شمالی کوریا اور امریکہ کے تعلقات: کیا بائیڈن شمالی کوریا کے جال میں پھنسے گے؟


کم
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے رواں ماہ اپنی 37 ویں سالگرہ کے موقع پر کوئی ذاتی تحفہ نہیں بلکہ ہتھیاروں کی ایک لمبی فہرست کے حصول کی خواہش ظاہر کی۔

ان ہتھیاروں کی فہرست میں طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل، انتہائی بڑے وارہیڈ، جاسوس سیٹلائٹس اور ایک جوہری آبدوز شامل ہیں۔

گذشتہ پانچ سالوں کے دوران شمالی کوریا میں منعقد ہونے والے بڑے سیاسی اجتماعات میں سے ایک میں ان عسکری منصوبوں کا اعلان کیا گیا اور یہ منصوبے بظاہر خطرے کا باعث لگتے ہیں اور حقیقت میں ہیں بھی۔

تاہم یہ ایک چیلنج بھی ہے اور اس پیغام کی ٹائمنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ نومنتخب صدر جو بائیڈن 20 جنوری کو صدارت کا حلف اٹھا لیں گے۔

تاہم اگر نئی امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کم جونگ ان کی جوہری طاقت بننے کی خواہش پوری نہ ہو تو شاید ان کی باتوں پر دھیان دینے کا یہی وقت ہے۔

‘کم جونگ ان اینڈ دی بومب’ کے منصف انکت پانڈیا کہتے ہیں کہ ‘کم کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات بغیر کسی شک کے آنے والی امریکی انتظامیہ کے لیے اشارہ ہیں کہ جلد از جلد کارروائی نہ کرنے کی صورت میں شمالی کوریا اپنی صلاحیتوں کو اتنا بہتر کر سکتا ہے کہ یہ امریکہ اور جنوبی کوریا دونوں ہی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔’

ان کا مزید کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ کو اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا۔

سیول

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور کے دوران کم جونگ سے تین ملاقاتیں کی تھیں تاہم ان کے باوجود دونوں ممالک شمالی کوریا کا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام روکنے یا امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے لگائی گئی کڑی معاشی پابندیاں ختم کرنے کے حوالے سے معاہدہ کرنے میں ناکام رہے۔

کوریائی خطے میں یہ سوال پوچھے جا رہے ہیں کہ کیا جو بائیڈن کچھ بہتر کر پائیں گے اور کیا انھیں کم جونگ ان کے خطرے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔

انکت پانڈیا کا خیال ہے کہ ‘نومنتخب صدر کو حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور جلد از جلد اس حوالے سے وضاحت کی ضرورت ہے کہ ان کی انتظامیہ شمالی کوریا سے مذاکرات کے ذریعے کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر کم جونگ ان نے امریکہ کو اس کے ‘مکمل اور ہمہ گیر جوہری ہتھیاروں کی تخفیف’ کے مؤقف سے پیچھے ہٹتے نہ دیکھا تو وہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور دیگر عسکری سرگرمیاں شروع کر دیں گے۔’

کم جونگ نے ورکرز پارٹی کانگریس کے ہزاروں اراکین سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو شمالی کوریا کا ‘سب سے بڑا دشمن’ قرار دیا تاہم انھیں یہ بھی کہا کہ وہ ‘مفاہمت کو فی الحال خارج ازلامکان’ قرار نہیں دیتے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں بظاہر تو ناکام ہوئی تھیں لیکن انھیں ورکرز پارٹی کی کانگریس میں رنگوں کے امتزاج کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ ‘یہ ملاقاتیں عالمی سیاست کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔’

اس لیے اگر جو بائیڈن چاہیں تو وہ مفاہمت کے لیے موجود اس موقع کا استعمال کر سکتے ہیں۔

سینٹر فار اے نیو امیریکن سکیورٹی سے منسلک ڈویون کم کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پہل بھی کرنا ہو گی اور کسی بھی معاہدے کے لیے کچھ قیمت بھی ادا کرنی ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ ‘کم جونگ ان چاہیں گے کہ امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ختم کر دے، شمالی کوریا پر لگائی گئی معاشی پابندیاں ہٹا دے اور بات چیت سے قبل ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید کرنے سے گریز کرے۔ تاہم واشنگٹن یہ کسی شرط کے بغیر نہیں کرے گا۔’

‘اگر بات چیت کا دوبارہ آغاز بھی کر دیا جاتا ہے تو کِم کسی بھی معاہدے کے عوض بڑے فائدے حاصل کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق سرد جنگ کی طرز کے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جس میں دونوں اطراف سے ایک ہی نوعیت کے اور ایک ہی موقع پر اقدامات اٹھائے جائیں۔ تاہم یہ بات غیر منطقی ہے کیونکہ امریکہ اور شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔’


یہ میری ذاتی معلومات ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان فروری 2019 میں ہونے والی ملاقات دونوں ممالک کو ایک معاہدے کےقریب ترین لے آئی تھی۔

