بھارت کے مشہور زمانہ ’بوفورس اسکینڈل‘ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟


تقریباً 4 سال تک ( 1989۔ 1993 ) اس اسکینڈل پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس دوران 1991 میں خود راجیو گاندھی گزر گئے۔

کئی سال کی خاموشی کے بعد بالآخر کتراچی نے اپنے ایک انٹرویو میں تردید کی کہ اس نے بوفورس سے کوئی رقم لی ہے۔ اسی زمانے میں پہلی مرتبہ سونیا گاندھی نے بھی کتراچی سے متعلق اپنی پریس کانفرنس میں لب کشائی کی۔ ”سی بی آئی نے اسے ملزم کہا ہے جبکہ ہم نے آج تک ایسی کوئی دستاویزات نہیں دیکھیں جس سے ثابت ہو کہ اس نے کچھ کیا ہے“ ۔

لیکن اکتوبر 1999 میں بھارتیا جنتا پارٹی المعروف بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن ( سی بی آئی ) نے کتراچی اور اس کی بیوی ماریہ کے خلاف فرد جرم عائد کر دی۔ یہ سوئس بینک کی 500 دستاویزات کی بنیاد پر کیا گیا۔ ان کے شریک کار کے طور پر راجیو گاندھی اور کانگریس پارٹی کے کچھ اور عہدے داروں کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ فرد جرم میں یہ بھی بتایا گیا کہ کتراچی کو A۔ E۔ Services کے ذریعہ 7 ملین امریکی ڈالروں کا 3 فی صد کمیشن کے طور پر دیا گیا۔ گویا موت کے بعد بھی بوفورس کا بھوت راجیو گاندھی سے چمٹا ہی رہا۔

فرد جرم عائد کرنے کے باوجود بی جے پی کو یقینی ثبوت نہ مل سکے لیکن اس کیس کو مزید تقویت اس وقت حاصل ہوئی جب جون 2003 میں انٹرپول کے ہاتھ BSI AG بینک لندن کے دو عدد اکاؤنٹ 5 A 5151516 M اور 5 A 5151516 L لگے جو کتراچی اور اس کی بیگم ماریہ کے تھے۔ ان میں 3 ملین یورو اور 1 ملین امریکی ڈالر تھے۔ اس پر ایک بھارتی اخبار نے لکھا : ”ایک تنخواہ دار شخص کے بچت اکاؤنٹ میں اتنی کثیر رقم کا ہونا تجسس کا باعث ہے“ ۔

بھارتی سی بی آئی کی باقاعدہ سرکاری درخواست پر یہ اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے۔ کتراچی نے اپنے ان اکاؤنٹ کو غیر منجمد کرنے کی کئی ایک اپیلیں کر ڈالیں لیکن برطانوی عدالتوں نے وہ تمام کی تمام مسترد کر دیں۔ یہ سی بی آئی کی بھرپور محنت اور ٹھوس ثبوت کی وجہ سے ممکن ہوا۔

2004 میں کانگریس دوبارہ برسر اقتدار آئی۔ اس وقت من موہن سنگھ وزیراعظم بنے لیکن پارٹی کی صدارت پر سونیا گاندھی بدستور قائم رہیں۔ یقیناً یہ سونیا گاندھی کا دباؤ ہو گا کہ 22 دسمبر 2005 میں بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں یکسر اپنا موقف بدل ڈالا۔ اس وقت کے وزیر قانون ہنس راج بھردواج نے ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل آف انڈیا بی دتہ کو خاص طور پر لندن بھیجا تاکہ وہ کتراچی کے وہ دو منجمد اکاؤنٹ غیر منجمد یا کھلوانے کا بندوبست کریں۔ بھارتی وزارت قانون نے اپنے ملک کی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی سے اس سلسلہ میں سرے سے کوئی مشورہ نہیں لیا حالاں کہ کتراچی کے مذکورہ اکاؤنٹ اسی ایجنسی کی ایماء پر منجمد کروائے گئے تھے۔

برطانوی حکام کی ایک ای میل کے مطابق : ”مسٹر دتہ نے حکومت ہندوستان، وزارت قانون اور سینٹرل بیورو آف انویسٹٹیگیشن کی جانب سے دی گئی ہدایات سے آگاہ کر دیا کہ 25 جولائی، 2003 کے ممانعتی حکم نامے سے مسٹر کتراچی کے کیس کی سماعت میں کوئی مدد نہیں مل سکتی“ ۔

16 جنوری 2006 کو بھارتی سپریم کورٹ میں ایک دعویٰ دائر ہوا کہ سی بی آئی کو حکم دیا جائے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لندن میں واقع کتراچی کے ان اکاؤنٹ میں سے کوئی رقم اس وقت تک نہ نکلوائی جا سکے، جب تک بھارتی حکومت اس سلسلہ میں اپنا موقف واضح نہیں کرتی۔ کیوں کہ سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ کتراچی اسے اب بھی بوفورس کیس میں مطلوب ہے۔ سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ بی دتہ نے وزیر قانون ہنس راج کے احکامات پر عمل کیا اور سی بی آئی سے ہرگز کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پہلے ہی 4 ملین امریکی ڈالر ان دونوں اکاؤنٹ سے نکلوا لیے گئے۔ اس اقدام سے حکومت پر بہت تنقید ہوئی اور سونیا گاندھی کی پوزیشن بھی کمزور ہو گئی۔ علاوہ ازیں فروری 2004 کو دہلی ہائی کورٹ نے راجیو گاندھی اور دوسروں پر رشوت لینے کے الزامات منسوخ کر دیے۔ اس کا سبب ناکافی شواہد کے حوالے اور ثبوت بتلائے گئے جس سے یہ ثابت نہ ہو سکا کہ ان لوگوں کو کبھی کوئی کمیشن دیا گیا۔ اس پر سونیا گاندھی نے جشن منایا : ”آخر 17 سال کی بدسلوکی اور بدنامی کے بعد یہ میرے لئے اور میرے بچوں راہول اور پریانکا کے لئے بہت خاص لمحہ ہے“ ۔ البتہ یہ کیس مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ دھوکہ دہی اور حکومت کو غلط طریقے سے نقصان پہنچانے کے یہ دو عدد الزامات عدالتوں میں چلتے رہے۔

دوسری طرف جب کتراچی 1993 میں سوئس اکاؤنٹس منظرعام پر آ جانے کے بعد دہلی سے ملائیشیا پرواز کر گیا تو ملائیشیا سے کتراچی کی حوالگی کی کوششیں، بھارتی حکومت کے پاس یقینی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گئیں۔ 2003 میں کتراچی اٹلی واپس چلا گیا۔ اس دوران بھارتی حکومت نے انٹرپول سے بھی کتراچی کی گرفتاری کی درخواست کی اور وارنٹ نکلوا لئے۔

انٹرپول کے گرفتاری کے وارنٹ کے باوجود، جنوری 2007 کے اواخر میں اوتاویو کتراچی اٹلی سے ارجنٹائین کے دارالحکومت بیونس آئرس پرواز کر گیا۔ یہاں کچھ روز رہنے کے بعد ارجنٹائین اور برازیل کی سرحد پر واقع دنیا کی سب سے بڑی آبشار اور تفریحی مقام اگواژو (guazu Falls) کی سیاحت کو چلا۔ کتراچی کی بد قسمتی کہ اس وقت وہاں ڈرگ اور دہشت گردی کا ہائی الرٹ نافذ تھا۔ یہاں تک تو ”اٹلی زندہ باد“ تھا لیکن جب کتراچی برازیل کی حدود میں واقع اس آبشار کی سیاحت سے واپس آنے لگا تو اگواژو کے ہوائی اڈہ پر بھارتی درخواست پر جاری کیے گئے انٹر پول وارنٹ کی بنیاد پر روک لیا گیا۔

اگلے ہی روز بھا رتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو سرکاری طور پر کتراچی کی گرفتاری کا بتلا دیا گیا۔ اس وقت تک بھارت میں کانگریس اپنی حکومت بنا چکی تھی۔ سی بی آئی نے پہلے تو اس خبر کو چھپائے رکھا پھر 23 فروری کو سی بی آئی نے بیان جاری کیا کہ انہیں ارجنٹائین حکام نے اطالوی شہری اوتاویو کتراچی کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے جو بھارتی سی بی آئی کے ( بوفورس ) کیس نمبر RC۔ 1 (A) / 90۔ ACU۔ IV/SIG اور انٹرپول کے سرخ نوٹس نمبر A۔ 44 / 2 / 1997 کے تحت ارجنٹائین میں 6 فروری 2007 سے گرفتار ہے۔

24 فروری کو بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دعویٰ کیا کہ کانگریس پارٹی نے ارادتاً اس خبر کو چھپائے رکھا تاکہ سونیا گاندھی کو جگ ہنسائی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے نیز اس خبر کے ردعمل کے نتیجے میں پنجاب اور اترکھنڈ میں ہونے والے انتخابات متاثر نہ ہو جائیں۔ 26 فروری کو کتراچی ضمانت پر رہا ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارجنٹائین میں بھارتی حکومت اور سی بی آئی کی سرے سے نمائندگی ہی نہیں ہوئی۔ جبکہ دوسری طرف اطالوی حکومت نے اپنے شہری کی بھرپور مدد کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3