امریکی سفید فام چیخ کیوں رہے ہیں؟


6 جنوری 2021ء کو آخر کار امریکی قوم پرست سفید فاموں نے اپنی ہی پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول کر دنیا والوں کو بتا دیا کہ وہ کرۂ ارض کی اکلوتی سپر پاورمیں اپنا اثر و رسوخ، حکمرانی اور طاقت آسانی سے ختم نہیں ہونے دیں گے۔ ان سفید فاموں کی بڑھتی پریشانی اور گھبراہٹ سے یہ خطرہ جنم لے چکا کہ مستقبل میں امریکا خانہ جنگی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ خانہ جنگی نہ ہوئی تب بھی وہاں ہنگامے ہو سکتے ہیں۔ خبریں آ رہی ہیں کہ 20 جنوری کو جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے موقع پر دوبارہ ہنگامہ ہو سکتا ہے۔

امریکا میں سفید فام سے مراد یورپی نسلوں کے شہری ہیں۔ انہی سفید فاموں نے لاکھوں ریڈ انڈینز کا قتل عام کر کے امریکا کے طول و عرض میں اپنی بستیاں بسائیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب 1776 ءمیں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد پڑی تو مملکت کی 80 فیصد آبادی سفید فام تھی۔ یہ لوگ برطانیہ، جرمنی، اٹلی، فرانس، پولینڈ، ہالینڈ وغیرہ سے امریکا آئے اور پھر ان کی اولادیں وہاں پھل پھول گئیں۔ 1920ء سے 1950ء تک امریکا میں 90 فیصد آبادی کا تعلق یورپی النسل سفید فاموں ہی سے تھا۔

1950 ءکے بعد سفید فاموں کی تعداد کم ہونے لگی۔ وجہ یہ کہ جب جنگ عظیم ختم ہوئی تو لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقہ سے مہاجرین امریکا آنے لگے۔ یہ مہاجرین سفید فاموں کی نسبت زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اسی دوران مزید مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

2015ء میں امریکی محکمہ مردم شماری نے انکشاف کیا کہ امریکا میں سفید فام کل آبادی کا 70 فیصد حصہ رہ گئے ہیں۔ گویا پچھلے پینسٹھ برس میں امریکی سفید فاموں کی آبادی 30 فیصد گھٹ گئی۔ امریکی محکمے نے اگلا ایٹم بم یہ پھوڑ ڈالا کہ اگر غیر سفید فاموں کی آبادی میں یونہی اضافہ ہوتا رہا تو 2045ء تک امریکا میں ان کی تعداد 50 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ گویا تب سفید فام اقلیت کا درجہ پا لیں گے۔

یہ سرکاری رپورٹ قوم پرست اور یورپی النسل سفید فاموں پہ بم بن کر گری۔ انھیں احساس ہوا کہ وہ اقلیت بن کر اپنی سپر پاور مملکت میں اپنا اثر و رسوخ اور قوت کھو بیٹھیں گے۔ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن جائیں گے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ غیر سفید فام ان کی جگہ ملازمتیں لے رہے ہیں اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں چھا چکے۔ اس بدلتے منظرنامے نے انھیں مضطرب اور پریشان کر ڈالا۔ ان کو اپنا مستقبل مخدوش اور خطرے میں دکھائی دینے لگا۔

پریشانی واضطراب کے اسی عالم میں ایک مسیحا نمودار ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جس نے امریکا سب سے پہلے کا نعرہ لگا دیا۔ اس نے اپنے ہم وطن سفید فاموں کو یقین دلایا کہ وہ حکومت سنبھال کر مہاجرین کی آمد روک دے گا۔ اور انھیں فائدہ پہنچانے والے اقدامات کرے گا۔ انہی یقین دہانیوں کے باعث سفید فام یہ فراموش کر بیٹھے کہ ٹرمپ ایک متعصب اور دھوکے باز شخص ہے۔ انھوں نے اس کی تمام خرابیاں نظرانداز کرتے ہوئے اسے امریکی صدر بنا دیا۔

ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں قوم پرست سفید فاموں سے کیے گئے اکثر وعدے پورے کیے یا پھر انھیں انجام دینے کی کوششیں کیں۔ مثلاً مہاجرین کی آمد روک دی۔ بیرون ممالک سے آنے والی اشیا پہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔ مگر اس کی بعض منفی پالیسیوں نے غیر سفید فام امریکیوں کو بھی متحد کر دیا۔ چناں چہ حالیہ الیکشن میں انھوں نے ٹرمپ کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر بھی سابق صدر سات کروڑ بیالیس لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب رہا جن میں سے بیشتر سفید فاموں نے ڈالے تھے۔ گویا ان کی بہت بڑی تعداد ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن میں دھاندلی کر کے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ سفید فاموں کی سپرمیسی برقرار رکھنا چاہتا تھا۔

حالات سے واضح ہے کہ امریکا میں یورپی النسل سفید فاموں اور غیر سفید فاموں کے مابین معاشی، سیاسی، نسلی، مذہبی اور معاشرتی اختلافات جنم لے چکے۔ ملازمتوں کے حصول میں ایک دوسرے کا مقابلہ ہونے لگا ہے۔ اپنی رسوم ورواج اور روایات پر ٹکراؤ بھی جنم لے چکا۔

یہ چلن بتاتا ہے کہ اختلافات نے شدت اختیار کر لی تو ٹرمپ جیسے سفید فام سپرمیسی کے قائل شدت پسند رہنما امریکی سفید فاموں کو تشدد اور فساد پر ابھار سکتے ہیں۔ چھ جنوری کا واقعہ اس کا بین ثبوت ہے۔ اس تصادم سے غیر سفید فاموں میں بھی جارحیت پسند لیڈر سامنے آئیں گے۔

گویا مستقبل کے امریکا میں آگ اور خون سے لتھڑے مناظر ہمیں مزید دیکھنے کو ملیں گے۔ بڑھتے اختلافات کی وجہ سے دنیائے مغرب کی سب سے بڑی قوت میں آنے والا وقت امن وسکون والا دکھائی نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).