تاہم وہ معاہدہ اب مذاکرات کی میز پر موجود نہیں ہے اور کم جونگ ان ایک انتہائی مختلف صدر کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

تاہم کم جونگ ان اپنی تقریر کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہے۔ وہ ان مذاکرات کے بنیادی پہلو کو ہی تبدیل کر رہے ہیں اور اب یہ ان کے موجودہ ہتھیاروں کے بارے میں نہیں بلکہ اب یہ ہتھیاروں کی ایک نئی اور بہتر کھیپ بنانے کی بات ہے۔

کیا اس کا مطلب کشیدگی میں اضافہ ہے؟

یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے کہ کم جونگ ان چاہتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کریں۔

تاہم جس بات سے سب کو حیرانگی ہوئی وہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے خواہشات کا اظہار ایک مفصل فہرست کے ذریعے کیا:

  • طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل
  • بہتر میزائل
  • ہائپرسونک میزائل
  • جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والی سیٹلائٹس
  • بین البراعظم مار کرنے والے بیلسٹک میزائل
  • نئے بغیر پائلٹ چلنے والے جہاز
  • نئے جوہری ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے وارہیڈز
  • جدید جوہری ہتھیار
  • جوہری آبدوز

ظاہر ہے کسی بھی نئے ہتھیار کو تجربے سے گزارنا ہو گا اور ان تجربات کے ساتھ تناؤ میں بھی اضافہ ہو گا۔ کوریائی خطے میں سب یہ جانتے ہیں کہ سنہ 2017 میں شمالی کوریا کی جانب سے تین طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غیض و غضب’ کے ساتھ ردِعمل دینے کے بیان کے کیا اثرات ہوئے تھے۔

جنوبی کوریا اس مرتبہ چاہے گا کہ ایسی صورتحال سے بچا جا سکے اور ایک مرتبہ پھر جذباتی بیانیے اور خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

تاہم فی الحال تو کم جونگ ان نے پانی میں کانٹا پھینکا ہے کہ اور اب وہ انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی ردِ عمل آئے۔

NK-RoK: The military balance


انھوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی بتایا کہ ان کے مطابق طویل فاصلے تک مار کرنے واے میزائلوں کی رسائی کہاں تک ہونی چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ میزائل 15 ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک مار کریں۔

اگر شمالی کوریا اس ہدف کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو گویا وہ ان میزائلوں کے ذریعے امریکہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔

شمالی کوریا نے سنہ 2017 کے اواخر میں ہواسانگ 15 میزائل کا تجربہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ میزائل امریکہ کے کسی بھی حصہ پر حملے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس میں جوہری وارہیڈ بھی نصب ہے۔ تاہم اب تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس میزائل میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جس کے ذریعے جوہری وارہیڈ کو ماحول میں داخل ہوتے وقت محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور اپنے ہدف تک پہنچنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

دوسری جانب ماہرین کے مطابق ایک جوہری آبدوز کا خواب کی تعبیر جلد ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

بائیڈن

تاہم انکت پانڈیا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے ماضی میں بھی انتہائی لچکدار ہونے کا ثبوت دیا ہے اور سب کو حیران کیا ہے۔ کم جونگ ان نے موجود جوہری پروگرام میں مؤثر پیش رفت کی ہے حالانکہ ان پر کڑی معاشی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

مسٹر پانڈیا کہتے ہیں کہ ‘اگر کم جونگ اپنے تمام منصوبوں پر عمل نہیں بھی کر پاتے تب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ آئندہ دنوں میں ان ہتھیاروں اور سسٹمز کے تجربات کا آغاز کردیں گے جن کا انھوں نے نام لیا ہے۔’

غذائی قلت کی اطلاعات کے دوران کریک ڈاؤن

اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کم جونگ ان اپنی ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وسائل کہاں سے لائیں گے کیونکہ ان کا ملک اس وقت بدترین معاشی صورتحال سے دوچار ہے۔ تو کیا ان کی خواہشات کی یہ فہرست بے ضرر ثابت ہو گی۔

پانچ برس قبل کم جونگ ان نے اپنی عوام سے معاشی خوشحالی کا وعدہ کیا تھا۔ وہ تمام منصوبے آج کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

انھوں نے اس تقریر کا آغاز اپنی ناکامی کے اعتراف سے کیا۔

معذرت کا لفظ کسی نے کبھی ان کے والد یا دادا کے منہ سے نہیں سنا ہو گا تاہم اب اس نوجوان لیڈر کو معذرت کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے اور گذشتہ برس اکتوبر میں ایک ملٹری پریڈ کے دوران تو وہ اپنی عوام کی صورتحال بتاتے ہوئے رو بھی پڑے تھے۔ شمالی کوریا نے چین سے کووڈ 19 کی منتقلی کے خطرے کے پیشِ نظر اپنی تمام سرحدیں تقریباً ایک برس قبل ہی بند کر دی تھیں۔

