شکارپور سے شکاگو تک


کراچی ائرپورٹ پر ستار موجود تھا۔ شکاگو سے جہاز کو کراچی پہنچنے میں پچیس گھنٹے لگ گئے تھے۔ جہاز شکاگو سے آٹھ گھنٹے میں فرینکفرٹ آیا تھا۔ دو گھنٹے فرینکفرٹ میں پورے کرنے کے بعد نو گھنٹے کا سفر دبئی تک تھا۔ دبئی میں چار گھنٹے رکنے کے بعد کراچی پہنچنے میں مزید تین گھنٹے لگ گئے تھے۔

میں دس سال سے شکاگو میں رہ رہا تھا۔ لیاقت میڈیکل کالج حیدر آباد سے ڈگری پاس کرنے کے بعد ہی میں نے امریکا کے ویزے کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ امریکا آنے کے بعد میں نے دماغی بیماریوں کے علاج میں مہارت حاصل کی تھی اور اس میں ہی امریکا کے بورڈ کا امتحان پاس کر لیا تھا۔

امریکا بڑی جگہ ہے۔ بڑے ہسپتال ہیں اور بڑے لوگ ہیں۔ لیکن میں بھی اچھا ہی ڈاکٹر تھا۔ جب میں نے نوکری تلاش کرنی شروع کی تو تقریباً اکیس جگہوں سے میرے لیے انٹرویو کالز آئے تھے، نو جگہ انٹرویو دینے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ شکاگو میں کام کروں گا۔

شکاگو میں کام کرنے کی کئی وجوہات تھیں۔ یہ شہر مجھے بہت پسند تھا۔ یہ امریکا کا ایک پرانا شہر ہے اس کی اپنی خوبصورتی ہے اور اپنا حسن۔ یہاں کی شدید سردی بھی اچھی ہے اور گرمی کا مزا کچھ اور ہے۔ شہر ایسا ہے کہ ہر ایک کے لیے اپنا دامن پھیلائے بیٹھا ہے۔ کالا، گورا، مسلمان، یہودی، عیسائی، ہندو، روسی، جاپانی، چینی، آئرش ہر طرح کے لوگ یہاں مل جاتے ہیں۔ یہ شہر ہر ایک کو کچھ دینے کو تیار ہے اور ہر ایک اس شہر کو کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔

میرا بچپن شکارپور میں گزرا تھا۔ ہزاروں سال پرانے اس شہر میں میں پیدا ہوا، اس کی دھول مٹی کھا کر بڑا ہوا تھا اور یہاں کا پانی پی پی کر جوان ہوا تھا۔ میرے بچپن کا شکار پور بہت خوبصورت تھا جہاں ہندو مسلمان دونوں مل جل کر رہتے تھے۔ کہتے ہیں برسوں سے تجارتی قافلے شکارپور کے مختلف دروازوں سے آتے تھے اور کاروبار نمٹا کر ان دروازوں سے باہر چلے جاتے۔ یہ دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہوتے تھے۔ ہندو، مسلمان، بدھسٹ، سکھ اور بعد میں عیسائی بھی۔

شہر میں رہنے والوں کی بڑی عزت تھی۔ یہ تو خود مجھے یاد ہے میرے بچپن کا شکار پور صاف تھا، خوبصورت تھا۔ روزانہ صبح صبح پورے شہر میں جھاڑو لگتا تھا اور پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔ شام کے وقت جب شہر کی دیواریں گرم ہوتی تھیں تو بازاروں میں پانی کے چھڑکاؤ کے بعد جو سوندھی سوندھی خوشبو اٹھتی تھی وہ صرف شکارپور کی ہی خوشبو تھی۔

شکارپور کی شام کا دنیا میں کسی بھی شام سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہائے ظالم شکارپور۔ جامشورو میں پڑھنے کے دوران ہر مہینے میں دو دفعہ شکارپور کا چکر لگتا تھا۔ شکارپور کی قلفی، شکارپور کا حلوہ اور شکارپور کا اچار۔ شکارپور کی صبح، شکارپور کی شام، شکارپور کی رات۔ ہر ایک کا ایک طلسم تھا، ہر ایک کا جادو۔

ڈاکٹر بننے کے بعد ایک سال کراچی میں، میں نے ہاؤس جاب کی تھی پھر سوچا تھا کہ کسی طرح سے شکارپور میں نوکری مل جائے تو پھر شکارپور ہی چلا جاؤں گا اور زندگی اچھی طرح سے گزر جائے گی۔ اپنے لوگوں کے درمیان، ان کی خدمت کرتے ہوئے، اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کرتے ہوئے۔ مگر کراچی میں سارا پروگرام بدل گیا۔ وہاں سول ہسپتال میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے لڑکے تھے، کوئی انگلستان جانے کا پروگرام بنا رہا تھا، کسی نے امریکا جانے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ میں نے بھی سوچا چلو امریکا کا امتحان تو دے ہی دیتا ہوں۔ امتحان بھی دیا اور پاس بھی ہو گیا۔ اس زمانے میں فوراً ہی امریکا سے نوکری کی آفر آجاتی تھی۔ مجھے بھی آ گئی۔

