جمہوری ڈھونگ یا شفاف جمہوریت: مشکل فیصلوں کا وقت


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے اپوزیشن کو لانگ مارچ لے کر راولپنڈی آنے پر ’چائے پانی‘ سے تواضع کی پیشکش کی ہے لیکن پی ڈی ایم کے صدر نے اس کا تند و تیز جواب دیا ہے۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں فوج کے ترجمان کا بیان جتنا بین السطور اور سفارتی مہارت کا آئینہ دار تھا، مولانا فضل الرحمان کا جواب اتنا ہی واضح اور سخت تھا۔ انہوں نے اس پریس کانفرنس کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ خود تو پاپا جونز کے پیزے کھائیں اور ہمیں چائے پانی پر ٹرخائیں۔ یہ تو پھر زیادتی ہے،یہ مہمانداری نہیں ہے‘۔
اس مکالمہ سے ملک میں موجود سخت گیر سیاسی فضا کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس صورت میں کسی پریس کانفرنس میں اپوزیشن کی شکایات کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کرنا کسی طور بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اب یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ نہ تو تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان اپوزیشن کی پاکستان جمہوری تحریک کا ہدف ہیں اور نہ ہی یہ احتجاج عدالتوں یا نیب سے رعایت لینے کی کوشش ہے۔ گو کہ حکومت یہی تاثر قوی کرنا چاہتی ہے کہ اپوزیشن لیڈر نیب کے ہاتھوں اپنی لوٹ مار پکڑے جانے پر کوئی محفوظ راستہ تلاش کرنے کی جد و جہد کررہے ہیں۔ عمران خان نے اسے ’این آار او لینے کی خواہش ‘ کا نام دیا ہے جو ان کے اپنے اعلان کے مطابق کسی صورت نہیں دیا جائے گا۔
تاہم اپوزیشن لیڈروں نے جس طرح براہ راست فوجی قیادت کو للکارا ہے اور جیسے اس بیانیہ کو عوامی پذیرائی نصیب ہوئی ہے، اس کے بعد یہ طے کرنا اہم ہوگیا ہے کہ کیا ملک میں جمہوریت کا موجودہ ڈھونگ تادیر قائم رکھا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک ایسا انتظام جس میں انتخاب بھی ہوں، بظاہر قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم کا چناؤ بھی کیا جائے اور حکومتی نمائندے اپنی خود مختاری اور بااختیار ہونے کا اعلان بھی کرتے ہوں لیکن اختیار کا اصل محور کوئی اور ہو۔ اس محور میں وزیر اعظم کی حیثیت ایک تماشائی سے زیادہ نہ ہو اور آئین کے تحت فیصلے کرنے کا اہل ادارہ ’پارلیمنٹ‘ جزو معطل بنا دیا جائے۔ اس کے ارکان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، مشاہرہ اور سفر خرچ وصول کرنے ضرور اجلاسوں میں شریک ہوں لیکن فیصلوں کے وقت اسی قانون پر ہاتھ کھڑا کرنے کے پابند ہوں جسے منظور کرنے کا اشارہ دیا جائے۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس انتظام کی حقیقت اب طشت از بام ہوچکی ہے ۔ پی ڈی ایم کے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں روزانہ کی بنیاد پر اس انتظام کا پردہ فاش کرنے کے علاوہ یہ واضح کیا جارہا ہے کہ اب نامزد اور مسلط شدہ لیڈروں سے کام نہیں چلے گا۔ اگرچہ سرکار اور اس کے حاشیہ برداروں کا یہ مؤقف کسی حد تک قابل فہم ہے کہ جو انتظام گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کرتا رہا ہے، یک بیک اس میں نقص نکالنا کس طرح درست ہوسکتا ہے۔ جب پہلے نامزد یا کسی طلسماتی جھرلو سے برآمد ہونے والے وزیر اعظم قابل قبول رہے ہیں تو اب کیوں اس طریقہ کو غلط مان کر مسترد کردیا جائے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ انتظام میں اختیارات کا عدم توازن ہے۔ بظاہر جمہوری طریقہ سے اقتدار سنبھالنے والی حکومت کارکردگی دکھانے، معاملات سنبھالنے اور عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے۔ اور جن عناصر پر حالات کی اصل ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ جوابدہ نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم کے بیانیہ کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ اس میں ان عناصر کو جوابدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب پوچھا جارہا ہے کہ معاشی، سماجی اور خارجہ تعلقات میں جوکمزوریوں کا کون ذمہ دار ہے۔ پھر ان ذمہ داروں کانام لے کر سوال کیا جاتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب دیے بغیر الزامات مسترد کرنے سے معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔
پارلیمانی نظام میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ضرور وزارت عظمی سنبھالتی ہے لیکن وہ اقلیتی جماعتوں کو بھی کسی حد تک ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں یہ ماورائے آئین گنجائش پیدا کی گئی ہے کہ عسکری قیادت کو مملکت اور حکومت کے اہم فیصلوں میں حصہ دار بنالیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دو ادوار میں اسی انتظام کی شکل دیکھنے میں آئی تھی لیکن تب ایک تو کسی حد تک عوامی بہتری کے کچھ کام کئے گئے ۔ دوسرے عسکری قیادت کی خواہشات اور منتخب حکومت کے اختیار میں توازن کے لئے کوششیں بھی دیکھنے میں آئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں میمو گیٹ اسکینڈل اور مسلم لیگ (ن) کے عہد میں ڈان لیکس کا سانحہ اسی جد و جہد کا پرتو ہیں۔
موجودہ حکومت لانے یا عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا اصل مقصد یہی تھا کہ فوج مستقبل میں منتخب حکومت کے ساتھ ہموار تعلق قائم کرنا چاہتی تھی۔ ماضی قریب میں حکومتوں کے ساتھ سامنے آنے والے تنازعات کو قومی مفاد کے برعکس سمجھا گیا ۔ یہ بات بھی ناقابل قبول مانی گئی کہ منتخب حکومت بلاحجت مکمل اختیار کے ساتھ فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ ملکی سیاست میں مستند دو بڑی پارٹیوں کی جگہ تیسری سیاسی قوت کی ضرورت محسوس کی گئی جو تحریک انصاف کی صورت میں پوری ہوئی۔ تاہم مشکل یہ ہوگئی کہ عمران خان نہ تو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چل پائے اور نہ ہی ملک کو درست راستے پر گامزن کرسکے ۔ معاشی شعبہ میں پیش آنے والی مشکلات کو صرف وعدوں، اعلانات اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندےسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روز بڑھنے والی مہنگائی، بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ اور خارجہ تعلقات میں پڑنے والی گرہیں حکومت کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت بن چکی ہیں۔ لیکن ذمہ داری قبول کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان حالات میں سب نگاہیں انہی کی طرف اٹھتی ہیں جو تحریک انصاف کی سیاسی کامیابی کا سبب بنے تھے۔ جب وزیر اعظم یا حکومت جواب نہیں دے گی تو کسی سے تو یہ سوال پوچھے جائیں گے۔
اس صورت حال میں فوج کے پاس دو ہی آپشن بچے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے عمل سے وہ سیاست میں اپنی غیرجانبداری ثابت کرے۔ اور ملک کی سیاسی قوتوں کو آپس میں معاملات طے کرنے کی سپیس دے دی جائے۔ پاکستان جمہوری تحریک کے لیڈر یہ مطالبہ دو ٹوک الفاظ میں کر بھی چکے ہیں کہ فوج بیچ میں سے نکل جائے اور اپوزیشن کو تحریک انصاف اور اس کی حکومت کے ساتھ معاملہ کرنے دے۔ لگتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ میں کسی سطح پر ابھی تک یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج سیاسی قوتوں کو وہ سپیس دینے پر تیار نہیں ہے جس کے بعد اس کا اپنا سیاسی کردار محدود ہوجائے اورمستقبل کے اہم فیصلوں میں فوجی مشاورت صرف رسمی طریقہ بن کر رہ جائے۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے باہمی تعاون سے کسی پروٹوکول پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اس پر راضی ہیں۔ لیکن ملک کے بدلے ہوئے سیاسی ماحول میں یہ معاہدہ ’خفیہ‘ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب ہر بات کھل کر کہنے اور ماننے کی ضرورت ہوگی۔ معاملات پبلک ڈومین میں ہونے سے امور حکومت میں شفافیت بھی پیدا ہوسکے گی۔
فوج کے پاس دوسرا آپشن یہی ہے وہ براہ راست ملک کی سیاسی قوتوں کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرے۔ حالات بگڑنے پر براہ راست حکومت سنبھالے اور پوری قوت سے ہر اختلافی آواز کو دبا دیا جائے۔ البتہ ایسے کسی اقدام کے عواقب کو پہلے خوب اچھی طرح جانچ لینا ضروری ہوگا۔ مواصلت اور بیداری کے موجودہ عہد میں طاقت کے زور پر سیاسی خود مختاری اور جمہوری مطالبے کو دبانا ہرگز سہل اقدام نہیں ہے۔ ماضی میں بھی فوج براہ راست حکومت سنبھالنے کے بعد اس سے جان چھڑانے کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہوتی رہی ہے۔ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ یہ طریقہ فوج کی شہرت کو مزید داغدار کرے گا اور قومی ادارے کے طور پر اس کی حیثیت متاثر ہوگی۔ اس طرح قومی سلامتی کے لئے براہ راست چیلنجز میں اضافہ اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوگی۔
ایک تیسرا طریقہ موجودہ صورت حال برقرار رکھنے کا ہے۔ اس کا نقصان ملکی معیشت کو ہورہا ہے۔ فوج دو طرح سے معیشت میں سٹیک ہولڈر ہے۔بطور دفاعی ادارہ اسےقومی وسائل میں قابل ذکر حصہ ملتاہے۔ ملکی معاشی حالات خراب ہونے اور قومی پیداوار میں مسلسل کمی سے قومی آمدنی کم ہوگی تو فوج کو فراہم وسائل بھی کم ہوں گے۔ فوج کے زیر نگرانی متعدد ادارے بھی ملکی معیشت میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ ملکی معیشت سکڑنے سے عسکری کمرشل اداروں کی آمدنی اور حجم میں کمی ہونا بھی لازم ہے۔ اس کا براہ راست اثر بھی فوج اور اس سے منسلک لوگوں کے مفاد پر پڑے گا۔ اب یہ بات واضح ہورہی ہے کہ پاکستانی معیشت کی گاڑی صرف قرضے لے کر نہیں کھینچی جاسکتی۔ ملکی یا غیر ملکی قرضے اسی وقت سود مند ہوسکتے ہیں اگر انہیں پیدا واری صلاحیت میں اضافہ کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ اس وقت ملکی معیشت اس صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر پارہی۔ ماضی قریب میں پاکستان اور اس کی فوج نے علاقائی تنازعات کا حصہ بن کر بھی معاشی فائدے حاصل کئے ہیں۔ اب کوئی ایسا تنازعہ سیاسی منظر
پر موجود نہیں ہے جس میں حصہ داری سے پاکستان پر امریکی ڈالروں یا سعودی ریالوں کی بارش ہونے لگے۔
معاشی، سیاسی اور سفارتی طور سے پاکستان کا نیا حلیف چین ہے۔ وہ خود عدم تصادم اور معاشی احیا کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔ پاکستان کی پالیسی اس کے برعکس رہی ہے۔ چین کی ٹوکری میں پاکستانی مفادات کے سارے انڈے رکھتے ہوئے پاکستان مستقل طور سے ایسی قومی پالیسی اختیار نہیں کرسکتا جو چینی حکمت عملی سے متصادم ہو۔ یوں قومی سیاسی تصادم کے ڈانڈے ملک کے وسیع المدت مفاد سے جا ملتے ہیں۔ اس مرحلے پر ایسے فیصلے کرنا ضروری ہوگا جن سے تنازعات میں اضافہ کی بجائے، ان میں کمی کی صورت پیدا ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali