دہشت گردی اور ریاستی بیانیہ


پاکستان کو بطور ریاست یا معاشرہ دہشت گردی کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ یہ چیلنج کئی دہائیوں سے درپیش ہے اور بطور ریاست ہم اس سے نمٹنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں ہماری ریاست اور اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں نہ صرف قربانیاں دی ہیں بلکہ کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں اس وقت دہشت گردی کی وہ صورتحال نہیں جو ہمیں ماضی میں درپیش تھی۔ اس کا اعتراف داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر موجود ہے کہ ہم ریاستی سطح پر کافی حد تک درست سمت میں چل رہے ہیں۔ لیکن یہ جنگ آسان نہیں اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمیں دہشت گردی کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ جنگ ختم نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔

سانحہ مچھ یا بلوچستان میں ہونے والی ہزارہ کمیونٹی کے خلاف دہشت گردی اور گیارہ معصوم لوگوں کے بے دردی سے قتل کے بعد ایک دفعہ پھر دہشت گردی کے سائے بڑھ رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے دوبارہ خود کو سرگرم یا منظم کر رہے ہیں۔ یہ کیوں منظم ہو رہے ہیں اور کیوں ہمیں ان معاملات میں سخت مشکلات یا ناکامی کا سامنا ہے ، اس کا بھی مختلف حوالوں سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ ہمارا ریاستی بیانیہ کھل کر دہشت گردی یا دہشت گرد عناصر یا سرپرست افراد کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے قومی سطح پر نیشنل ایکشن پلان، فرقہ وارانہ خاتمہ کے لیے پیغام پاکستان یا دختران پاکستان یا قومی نیشنل سیکورٹی پالیسی موجود ہے۔

یہ بیانیہ کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ میں مکمل ناکام ہو گیا ہے یا اس کی ریاستی و حکومتی پالیسی مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہے درست تجزیہ نہیں۔ یہ واقعی زیادتی ہو گی کہ اگر ہم اس دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنی بہت سی اہم کامیابیوں کا اعتراف نہ کریں اور ان کو نظرانداز کر کے اس بیانیہ کو تقویت دیں کہ ہم اس جنگ میں کچھ نہیں کرسکے۔ جہاں ہمیں کئی سطح پر ناکامیوں کا سامنا ہے وہیں اس جنگ میں ہماری بڑی کامیابیاں بھی موجود ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی داخلی ناکامیوں یا چیلنجز کا درست طور پر تجزیہ کریں اور ایسی اہم حکمت عملی کو اختیار کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں جو ہم سب کی ضرورت بنتی ہے۔

اگرچہ دہشت گردی اس وقت دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن ہماری دہشت گردی کے پیچھے جہاں سیاسی، لسانی اورعلاقائی مسائل اہم ہیں وہیں ان میں ایک بڑا چیلنج مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر پھیلنے والی دہشت گردی بھی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ہم نے معاشرے کو یکجا کرنے کی بجائے اسے نہ صرف مختلف مسائل پر تقسیم کیا بلکہ اس میں شدت پسندی کو پیدا کر کے نفرت، تعصب، غصہ، بدلہ کی سیاست کو جنم دیا۔ اس کا ایک عملی نتیجہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورت میں بطور ریاست ہم بھگت رہے ہیں۔