اب تک شمالی کوریا اس بات سے انکار کرتا ہے کہ یہاں کورونا وائرس کا ایک بھی مریض موجود ہے۔ تاہم کئی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس ریاست میں کووڈ 19 کچھ حد تک ضرور پھیلا ہے۔

اس سرحدی بندش کے باعث شمالی کوریا کی چین سے تجارت میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

جبکہ متعدد طوفانوں اور سیلابوں کے باعث فصلوں اور املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

این کے نیوز کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے دارالحکومت میں سپر مارکیٹس پر اشیا موجود ہی نہیں ہیں اور جنوبی کوریا کے خفیہ ادارے کے مطابق شمالی کوریا میں چینی جیسی عام ضرورت کی اشیا کی قیمتیں اچانک بڑھ گئی ہیں۔

سفارتی ذرائع سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ کچھ اشیا جن میں طبی سامان بھی شامل ہے سرحد پر موجود ہے اور ان کی ملک کے مختلف شہروں تک منتقلی یا تو تاخیر کا شکار ہے یا پھر وہاں پہنچ ہی نہیں رہی۔ اس دوران کڑی معاشی پابندیاں بھی تاحال موجود ہیں۔

شمالی کوریا اب باقی دنیا سے پہلے سے بھی زیادہ منقطع ہو چکا ہے۔

مقامی سطح پر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ملک کی غیررسمی مارکیٹوں پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے جو حالیہ کچھ عرصے میں لوگوں نے اضافی پیسے بنانے کے لیے کھولی تھیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ان نشانیوں کو بہت عرصے سے برداشت کیا جا رہا ہے لیکن اب ریاست کو اس پیسے کی بھی ضرورت ہے۔

شمالی کوریا پر گہری نظر رکھنے والے پیٹر وارڈ کا کہنا ہے کہ یہ معاشی مسائل عالمی وبا سے پہلے کے ہیں اور ‘کچھ تو کم جونگ ان کے اقتدار سنبھالنے سے بھی پہلے کے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘لیکن مارکیٹ چلانے والوں کے خلاف پرتشدد رویہ اور حکومتی قیمتوں اور مارکیٹوں کے استمعال پر زور دینا یقیناً پریشان کن اور قابلِ ذکر ہے۔’

تو کیا کیا جا سکتا ہے؟

جنوبی کوریا اس وقت یہ اشارے دے رہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ شمالی کوریا سے مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کر دے۔

جنوبی کوریا کے صدر نے نئے سال پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’کہیں بھی کسی بھی وقت‘ شمالی کوریا کے لیڈر سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم کم جونگ ان نے ایسی کسی بھی ملاقات کے بارے میں بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا کیونکہ وہ سیول کو ان مذاکرات میں فریق ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ انھوں نے جنوبی کوریا کی جانب سے کووڈ 19 سے متعلق امداد اور ویکسین کے حوالے سے کی گئی پیشکش کو بھی رد کر دیا ہے۔

این کے نیوز کے جیونگمن کم کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ’سیول اپنی توقعات کم کر دے۔‘

کانگرس پارٹی پہلے ہی صدر مون کو یہ واضح کر چکی ہے کہ شمالی کوریا بین الکوریائی تعاون جیسی علامات میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

لیکن امریکہ اور شمالی کوریا نے مون کے لیے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے۔ اور تقریباً یہ کہہ کر چھوڑا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ آپ کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔

یہ ایک بڑا حکم ہے امریکہ کی جانب کم ہونا اور شمالی کوریا کے ہاتھ پکڑنا۔ مون ایسا نہیں کر سکتے۔‘

جیونگمن کا کہنا ہے کہ مگر کیونکہ شمالی کوریا نے یہ شرط رکھی ہے اور یہ تعلقات کو مکمل طور پر استوار نہیں کرتا تو سیول ممکنہ طور پر ایسا کرے گا اس امید میں کہ شاید وہ وہ کچھ کر سکے جو وہ کر سکتا ہے۔ جیسے عوامی صحت کے حوالے سے تعاون کو جاری رکھ کر وہ چیزوں کو خرابی کے خطرے سے بچا سکتے ہیں۔ جب تک مون کی حکومت سنہ 2022 تک ختم ہوتی ہے۔‘

اس لیے تمام راستے بظاہر واشنگٹن کی جانب جا رہے ہیں۔ نئی انتظامیہ کی ترجیحات کی فہرست بڑھ رہی ہے۔ شمالی کوریا ان میں سے ایک ہے جو کہ ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تاہم اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ کے نومنتخب صدر جلد ہی اس کا جواب نہیں دیتے تو شمالی کوریا ردِ عمل دے گا اور شاید وہ ایسا بیلسٹک میزائل کے منصوبے کے ذریعے کرے۔

کم جونگ ان نے اپنی چال چل دی ہے اور اب وہ بائیڈن سے کہہ رہے ہیں کہ اب آپ کی باری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp