہوئی تھیں۔

اتوار کی دوپہر جب وہ اپنے والد کی دکان پر تھا تو اس نے ٹرین کی آواز سنی۔

اسے خواہش ہوئی کہ وہ ٹرین کی چھت پر کھڑا ہوکر سیلفی لے۔ وہ قریبی ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا جہاں آئل ٹینکروں والی ایک مال بردار ٹرین کھڑی تھی۔ یہ اس کے لیے سیلفی لینے کا موقع تھا۔

وہ ایک بوگی کی چھت پر چڑھ گیا۔ مسکراتے ہوئے جیسے ہی اس نے سیلفی لینے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا، اسے اوپر سے گزرنے والے ہائی ٹینشن برقی تار نے چھو لیا۔

اسے ایک تیز جھٹکا لگا اور وہ جلنے لگا۔ بجلی کے کرنٹ اور اس کے جسم میں لگی آگ کی وجہ سے چند منٹوں میں اس کی موت ہوگئی اور اس کا جسم ٹرین کی چھت سے نیچے گر گیا۔

اس بچے کی عمر صرف 14 سال تھی اور اس کا نام ستیام سونی تھا۔ ریاست جھارکھنڈ کے ضلع رام گڑھ میں رہنے والے سنتوش کمار سونی کا بیٹا اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔

اس کی اکلوتی بہن بار بار اپنے بھائی کے بارے میں والدین سے سوالات کر رہی تھی تاہم گھر والے اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔

ستیام کے والد بھی کسی سے بات نہیں کر پا رہے۔ وہ صدمے میں ہیں۔ چتر پور بازار میں ان کی اور ان کے بیشتر رشتے داروں کے برتنوں کی دکان ہے۔

ان کے دادا گنگا پرساد نے بی بی سی کو بتایا کہ ستیام گھر سے اپنے والد کی دکان پر آیا تھا تاکہ اس کے والد اور چچا کھانے کے لیے گھر جاسکیں۔

انڈیا

جب وہ لوگ کھانا کھا کر دکان پر واپس آئے تو انھوں نے ستیام کو واپس گھر بھیج دیا۔ تاہم وہ گھر جانے کے بجائے اپنے دوستوں کے ہمراہ سٹیشن چلا گیا۔

انھوں نے کہا: ‘ہمارا خیال تھا کہ وہ گھر چلا گیا ہے۔ چتر پور میں اتوار کا بازار تھا۔ لہذا وہاں ایک ہجوم تھا۔ پھر کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور بتایا کہ ایک لڑکا سٹیشن پر زندہ جل گیا ہے۔ لوگ اسے دیکھنے جا رہے ہیں۔ پھر کچھ اور لوگ آئے اور یہی بات کہی۔ تب ہم سٹیشن گئے۔ وہاں پر ستیام کی لاش پڑی تھی اور پولیس والوں نے اسے تولیے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ہم پر تو پہاڑ ٹوٹ گیا ہے۔ نہ جانے کس غلطی کی ہمیں سزا ملی ہے۔‘

واقعہ کیسے ہوا؟

عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے ستیام کو ٹرین کی چھت پر چڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ صرف اتنا دیکھا کہ کہ وہ جل رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔ لیکن اسے بچانے کی کوشش کرنے سے پہلے ہی اس کی موت ہوگئی۔

سٹیشن ماسٹر مکیش کمار نے بتایا کہ مال بردار ٹرین شام 3.42 بجے رکی اور یہ حادثہ شام 3.55 پر پیش آیا۔

رانچی ریلوے ڈویژن کے چیف تعلقات عامہ کے افسر نیرج کمار نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہمیں اس لڑکے کی موت کا شدید غم ہے۔ زندگی بہت قیمتی ہے۔ ٹرین کی چھت پر چڑھنے سے جان جا سکتی ہے جیسا کہ اس واقعے میں ہوا ہے۔’

ستیام کی موت سے چند دن قبل بھی ایک اور قریبی ضلع گوملہ میں بھی پکنک کے لیے جانے والا 14 سالہ لڑکا سیلفی لیتے ہوئے 40 فٹ نیچے کھائی میں گر کر مر گیا۔

جون 2019 میں ضلع صاحب گنج کے پون پاسوان نامی نوجوان نے پستول سے سیلفی لیتے ہوئے خود کو گولی مار دی اور ہلاک ہو گیا۔ اس سے قبل فروری 2019 میں ایک 20 سالہ شخص ٹرین کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے فوت ہوگیا تھا۔

انڈیا میں سیلفیوں سے سب سے زیادہ اموات

آل انڈیا انسٹٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے طلباء کے ذریعہ کی گئی تحقیق کے مطابق دنیا میں سیلفی لیتے ہوئے سب سے زیادہ اموات انڈیا میں ہوئی ہیں۔

انڈیا

اکتوبر 2011 اور نومبر 2017 کے مابین اعداد و شمار کی بنیاد پر ان طلبا نے دعویٰ کیا کہ اس دوران 137 حادثات میں مجموعی طور پر 259 افراد ہلاک ہوئے۔

ان کا تحقیقی مقالہ ‘بُون اینڈ بین’ کے عنوان سے ‘جرنل آف فیملی میڈیسن اینڈ پرائمری کیئر’ میں شائع ہوا تھا اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔

تحقیق کے مطابق سیلفی لیتے ہوئے ہلاک ہونے والوں میں 72.5 فیصد مرد اور 27.5 فیصد خواتین شامل ہیں۔

ایسے واقعات کو روکنے کا حل کیا ہے؟

سینٹرل انسٹٹیوٹ برائے سائکیاٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سنجے منڈا کا کہنا ہے ‘سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ اپنی زیادہ سے زیادہ تصاویر لے کر اسے فیس بک یا دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ان تصویروں پر لائکس حاصل کرنے والے بہت سارے لوگ مشورے یا علاج کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں جن میں اس کی لت لگ گئی ہو تی ہے۔’

وہ کہتے ہیں ‘اس رجحان کے طبی علاج سے زیادہ خود پر قابو رکھنا ایک بہتر حل ہے۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی زندگی قیمتی ہے۔ ان کی بقا سیلفی اور سوشل میڈیا کی بجائے ان کے کنبے کے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر لوگ اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں تو پھر شاید سیلفیوں کی وجہ سے اموات کی تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp