جنگل واسی بی بلی کی بلونگڑے کو تاریخی نصیحت


ایک عرصہ دراز سے سوچ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی اس انوکھی مخلوق یعنی بلی کے موضوع پر قلم اٹھاؤں۔ موضوع کی مناسبت سے ایک کثیر مواد ہونے کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کو کس پیرائے میں بیان کروں؟ میری اچھی قسمت، گزشتہ ہفتے سرزمین سرگودھا شہر کے عین وسط میں سجے ایک کتاب میلے سے پطرس بخاری صاحب کی کتاب ’پطرس کے مضامین‘ ہاتھ لگی۔

کتاب کی قیمت، صفحات کی تعداد اور بالخصوص دیباچہ پڑھنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کتاب کی خریداری پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے جھال چکیاں کی دال کھا لی جائے اور تسکین شوق کے واسطے اسی کتاب میلے میں چلتے پھرتے کتاب بینی کر لی جائے۔

مختلف سٹالز پر کتاب کے پہلے دو مضامین کے بعد جو تیسرا مضمون ’کتے‘ شروع ہی کیا تو ایسے محسوس ہوا گویا غیب سے کوئی مدد آن پہنچی ہے۔ پطرس کا ’کتے‘ پڑھنے کے بعد ’ہماری بی بلی‘ بھی تحریروں کے تھیلے سے باہر نکل ہی آئی۔

گھر پہنچتے ہی قلم ہاتھ میں لیا۔ پہلے تو خیال آیا کہ علم حیاتیات کے اعتبار سے بلی کی حیوانی صفات پر روشنی ڈالوں، پھر خیال آیا کہ بائیولوجی کے مطابق تو شیر اور بلی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ایسا نہ ہو کہ شیر خاندانی عزت و حرمت کی آڑ میں بات کو کوئی دوسرا رخ نہ دے دیں۔ اور پھر بڑے بزرگ بتا گئے ہیں کہ بلی شیر کی خالہ ہوتی ہے۔ ننھیال سے محبت کے جذبات کا علم ہم پاکستانیوں کے علاوہ کسے ہو گا؟ پس ممکن ہے ماسی (خالہ) کے خد و خال اور صفات کے تذکرے پر تضحیک یا توہین کا کوئی پہلو نکل آئے اور سب بھانجے مل کر ہماری جان کے درپے ہوں۔ لہٰذا بات کے اس رخ سے صرف نظر کرنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ تخلیق بلی کے حوالے سے اہل مذہب کا موقف ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے بہت قریب تر ہے۔ روایت ہے کہ جب کشتی نوح میں چوہوں کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی اور وہ دیگر جانداروں کو تنگ کرنے کے درپے ہوئے تو بذریعہ وحی حضرت نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ شیر کی پشت پر ہاتھ پھیریں۔ اس عمل سے شیر کو چھینک آئی تو ناک کے دو سوراخوں سے دو نر و مادہ یعنی بلی اور بلا باہر نکلے جنہوں نے بعد میں کشتی سے فتنہ پرور چوہوں کا صفایا کر دیا۔ باقی واللہ اعلم۔

سماجی علوم کے ماہرین سے پوچھا کہ آخر بڑے بزرگ جو شیر اور بلی کا یہ باہمی رشتہ بتا گئے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ ہر جگہ سے جواب ندارد۔ آخر ایک بزرگ نے ہی بتایا کہ جانوروں کی ابتدائے معاشرت میں شیر میاں توانائی سے بھرپور بی بلی کی مستعدی اور ہوشیاری سے بہت متاثر تھے۔ پس ایک روز بی بلی سے ملاقات کی ٹھانی اور باتوں ہی باتوں میں پہلے اسے خالہ اور پھر استاد کا درجہ دے کر اس کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے لگے۔

ایک روز جو شیر میاں نے جانا کہ اب میں بی بلی کے تمام فنون کا ماہر ہو چکا ہوں اور اب ان کی ضرورت نہیں رہی تو ایک جست لگا کر حملہ آور ہوئے۔ مگر یہ کیا بی بلی تو آن کی آن میں درخت پر چڑھ گئیں۔ شکوہ کناں انداز میں شیر میاں پکار اٹھے۔ ’یہ کیا بات ہوئی خالہ جان؟ جہاں آپ نے ہمیں اتنے داؤ پیچ سکھائے وہاں یہ گر کیونکر نہ سکھا پائیں؟‘ جواب ملا۔ ’پیارے بھانجے! یاد رکھنا۔ جب بھی کسی کو کچھ سکھاؤ تو اس سکھلائی میں سے کم از کم ایک گر یا داؤ اپنی جان کے واسطے ضرور بچا کہ رکھو۔‘ پس اس وقت جو خالہ بھانجے کا یہ رشتہ بندھا تو آج تک قائم ہے۔

گھریلو پالتو جانوروں کی فہرست کا تذکرہ ہو تو یہاں بھی بلی کا نام کتے کے آگے پیچھے ہی کہیں پڑھنے کو ملے گا۔ مگر ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں بھی وجہ تفاخر افریقی بلی، آسٹریلین بلی، پروفیلیس اورٹا، کاراکال، پرشیین (ایرانی) بلی وغیرہ ہیں۔ اپنی پاکستانی یا ہندوستانی بلی تو بے چاری آوارہ شمار ہوتی ہے۔ اگر کبھی للچائی نظروں سے ہوٹل میں یا گھر کسی انسان کے کھانا کھاتے ہوئے میاؤں میاؤں کی صدا بلند کر دے تو چھیچھڑوں کے خواب دیکھنے والی گوشت خور بلی کو روٹی کے چند ٹکڑے پھینک دیے جاتے ہیں۔ وہ بے چاری تو ٹھیک طرح سے ’غیروں پہ کرم، اپنوں پہ ستم‘ بھی نہیں گنگنا سکتی۔

اہل زباں کے ہاں بھی بلی کا معاملہ صنفی تضاد اور عدم مساوات کا شکار ہے۔ اردو ادب کی لگ بھگ تمام ہی تحریروں میں جہاں کہیں تذکرہ ملا تو بلی کا ملا۔ مجال ہے جو کسی نے بھولے سے بلے کا بھی نام لیا ہو۔ اب یہ ہی دیکھ لیجیے کہ ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ ۔ کوئی پوچھے جناب! جہاں اردو ادب میں اتنے زیادہ محاورے بی بلی سے منسوب ہیں، وہاں ایک بلے کے بھاگوں چھینکا تڑوا لیتے تو کیا مضائقہ تھا۔ مزید یہ کہ شاعر حضرات بھی محبوب کی منظر کشی کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کو بلی ہی کی آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ (بلیاں بلیاں اکھاں ) کیوں جی بلے کی آنکھ میں کون سا موتیا ہوتا ہے جو وہ معیار محبوب پر پورا نہیں اترتی؟ ہاں جی، نقار خانے میں بلے کی میاؤں میاؤں کون سنتا ہے؟

اب جو مذہب کے نام لیواؤں سے استفسار کیا کہ جناب! عزت مآب یہ ’نو سو چوہے کھا کہ بلی حج کو چلی‘ کی کیا کہانی ہے؟ بھائی! پتا تو ہو کہ آخر یہ نو سو چوہے بلی نے بیک وقت کھائے یا وقتاً فوقتاً؟ اور بلی کا چوہے کھانا شرعی حوالے سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیا بلی حج کر سکتی ہے؟ اور پھر کیا حج کی نیت باندھ کر چوہے کھائے جا سکتے ہیں؟ جواباً لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور استغفراللہ کی صدائیں بلند ہونے لگ پڑیں۔ میں نے کوئی ایسے لایعنی سوالات بھی تو نہیں کیے۔ اب آپ ہی بتائیں جب انسان کی حلال و حرام کی تمیز سے بالاتر کمائی سے حج ادا ہو کر وہ کمائی پاک ہو سکتی ہے تو صرف نو سو چوہے کھا کر بلی کے حج پر جانے پر کاہے کے اعتراض؟ خیر اس بات کو بھی جانے دیں۔

دفاعی و عسکری امور کے ماہرین سے بلی کے موضوع پر تبادلۂ خیال ہوا تو پوچھا کہ بلی کو اپنے گردونواح میں دیکھ کر جو کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے تو کیا اس عمل سے بلی اس کبوتر کی جان بخشی کر دیتی ہے یا نہیں؟ مقابل سے بہت ہی عمدہ جواب ملا۔ ”جناب! لگتا ہے کہ آج ہمارے ہاں آتے ہوئے کسی کالی بلی نے آپ کا راستہ کاٹا ہے جو ہم سے یہ سوال کرنے کی حماقت کر بیٹھے ہیں۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ اس محاورے کی آڑ میں ہم سے ملکی دفاعی صورتحال کے حقیقت پر مبنی بے لاگ تجزیے سن پاؤ گئے تو میاں یہ تمہاری بھول ہے۔ بس اتنا جان لو کہ یہاں بلی ہی دودھ اور گوشت کی رکھوالی پر مامور ہے۔ لہٰذا اپنی اور ہماری حالت پر رحم کھا کر کہ چلتے بنو۔“ لیں جی۔ حالانکہ میں تو اگلا سوال صرف یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آخر اس خطرناک بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

اہل سیاست سے بلی کا کیا ہی تذکرہ کرنا۔ یہاں شیر، ہاتھی، گھوڑا یہاں تک کہ گدھے کو بھی انتخابی نشان کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجال ہے جو کسی نے بلی کی قدر جانی ہو؟ (حالانکہ شیر کی نسبت بلی کی ’میاؤں میاؤں‘ ’میاں میاں‘ سے زیادہ قریب تر ہے ) اس پہیلی کا جواب بھی گزشتہ روز ایک ہفت روزہ سیاسی رسالے کی وساطت سے معلوم پڑا۔

روایت ہے کہ جنگل کے چوہوں نے شیر میاں کو تنگ کرنے کی ٹھانی، جب بھی شیر میاں آرام کی غرض سے کچھار میں دراز ہوتے، چند شرارتی چوہے مل کر باقاعدہ منصوبہ بندی سے شیر میاں کے جسم پر کودنے لگ پڑتے۔ شیر میاں باوجود کوشش کے بھی ان پر قابو نہ پا سکے۔ لہٰذا اپنی خالہ بی بلی سے رجوع کیا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد طے پایا کہ بی بلی شیر میاں کی حفاظت پر مامور ہوں گی اور بدلے میں انہیں ماہانہ بنیادوں پر ایک خاص وظیفہ عنایت کیا جائے گا۔ یوں جب بھی چوہے شیر میاں کو تنگ کرنے پہنچتے، بی بلی انہیں فوراً بھگا دیتیں۔

شیر میاں بھی بی بلی کی کارکردگی سے خاصے مطمئن تھے۔ ایک روز جو بی بلی کو کسی ضروری کام کی غرض سے جنگل سے باہر جانا پڑا تو اپنے بلونگڑے کو حفاظتی ذمہ داریاں سونپ کر خود چلتی بنیں۔ اب کے جو چوہوں نے حملہ کیا تو بلونگڑے نے پہلے ہی حملہ میں دو تین چوہوں کو لقمہ بنا ڈالا، یہ منظر دیکھ کر باقی چوہوں نے جو دوڑ لگائی تو پیچھے مڑ کر بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔

اگلے روز بلونگڑے نے بی بلی کی واپسی پر فخریہ انداز میں اپنی کارروائی کا تذکرہ کیا تو بی بلی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور بلونگڑے کو پاس بٹھا کر سمجھایا۔ ”دیکھ منے! یہ تو نے کیا غضب ڈھایا ہے۔ لیکن آئندہ کے لیے میری کان کھول کر نصیحت سن۔ جب تک یہ چوہے شیر میاں کو تنگ کر رہے ہیں، ہماری روزی روٹی شاہی کچھار سے چلتی رہے گی۔ اور اگر تیری اس طرح کی بے وقوفیوں سے چوہے خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے شیر میاں کو تنگ کرنا چھوڑ دیا تو سمجھو اپنی روزی روٹی بھی جاتی رہی۔ پس تو اتنا سمجھ لے کہ ہم نے شیر میاں کے مسائل کا عارضی حل ڈھونڈنا ہے نہ کہ مستقل حل۔ جب تک شیر میاں کے مسائل ہیں، ہمیں روزی روٹی کی کاہے کو فکر؟“

جنگل واسی بی بلی کے بلونگڑے کو تو یہ بات سمجھ میں آ گئی لیکن الباکستانی بستی کی شیر دل عوام کو یہ بات سمجھنے میں صدیاں بیت جائیں گی کہ اگر یہ سیاست دان بلی مخلصانہ طور پر چاہے تو ان چوہے نما عوامی مسائل کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرے گی۔ کیونکہ وہ عوامی شیر کی غفلت سے کماحقہ مستفید ہو کر نہ صرف اپنی روزی روٹی کا مستقل بندوبست کیے رکھے گی بلکہ اپنے بلونگڑے کو بھی اسی راہ سے روزگار کی فراہمی یقینی بنائے گی۔

خیر، میں کن باتوں میں پڑ گیا۔ بلی کو چھوڑیں۔ تبدیلی کی سنائیں۔ سنا ہے ایک بلی بڑی سیانی تھی اور چوہوں کی شامت آنی تھی۔

اعتزاز حسن کہوٹ
Latest posts by اعتزاز حسن کہوٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).