بلوچستان میں ہمارے فوجی اور سیکورٹی سطح پر موجود اداروں اور عام شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف بڑی قربانیاں دی ہیں۔ وگرنہ کچھ برس قبل تک یہ علاقہ عملی طور پر نوگو ایریا بن گیا تھا اور کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں جہاں ریاستی اداروں یا حکومتوں پر تنقید کرنی ہے ، وہیں ان کے اچھے اور مؤثر اقدامات کی بھی تعریف کرنا ہو گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دہشت گردی یا دہشت گردوں کو فروغ دینے میں ہمارے دشمن ممالک یا بیرونی طاقتوں کا بھی کافی دخل نظر آتا ہے۔ بھارت ہمیں داخلی محاذ پر مضبوط دیکھنے کی بجائے کمزور اور غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا وہ برملا اعتراف بھی کرتا ہے اور اس کی اپنی داخلی پالیسی میں بھی پاکستان دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ سانحہ مچھ یعنی بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھی ہم بھارت سے جوڑ رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو ہمیں داخلی سطح پر مسائل کا سامنا ہے ، اس کا علاج کیسے کیا جائے۔ ہم اپنی داخلی ناکامیوں کو بھی دیگر ممالک پر ڈال کر خود کو نہیں بچا سکتے۔ یہ بہت ہی سادہ سا بیانیہ ہوتا ہے کہ ہم دہشت گردی کی بہت سی سرگرمیوں کو کسی بھی ملک پر ڈال کر خود کو محفوظ کر لیں۔

ہمیں یہ بیانیہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے اپنے داخلی مسائل بھی دہشت گردی کی جنگ میں ہمیں مشکلات دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ خود ہماری داخلی کمزوریاں، سیاسی کمٹمنٹ میں کمی اور سیاسی و معاشی عدم استحکام سمیت اداروں کی کمزوری کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر جس انداز سے ہماری سیاسی قیادت کو لیڈ کرنا چاہیے تھا اس کا فقدان نظر آتا ہے۔

فوج نے انتظامی بنیادوں پر کچھ اہم کامیابیاں حاصل کر لیں لیکن سیاسی محاذ پر جو کام انتہا پسندی کے خاتمے، اداروں کی مضبوطی، فعالیت اور نگران یا جوابدہی کے مؤثر نظام کو سیاسی قوتوں نے آگے بڑھانا ہے ، وہ کافی تضادات کا شکار ہے۔ خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان اور پیغام پاکستان کے وہ نکات جو براہ راست سیاسی حکومتوں کی ترجیحات کا حصہ نظر آنے چاہیے تھے، ان میں کافی مسائل نظر آتے ہیں۔

وہ تمام ایسے معاملات جہاں ہم کمزور ہیں یا اپنی کمزوری دکھا رہے ہیں ، ان پر ہمیں شفافیت پر مبنی پالیسی یا اس پر عمل درآمد کے نظام کی ضرورت ہے۔ پہلی کنجی سیاسی او رمعاشی استحکام کی ہے۔ ان دونوں سطحوں کے استحکام کے بغیر ہم دہشت گردی یا اس میں موجود انتہا پسندی کی جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ اس وقت جو ہمارا داخلی سیاسی بحران ہے جس میں ایک دوسرے کے خلاف بد اعتمادی اور ٹکراؤ یا نفرت یا ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے روش ہے ، وہی ہمیں نہ صرف غیر مستحکم کر رہی ہے بلکہ یہ ہمارے دشمنوں کے لیے ایک بڑی سیاسی طاقت کی حیثیت رکھتی ہے۔

انتہا پسندی او ردہشت گردی کے خلاف زیرو عدم برداشت کی سوچ اور فکر کو قومی بیانیہ کی شکل دینی ہو گی۔ اپنی سیاسی، انتظامی، قانونی سطح پر موجود پالیسیوں میں ایسی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوں گی جو ہشت گردوں کو آزادانہ بنیادوں پر کام نہ کرنے دے یا ان کو اس انداز سے ختم کیا جائے کہ وہ ریاست کے مقابلے میں کوئی نئی طاقت کے طور پر ابھر سکیں۔

اسی طرح قومی سطح پر جو دہشت گردی کے خلاف ہمارا قومی ریاستی بیانیہ ہے اسے زیادہ سے زیادہ فعال یا لوگوں میں اس کی آگاہی یا شعوردیا جائے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فکری سطح پر موجود مسائل یا مغالطے بھی ہمیں کامیابی سے دور لے جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے فکری بیانیہ کو نئی جہت دینی ہوگی تاکہ ہم نہ صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی سے باہر نکل سکیں بلکہ خود کو ایک مہذہب اور ذمہ دار پر امن ریاست کی جانب پیش رفت بھی کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).