رودادِ سفرِحجاز (پہلی قسط)



انتساب
میرے مرحوم والدین کے نام جن کی دعاؤں کی
برکت سے اللہ تعالٰی نے مجھے حج کی سعادت نصیب
فرمائی۔ اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے
(آمین)

جب ممتاز مفتی کی ’’لبیک ‘‘ میں ان پر وارد ہونے والی دلی کیفیات اور محسوسات کو پڑھا تو کافی عجیب محسوس ہوا۔ لیکن معلوم نہ تھا کہ ایک دن مجھ ناچیز پر بھی اللہ کا خاص کرم ہو جائے گا۔ رسول عربیﷺ کا ذکر آتے ہی میرا دل پگھلنا شروع ہو جائے گا، میری آنکھوں کے سامنے بھی محمد رسول اللہ کے نام کے تارے چمکنے لگیں گے۔ مجھے بھی خوابوں میں اشارے ملنا شروع ہو جائیں گے۔

2008 کی بات ہے جب میں اپنی بیٹی کے نکاح کی تیاریوں میں مصروف تھی اور کافی زیادہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار تھی۔ میرے والد صاحب چند سال پہلے وفات پا چکے تھے اور میری والدہ مصر میں میرے بھائی سکندر کے پاس تھیں جو کہ ائیر فورس میں گروپ کیپٹن تھا اور سرکاری طور پر وہاں تعینات تھا۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ اگر ابا جی زندہ ہوتے تو یقیناً میری کئی ذمہ داریاں وہ سنبھال لیتے۔

ایک رات میں نے اپنے آپ کو خواب میں ابا جی کے ہمراہ ایک مسجد کے صحن میں کھڑے دیکھا۔ وہ نماز کے لئے تیار تھے اور نماز کا رومال ان کے کاندھوں پر رکھا تھا۔ دیگر نمازی وضو کر رہے تھے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے چند باتیں ان سے کیں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔

جاگنے کے بعد ابا جی سے کی گئی باتیں مجھے یاد نہ تھیں مگر سارا منظر بہت اچھی طرح میرے ذہن میں محفوظ تھا۔ اس کے علاوہ ایک سکون اور خوشی کی کیفیت بھی دل میں محسوس ہونے لگی۔ بیٹی کا نکاح الحمد للہ بخیر و عافیت ہو گیا۔ میرا داماد اور اس کی فیملی امریکہ میں تھے لہٰذا بیٹی کے کاغذات وغیرہ تیار ہونے کا عمل وہاں شروع ہو گیا۔ میری بیٹی اسمٰی ابھی بی اے کر رہی تھی اور ابھی ایک سال باقی تھا۔ میں دعائیں کرتی رہتی تھی کہ سارا کام آسانی سے مکمل ہو جائے اور بیٹی خیریت سے اپنے سسرال چلی جائے۔

شب و روز اسی طرح گزر رہے تھے، ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی بہت بڑے ہال میں ہوں۔ میری نظر ہال کی دیوار پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہاں ایک بہت بڑے سائز کی سلائیڈ چل رہی ہے جس پر بجلی کے سبز رنگ کے قمقموں سے ”محمد الرسول اللہ“ لکھا ہوا ہے۔ میری نظر اس پر ٹک گئی اور میں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سرور والی کیفیت تھی اورنجانے کتنے لمحے اس کیفیت میں گزر گئے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی اور سارا منظر آنکھوں میں نقش ہو گیا۔ میں جتنی مرتبہ اس کو یاد کرتی ، اتنی مرتبہ لطف اندوز ہوتی۔ درود پاک کا ورد میری عادت میں شامل تھا۔ اب میں نے کلمے کا ورد بھی شروع کر دیا۔