میں نے سوچا تھا کہ چار پانچ سال امریکا میں گزار کر کسی قابل بن جاؤں تو پھر واپس پاکستان آ کر شکارپور میں کام کروں گا۔ کراچی تو مجھے ویسے بھی پسند نہیں تھا۔ بڑا شہر تھا اور اس کے اپنے مسائل گرد مٹی سے تو میں نہیں گھبراتا تھا مگر دھویں سے میری جان جاتی تھی، کہاں شکارپور کی ہوا، صاف ستھری جیسی سیدھی جنت سے چلی آئی ہو۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا تھا اور گرمیوں کی رات کو سوتا تھا تو فجر کے وقت کی سوندھی ٹھنڈی ہواؤں سے سردی لگتی تھی۔

میری ماں نماز پڑھنے اٹھتی تھی تو وضو سے پہلے کوئی اجرک، کوئی چادر، کوئی رلی میرے جسم پر ڈال دیتی تھی اور میرے ٹھنڈے سکڑتے ہوئے جسم میں جیسے جان پڑ جاتی تھی۔ میں روزانہ ان مہربان ہاتھوں کا انتظار کرتا رہتا تھا۔ وہ گرم گرم چادر، وہ شفیق شفیق جذبہ وہ پیار بھرا سایہ پھر کبھی نہیں ملا۔ بڑا ہوا تو بابا مجھے بھی زبردستی نماز کے لیے اٹھاتے تھے اور میں نماز میں اونگھتا ہوا اس گرم چادر کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ پہلے تو ماں باپ راضی نہیں تھے جب راضی ہوئے تو یہ پابندی لگادی کہ شادی کر کے جانا ہوگا۔ پھر جلدی جلدی رضیہ سے میری شادی ہو گئی تھی۔ رشتہ تو شاید اسی وقت طے ہو گیا تھا جب میں میڈیکل کالج میں تھا۔ مگر میں نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی جلدی شادی بھی ہو جائے گی۔

امریکا آنے کے چھ مہینے بعد رضیہ بھی آ گئی تھی۔ میں بڑا مصروف رہتا تھا، صبح سے شام تک کام اور ویسے بھی میری عادت حرام خوری کی نہیں تھی۔ کام میں میرا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ اپنا کام، سائنٹفک میٹنگ میں تقریریں، میڈیکل اسٹوڈنٹس کو پڑھانا، ہر کوئی میری عزت کرتا تھا اور میں ہر ایک کے کام آتا تھا۔

بیچ میں دد دفعہ پاکستان گیا تھا، دس بارہ دن کی چھٹیوں پر۔ یہ عجیب قسم کے دورے تھے، دو تین دن جہاز میں، ایک دن کراچی میں۔ چار پانچ دن حیدر آباد میں اور پانچ چھ دن شکارپور میں۔ وقت نکل جاتا تھا اور واپس آ کر لگتا تھا کہ جیسے خواب ہو۔

میرے بابا اور ماں، رضیہ کے والدین بھی ایک دفعہ شکاگو آ کر گئے تھے مگر شکاگو ان لوگوں کو پسند نہیں آیا تھا۔ تھوڑے دن گھومنے پھرنے کے بعد انہیں پاکستان کی اور شکارپور کی یاد ستانے لگتی تھی۔ میں اور میرے تینوں بچے ان لوگوں کو بہت مس کرتے تھے۔

پھر یکایک نہ جانے رضیہ کو کیا ہو گیا تھا کہ ایک روز کہنے لگی کہ اب ہم لوگوں کو واپس چلے جانا چاہیے، بہت ہو گیا امریکا میں رہنا۔ بہت کچھ سیکھ لیا بہت کچھ کما لیا، دنیا دیکھ لی، شکاگو بہت اچھا ہے، بہت خوبصورت ہے، بہت حسین ہے لیکن شکارپور تو نہیں ہے۔ نہ وہ گلیاں ہیں نہ وہ دیواریں، نہ وہ آوازیں نہ ہوائیں۔ نہ وہ مٹی نہ وہ باغ، نہ وہ کھیت نہ وہ کھلیان۔

میرے دل سے بھی کسی نے کہا شاید یہ صحیح کہہ رہی ہے۔ دس سال میں پہلی بار میں نے سوچا تھا کہ چلنا چاہیے۔ میری یہاں یہ بہترین نوکری تھی، سال کے تقریباً چار لاکھ ڈالر سے زیادہ کماتا تھا۔ بڑا سا خوبصورت مکان تھا جس میں دنیا کی ہر اچھی چیز موجود تھی۔ کام والوں کے درمیان عزت تھی لیکن لگتا تھا دل کہیں اور ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4