میری حسن پرستی اور بیوی کی جھنجھلاہٹ


میں حسن پرست ہوں۔ قدرت کا کوئی بھی شاہکار ہو، اس میں میری دلچسپی بچپن ہی سے رہی ہے۔ بت پرستی شدت سے کرتا ہوں۔ جہاں بھی کوئی خوبصورت چہرہ نظر آ جائے میرے قدم رک جاتے ہیں، میں چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں بڑھ پاتا۔

اس عادت کی وجہ سے کبھی پذیرائی ملی تو کبھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن میں اپنی اس عادت سے مجبور ہوں۔ اب معلوم نہیں یہ میری عادت ہے یا جبلت۔

اسکول، کالج، یونیورسٹی اور آفس ہر جگہ مجھے حسن کے مداح کے طور پر جانا جاتا۔ میرے رفقا مجھ سے پوچھتے کہ ”تمہارے پاس آخر ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو تم حسینوں کے گھیرے میں رہتے ہو۔“

میرا جواب ہوتا ”میں نہیں بتاؤں گا“

یہ حسن پرستی شادی سے پہلے تک تو ٹھیک تھی۔ لیکن بیوی کے آنے کے بعد یہ عادت میری بیوی کے لیے درد سر بن گئی۔ وہ میرے ساتھ ہوں یا نہ ہوں، میں جہاں خوبصورت چہرہ دیکھتا وہیں رک جاتا۔ شادی بیاہ میں وہ اکثر اکیلی رہتیں اور میں ان سے دور کسی حسین چہرے کے قریب پایا جاتا۔

اگر ہم شاپنگ کے لئے مارکیٹ یا مال جاتے تو ہوتا ایسا کہ یا میں ان سے پیچھے رہ جاتا یا ان سے آگے نکل جاتا اور وہ مجھے ڈھونڈتی نظر آتیں۔ وجہ وہی کہ میں کسی حسین چہرے کے پیچھے بیوی سے دور ہو جاتا۔ کئی بار تو پٹائی بھی ہوئی اور کبھی بیوی نے بر وقت پہنچ کر جان بخشی کروائی۔

ایک بار تو حد ہو گئی، شادی سے پہلے بھی کبھی کبھی ایسا ہو جاتا تھا لیکن شادی کے بعد ہونا بہت ہی برا تھا۔ لیکن میں کیا کرتا مجبور تھا۔ میرے قدم، میری سوچ میرا ساتھ ہی نہیں دیتے۔

ہوا یوں کہ ایک بار بیوی کے ساتھ بس میں سفر کر رہا تھا۔ ایک حسین چہرہ دیکھا تو میں سدھ بدھ کھو بیٹھا اور مقررہ اسٹاپ پر بیوی تو بس سے اتر گئی لیکن میں بس میں بیٹھا ہی رہ گیا۔ جب مجھے خیال آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک گھنٹے بعد جب میں گھر پہنچا تو بیوی کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔ پھر کیا ہوا وہ چلاتی اور چیختی گئیں اورمیں سر جھکائے مجرم کی طرح سب سنتا رہا۔ اس واقعے کے بعد بیوی نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر پابندی لگا دی۔

میری عادت سے بیزار بیوی نے مجھے سفر اور شاپنگ کے ساتھ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی ساتھ لے جانا چھوڑ دیا۔

رشتہ داروں کی شادی بیاہ کی تقریب میں ساتھ نہ لے جانے پر میں نے شکایت کی تو کہا ”آپ کی حرکتوں کی وجہ سے مجھے رشتہ داروں کی باتیں سننی پڑتی ہیں اور شرمندگی ہوتی ہے، اس لیے آپ کسی بھی تقریب میں نہیں جائیں گے۔“

بیوی کے حکم کے سامنے میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔ میری طرف سے مزاحمت نہ کرنے پر وہ بہت خوش تھیں۔ اس دن کے بعد میری زندگی آفس اور گھر کے درمیان گزرنے لگی۔ لیکن پھر بھی مجھے میرا سامان کہیں نہ کہیں مل ہی جاتا اور میری پیاس یا ٹھرک بجھتی ہی رہتی۔

کئی ماہ بعد میں بیوی کے ساتھ سسرال جا رہا تھا۔ وہاں میت ہو گئی تھی۔ ٹرین کا سفر بس سے کافی شاندار ہوتا ہے، آپ کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ ٹرین میں رش تھا، پیر رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ بیوی کو جیسے تیسے سیٹ پر بٹھا دیا اور میں دیگر مسافروں کی طرح کھڑا رہا۔

بیوی جہاں بیٹھی تھی ، وہاں بہت خوبصورت چہرے موجود تھے لیکن میں دروازے کے پاس دیگر مسافروں کے ساتھ کھڑا رہا۔ میرے قریب کچھ پھیری والی خواتین اور لڑکیاں بھی کھڑی تھیں۔ کپڑے پھٹے ہونے کے باوجود وہ حسین ترین تھیں۔

گاؤں سے جب ہم واپس شہر آنے لگے تو بیوی مجھ سے بہت خوش تھیں۔ اس بار اسے میری کوئی شکایت نہیں ملی۔

گھر پہنچے تو بیوی نے بڑے پیار سے کہا ”آپ اب سدھر گئے ہیں۔“ میں اسے دیکھتا رہا۔ وہ پھر کہنے لگیں۔ ”ٹرین میں میرے قریب اتنی خوبصورت لڑکیاں اور خواتین بیٹھی تھیں، آپ نے ایک بار بھی ان کو نہیں دیکھا، آپ بہت ہی اچھے ہیں۔“

وہ کہہ کر گلے لگ گئیں اور میں خود سے کہنے لگا۔

”خوبصورتی صرف گوری رنگت کا نام نہیں ہوتی۔ نین نقش بھی کوئی چیز ہوتے ہیں، غزالی آنکھیں، صراحی دار گردن، گلابی ہونٹ، شگفتہ گال، موتیوں جیسے دانت اور لمبے گیسوؤں کے بغیر حسن پھیکا ہوتا ہے اور میں ٹرین میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حسن وجمال کو چھوڑ کر کہیں اور کیسے جاتا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).