میں نے دیکھا کہ میں بہت بڑے ہال میں ہوں ، جہاں قالین بچھے ہوئے تھے۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ اچانک شور سنائی دیا، ‘’وہ آ گئے، وہ آ گئے ‘‘ میری نظریں ہال کے دروازے کی طرف اٹھیں تو میں نے دیکھا کے ایک بہت ہی پر وقار سی شخصیت، دو سفید چادروں کے احرام میں ملبوس، کافی سارے لوگوں کی ہمراہی میں ہال میں داخل ہو رہی ہے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ ان سب کا لیڈر ہے۔ اچانک خاموشی چھا گئی اور سارا مجمع بھی چھٹ گیا۔ میں وہیں کھڑی رہ گئی۔ وہ پر وقار شخصیت میری طرف بڑھنے لگی، میں احترام کی وجہ سے نظریں نہ اٹھا پائی اور چہرہ نہ دیکھ سکی۔

میرے قریب آ کر انہوں نے چادر کے اندر ہی سے اپنا ہاتھ میری طرف مصافحے کے لیے بڑھایا، میں نے مصافحہ کیا اور ایک خوشی اور سکون سا میرے اندر اتر گیا۔ مجھے ان کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں بتایا مگر میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی کہ یہ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمدﷺ ہیں۔ مصافحہ کرنے کے ساتھ ہی منظر بدل گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ ہال کی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے، سیاہ برقعوں میں ملبوس تین خواتین بیٹھی ہیں اور صرف ان کی آنکھیں دکھائی دے رہی ہیں۔

میرے دل میں ڈال دیا گیا کہ وہ بہت مقدس ہستیاں ہیں۔ میں آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھنے لگتی ہوں۔ میرے ذہن میں حضرت فاطمہؓ، حضرت مریم اور بی بی آسیہ کا نام ابھرتا ہے۔ میں ان کے پاس جا کر ان سے سلام لیتی ہوں اور مصافحہ کرتی ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور پورا خواب میرے دل و دماغ میں نقش ہو گیا۔ دل خوشی اور اطمینان سے بھر گیا۔ میں نے درود شریف کثرت سے پڑھنا شروع کر دیا۔ اللہ نے میرے دل میں سکینت اتار دی تھی، جتنی مرتبہ میں خواب کو یاد کرتی ہر مرتبہ سکون ملتا تھا۔

میری والدہ مصر سے واپس آ چکی تھیں۔ وہ اکثر بیمار رہتی تھیں۔ 2009 شروع ہو چکا تھا۔ میرے والدین کا گھر شاہدرہ میں تھا اور میری امی اس گھر میں میری چھوٹی بھابی اور بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ میرا بھائی شہزاد ملازمت کے سلسلہ میں سعودی عرب جا چکا تھا۔ ایک بھائی مصر میں تھا اور سب سے بڑے بھائی بھی ائیر فورس میں ائیر کموڈور تھے اور اسلام آباد میں تعینات تھے۔

امی جان کا علاج ان کے بیٹوں کی وجہ سے پی اے ایف ہسپتال میں ہوتا تھا اور مجھے بار بار جا کر انہیں شاہدرہ سے لانا پڑتا تھا۔ میں کینٹ میں رہتی تھی اور ہسپتال میرے گھر سے بہت قریب تھا۔ لہٰذا میں امی کو اپنے گھرمستقل طور پر لے آئی۔ کئی دفعہ ان کو ہسپتال میں داخل بھی کروانا پڑتا۔ بالآخر دو اڑھائی مہینے سی ایم ایچ میں داخل رہنے کے بعد مئی 2009 میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

میری بیٹی کا بی بی اے میں آخری سال تھا۔ اگست میں اس کا فائنل امتحان ہو گیا اور اسی دوران اس کا ویزا بھی آ گیا۔ ہم نے اس کے امریکہ جانے کی تیاری شروع کر دی۔ میرے داماد (حسن) نے وعدہ تو کیا تھا کہ وہ خود اسمٰی کو لینے آئے گا مگر وہ اپنی سالانہ چھٹی پہلے گزار چکا تھا اس لیے اسے دوبارہ چھٹی نہ مل سکی۔ اس کی نانی اماں امریکہ سے پاکستان سے آئی ہوئی تھیں اور اب واپس جانے والی تھیں۔ حسن نے ان کے ساتھ ہی اسمٰی کی ٹکٹ بک کروا دی۔

