کس برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے؟


کورونا زدہ 2020 اپنے اختتام کو پہنچا اور نئے سال کی ابتدا ہوئی۔ نئے سال کے آغاز پر کہیں سنکھ بجا، تو کہیں کسی برہمن نے اشلوک پڑھتے ہوئے مندر کی گھنٹی بجائی تو کہیں کسی نے سجدے میں پیشانی کو زمین پر ٹیک دیا۔ دعاؤں کے لیے لب ہلے اور مناجات کی خاطر ہاتھ اٹھے۔ مرزا نوشہ نے خبر دی کہ ’اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے‘۔ نیا سال شروع ہوا تو دیواروں پر لگے کلینڈر تبدیل ہوئے، مہینہ بدلا، تاریخ بدلی مگر نہیں بدلے تو عام آدمی کے حالات نہیں بدلے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے ہمالیہ تلے سسکتے عام آدمی کے لیے وقت گویا تھم سا گیا ہے۔

گزشتہ سال کے اختتام پر بھی لوگ کورونا سے مر رہے تھے اور نئے سال کے آغاز پر باوجود اس کے کہ کورونا کی ویکسین ایجاد ہو چکی ہے ، کورونا انسانی زندگیاں نگل رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین بھی ان ہی کے حصہ میں پہلے آئی، جن کے لیے آسمان سے من وسلویٰ اترتا رہا۔ جبکہ باقی اقوام منتظر ہیں کہ کب ان کی باری آتی ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ نئے سال میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہے۔

وطن عزیز میں نئے سال کے ابتدائی دو ہفتوں کا اگر بغور جائزہ لیں تو اسلام آباد میں اسامہ ستی کا قتل، مچھ میں گیارہ کان کنوں کا بہیمانہ قتل، پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن اور براڈ شیٹ اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ براڈ شیٹ اسکینڈل کے تحت لندن ہائیکورٹ میں کیس ہارنے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے براڈ شیٹ فرم کو 4 ارب 58 کروڑ روپے ادا کیے جبکہ نیب کے وکیل اور لیگل فرم کو فیس کی ادائیگی کے بعد یہ رقم 7 ارب 18 کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔ گویا کہہ سکتے ہیں کہ نئے سال کی ابتدا جانی و مالی نقصان سے ہوئی۔

جہاں تک سیاسی حالات کا تعلق ہے تو نئے سال میں پرانا سیاسی منظر نامہ ہی چل رہا ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مختلف شہروں میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکال کر عوام کے سامنے حکومتی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اور اس تنقید کے جواب میں حکومتی ترجمان اس اتحاد کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ اقتدار کی اس جنگ میں سیاسی اشرافیہ کے مابین لفظی گولہ باری اپنے عروج پر ہے۔ اور 22 کروڑ عوام پریشان ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کس کے دعوؤں پر اعتبار کرے۔

تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود زمینی حقائق یہ ہیں کہ جی ڈی پی گروتھ منفی میں ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ ایوان میں موجود ایماندار افلاطونوں کی دن رات کوشش کے باوجود موجودہ حکومتی دو برسوں میں پاور سیکٹر یعنی توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا حجم 1148 ارب روپے سے بڑھ کر 2306 ارب روپے ہو چکا ہے۔

اگر جان کی امان ملے تو سوال تو بنتا ہے کہ اگر کپتان کی ٹیم کام کر رہی ہے تو پھر گردشی قرضہ کیوں بڑھ رہا ہے۔ اگر حکومتی کارکردگی کا معیار یہی رہا تو آئی پی پیز کو بروقت ادائیگیاں نہیں ہو سکیں گی اور اس کی سزا عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں ملے گی۔

اگر روز مرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس مہنگائی کو روکنے کا کوئی میکنزم نہیں ہے یا حکومت بے بس ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ گنے کی کرشنگ کے سیزن میں بھی چینی کے نرخ 100 روپے فی کلو تک پہنچ چکے ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کرشنگ سیزن کے بعد نرخ میں مزید اضافہ ہو گا۔

یہی نہیں بلکہ خوردنی تیل کی قیمت میں 27 روپے فی لیٹر، گھی 13 روپے فی کلو، آٹا 4 روپے فی کلو اور بجلی 1 روپے 6 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا ہے۔ ابتر معاشی حالات کے سبب کم ہوتی ماہانہ آمدنی کے ساتھ کیا عام آدمی دو وقت کا کھانا کھا سکتا ہے؟ کیا بجلی کے بلوں کی ادائیگی کر سکتا ہے؟ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ سال کورونا کے سبب عالمی مالیاتی اداروں کو قرضوں اور سود کی ادائیگی کے سلسلہ میں جو وقفہ ملا تھا ، وہ مہلت اب ختم ہونے والی ہے اور 2021 میں ان اداروں کو ادائیگیوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ آئی ایم ایف کا حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ ٹیکسوں میں اضافہ کرے، نجکاری کے عمل کو تیز اور یقینی بنئاے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کا خاتمہ کرے اور سرپلس ملازمین کو فی الفور نوکریوں سے جبری برطرف کیا جائے۔ جبک بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جائے۔

تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور ہے۔ اس ضمن میں 445 اداروں کو کم کر کے 341 کر دیا گیا ہے ، اس میں کچھ اداروں کو ضم جبکہ کچھ کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرزا نوشہ کی بات پر کان مت دھریں کہ برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ بلکہ یہ سال گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ایک مشکل سال ہے۔ اعداد و شمار اور ماہرین کے اندازے کے مطابق مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہونا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی موجودہ ٹیم کی کارکردگی کا معیار یہی رہا تو حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے۔ رہی سہی کسر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام پوری کر دے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے لیے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کو درست معاشی سمت میں لے جانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کی جائے۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ روز مرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں استحکام لانا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔ لگے ہاتھوں مرزا نوشہ کو بھی تلاش کیا جائے اور اس سے دریافت کیا جائے کہ کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).