ستمبر، 2009 میں اسمٰی اپنی نانی ساس کے ہمراہ اپنے پیا دیس روانہ ہو گئی۔ اس کا ولیمہ امریکہ میں ہی ہونا تھا۔ ہمیں بھی شامل ہونے کی دعوت دی گئی مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں ہمیشہ سے اللہ تعالٰی سے یہ دعا کیا کرتی تھی کہ جب میں بیٹی کی شادی سے فارغ ہو جاؤں تو پہلی فرصت میں میں حج کرنے چلی جاؤں۔ میں نے سوچا کہ بیٹی کے ولیمے میں شریک ہونے کے لئے امریکہ جانے میں جتنی رقم خرچ ہو گی، اس سے اگر حج کر لوں تو کہیں زیادہ بہتر بات ہو گی۔

اسمٰی کے امریکہ جانے کے بعد میرا ذہن اس بارے میں سوچنے لگا اور حج کرنے کی تڑپ میں شدت آ گئی مگر میرے پاس وسائل نہ تھے۔ میں سوچوں میں گم کثرت سے درود پاک پڑھتی رہتی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے تلبیہ بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ میرے دل کی یہ کیفیت ہو گئی کہ جب میں تلبیہ پڑھتی تھی تو بے اختیار دل پگھلنے لگتا اورآنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ میں دعائیں کرتی کہ یا اللہ! کسی طرح ایسا کوئی انتظام ہو جائے کہ میں تیرا پیارا گھر دیکھنے جا سکوں۔

حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لئے حاضر غلام ہو جائے

سرگودھا میں ہماری کچھ مشترکہ پراپرٹی تھی جس کو بیچنے کی کوشش کافی دیر سے ہو رہی تھی مگر کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ میرا بہنوئی جو کہ میرا دیور بھی ہے ، وہ اس کام کو سر انجام دینے کے لئے متحرک تھا۔ اگست اور ستمبر کے مہینوں میں حج کے لئے درخواستیں جمع کی جا رہی تھیں اور میری بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اچانک ایک دن سرگودھا سے میری بہن سمیعہ کا فون آیا کہ پراپرٹی کا سودا ہو گیا ہے اور کچھ رقم ایڈوانس مل گئی ہے۔

چند قانونی کارروائیوں کے بعد آپ لوگوں کا شیئر آپ کے اکاؤنٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اللہ نے انتظام کر دیا تھا۔ نجانے کس گھڑی کی دعائیں قبول ہو گئی تھیں۔ میں نے اپنے بہنوئی سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اپنے پاس سے حج کے اخراجات کی رقم دے دے اور بعد میں ہمارے حصے میں سے کاٹ لے۔ وہ مان گیا۔ میرے شوہر لیاقت کا مذہبی رجحان کچھ خاص نہیں تھا، وہ میرے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں تھے لہٰذا میں نے اپنے بیٹے منصور سے پوچھا کہ وہ بطور محرم میرے ساتھ چل سکتا ہے یا نہیں۔

وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ اپنا سمسٹر فریز کروا دے گا اور میرے ساتھ چلنے پر راضی ہو گیا۔ جب میرے بہنوئی نے میری ساری بات سنی تو وہ اپنی بیوی یعنی میری بہن کو بھی ہمارے ہمراہ بھیجنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس طرح ہم دونوں بہنیں ایک ہی محرم کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئیں۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ لگتا تھا کہ اللہ کے گھر سے بلاوا آ چکا تھا۔ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے، کیا ہو گا، کیسے ہو گا۔

کہاں میں، کہاں یہ مقام، اللہ اللہ

سرکاری درخواستوں کا وقت تو ختم ہو چکا تھا۔ ہم نے کسی پرائیویٹ گروپ کے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا۔ میرے بہنوئی (اطہر) نے ذمہ داری لے لی اور سرگودھا سے جانے والے کسی گروپ میں ہم تینوں کی رجسٹریشن کروا دی اور رقم بھی جمع کروا دی۔ پاسپورٹ اور دیگر تمام ضروری کاغذات ہم نے سرگودھا بھجوا دیے۔ گروپ لیڈر اطہر کا سٹوڈنٹ تھا۔ اطہر سرگودھا یونیورسٹی میں انگلش کا پروفیسر تھا۔ گروپ لیڈر نے تمام لوگو ں کے پاسورٹ ویزے لگوانے کے لئے اسلام آباد بھیج دیے۔

اکتوبر کے مہینے میں یہ سارے کام مکمل ہوئے۔ دوسری جانب ہم اپنے اپنے طور پر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اللہ کر کے سارے کام مکمل ہوئے اور 9 نومبر 2009 کو بیٹے اور ہمشیرہ کی ہمراہی میں سر زمین حجاز کی جانب جانا قرار پایا۔ میرا ایمان تھا کہ یہ سب میری میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو میرے گھر میں قیام کے دوران مجھے دیا کرتی تھیں۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین ثم آمین۔ میں نے کالج میں حج کے لئے چھٹی کی درخواست دے دی جو کہ با آسانی منظور ہو گئی۔

لاہور میں ہم نے حاجی کیمپ میں ہونے والی کچھ تربیتی کلاسیں اٹینڈ کیں، حفاظتی ٹیکے لگوائے، کچھ ضروری ادویات خرید کر حاجی کیمپ سے پیک کروائیں اور سامان میں رکھیں۔ ہماری فلائٹ اسلام آباد سے 11 نومبر کی صبح 4.25 بجے تھی اور ہم نے 10 نومبر کی رات 8 بجے حاجی کیمپ اسلام آباد میں رپورٹ کرنی تھی۔ اس لیے ہماری روانگی 9 نومبر کو لاہور سے بذریعہ ڈائیوو بس ہوئی۔ اور سرگودھا سے بہن بھی اسلام آباد پہنچ گئی۔ ہم نے سوچا کہ ایک دن وہاں آرام کر لیں گے، ہمارا قیام بھائی جان ظفر کے گھر میں تھا۔

بھائی جان کی سمدھن، نازی نے 10 نومبر کی شام کو ہم سب کو کھانے پر بلایا ہوا تھا۔ ہم نے شام 8 بجے حاجی کیمپ پہنچنا تھا۔ عصر کی نماز کے وقت ہم نے غسل کیا، نماز پڑھ کے حاجت کے نفل پڑھے اور اللہ تعالٰی سے سفر کے دوران آسانیاں عطا کرنے کی دعائیں مانگیں۔ احرام ( عبایہ اور حجاب) پہنے۔ مرد حضرات نے اپنا احرام ائیر پورٹ پر پہننا تھا۔

پہلے ہم بھائی جان اور بھابھی کے ہمراہ نازی بھابھی کے گھر گئے۔ وہاں کھانا کھایا۔ مغرب کی نماز وہاں ادا کی اور اس کے بعد ان سے اجازت لے کر ہم ائیر پورٹ روانہ ہو گئے۔ تقریباً 8 بجے شام ہم وہاں پہنچ گئے۔ بھائی جان اور بھابھی ہمیں وہاں پہنچا کر واپس چلے گئے اور ہم وہاں کی مختلف کارروائیوں میں مصروف ہو گئے۔

سمیعہ کی دوائیاں پیک کروا کر seal کروائی گئیں۔ کسٹم والوں سے سامان چیک کروانے کے لئے لوگ لائنوں میں کھڑے ہوئے تھے، ہم بھی لائن میں کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران ہمارے گروپ ایجنٹ نے ہمیں گلے میں ڈالنے کے لئے آئی ڈی کارڈز دیے۔ ہم نے انہیں ہاروں کی طرح گلے میں پہن لیا۔ اس کارڈ کے اوپر ہمارا گروپ نمبر، فلائٹ نمبر، مکتب نمبر، اس کے علاوہ مکہ میں ہماری رہائش گاہ کا ایڈریس اور جدہ سے اسلام آباد کی واپسی فلائٹ کا نمبر لکھا ہوا تھا۔

کسٹم والوں سے سامان کلیئر کروانے کے بعد ہم نے ٹکٹ حاصل کیے ۔ اس کے بعد ہمیں پی آئی اے کی گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا اور گاڑیاں حاجی کیمپ سے ائیرپورٹ کی جانب روانہ ہوئیں۔ گاڑیوں کے چلتے ہی لوگوں میں جوش وخروش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مرد حضرات نے بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا شروع کر دیا، عورتیں بھی آہستہ آواز میں پڑھ رہی تھیں۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، دل بے قابو ہونے لگا۔ حج کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔

اسی کیفیت کے ساتھ ہم ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ ائیر پورٹ کے عملے نے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا، اس دوران نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی گئی اور قطاروں میں آگے بڑھنے کی ہدایت کی گئی، سب نے پابندی کی۔ ایک مرتبہ پھر سامان کی چیکنگ، مسافروں اور ٹکٹوں کی چیکنگ کے مراحل سے گزر کر ہم لاؤنج میں پہنچے۔ رات کا ایک بج چکا تھا اور 11 نومبر کا آغاز ہو چکا تھا۔ مرد حضرات نے وضو کر کے احرام پہنے، عورتوں نے بھی وضو کیا۔

سب نے احرام کے نفل ادا کیے ، دعائیں مانگیں اور احرام کی نیت کر لی۔ ہم نے عشا کی نماز اور سفر میں آسانیوں کے لئے حاجت کے نفل بھی پڑھ لیے۔ سب انفرادی طور پر تلبیہ پڑھ رہے تھے۔ ساڑھے تین بجے ہمیں دوبارہ بسوں میں بٹھا کر جہاز تک پہنچایا گیا۔ جب بسیں جہاز کی طرف روانہ ہوئیں تو فضا ایک مرتبہ پھر تلبیہ سے گونجنے لگی۔ میری زبان سے ورد جاری تھا اور آنکھوں سے آنسو، دل کی بڑی عجیب کیفیت تھی۔ یوں یہ قافلہ جہاز PK 1645 تک پہنچا۔

4.25 بجے جہاز اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ کے لئے روانہ ہوا۔ جب جہاز رن وے پر دوڑنے لگا، سب مسافر دوبارہ بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے لگے۔ جہاز نے اڑان بھری، رن وے کو چھوڑا اور فضا میں بلند ہوا تو تلبیہ کی آوازیں اور بھی بلند ہو گئیں۔ ایک جنون والی کیفیت تھی، اشکوں کی برسات پھر ہونے لگی۔ معلوم نہیں کہ تلبیہ میں کیا تاثیر تھی، جب بھی بلند آواز سے پڑھا جاتا میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ فجر کی نماز کے بعد لائٹیں بجھا کر مسافروں کو کچھ دیر سونے کی تلقین کی گئی اور جہاز کی تمام کھڑکیوں کے پردے گرا دیے گئے تاکہ طلوع آفتاب کے وقت سورج کی شعاعیں مسافروں کو بے آرام نہ کریں۔

جب ہماری آنکھ کھلی تو ہم ایک لق و دق صحرا پر سے گزر رہے تھے۔ عرب کا ریگستان شروع ہو چکا تھا۔ صحرا کو دیکھنے کا میری زندگی کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ دل میں بہت اشتیاق تھا۔ کہیں کہیں آبادیوں کے نشانات بھی نظر آ رہے تھے۔ جب جہاز کی بلندی ذرا کم ہوئی تو منظر تھوڑا سا واضح ہو گیا۔ بال جیسے باریک سڑکوں کے جال بچھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اور ٹریفک رینگتی ہوئی چیونٹیوں کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔

مقام میقات کا اعلان ہوا ، ایک مرتبہ پھر لبیک کی صدا گونج اٹھی۔ ہماری فلائٹ میں ایک 9 ماہ کا حاجی زائر بھی شامل تھا، اس کو بھی احرام پہنا دیا گیا، وہ بہت ہی پیارا لگنے لگا۔ ساڑھے چار گھنٹے کا سفر اختتام پذیر ہوا

(جاری ہے۔۔۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).