بھارت کے مشہور زمانہ ’بوفورس اسکینڈل‘ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟


غلط اعمال مرنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔

جائز و ناجائز، حلال و حرام صرف دین اسلام ہی کی بنیاد نہیں بلکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے اور دنیا کے ہر ایک مذہب میں ان اخلاقیات کی اہمیت ہے۔ اکثر اوقات انسان کے غلط اعمال، مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اگر وہ انسان کوئی مشہور ہستی، طاقتور عہدیدار یا مقبول عوامی رہنما ہو تو اس کے ناجائز اعمال کی رسوائیاں آسیب کی طرح اس کے پورے خاندان کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ایسا ہی بھارت کے راجیو گاندھی کے ساتھ ہوا اور اس کا خمیازہ رسوائی کی شکل میں ان کا خاندان بھگت رہا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 80 کی دہائی میں راجیو گاندھی کی حکومت نے فوج کے لئے 155 mm والی 30 کلومیٹر مار کی 410 توپوں کے ٹینڈر جاری کیے۔ زیادہ بولی اور فوج کے سالار کی مخالفت کے باوجود ان توپوں کے ٹینڈر سویڈن کی ایک اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے نام منظور ہو گئے۔

طرفہ تماشا یہ کہ اس کمپنی کو ٹینڈر کی دوڑ میں غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اصولاً بھارتی سالار اعظم کی بات وزن رکھتی ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف کرشنا سوامی سندر جی فرانسیسی کمپنی سوفما Sofma کی توپوں کے حق تھے کیوں کہ اس کی مار بوفورس توپوں کے مقابلے میں 8 کلومیٹر زیادہ تھی۔ بات ختم ہو گئی اور بوفورس توپیں بھارتی فوج میں شامل ہو گئیں۔

ابھی راجیو گاندھی کی حکومت جاری تھی کہ اس سودے کے کچھ عرصہ بعد سویڈن کے ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن سے ایک رپورٹ نشر ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بوفورس کمپنی نے بھارت سے آرڈر لینے کے لیے رشوت دی ہے۔ اس وقت وی پی سنگھ راجیو حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ وہ اس پر کوئی ایکشن لینا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ان کو اس وزارت سے تبدیل کر کے دفاع کی وزارت سونپ دی۔ اس کے باوجود انہوں نے بوفورس اسکینڈل بے نقاب کر دیا۔

اس کی پاداش میں ان کی وزارت سے چھٹی کرا دی گئی، بعد میں انہوں نے کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے کر حزب مخالف کی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ ان پارٹیوں، مثلاً لوک دل، انڈین نیشنل کانگریس ( سوشلسٹ) ، جن مورچہ وغیرہ نے وی پی سنگھ کی سرکردگی میں نیشنل فرنٹ بنایا اور 1989 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح وی ہی سنگھ وزیراعظم بن گئے۔ ان انتخابات میں راجیو گاندھی کی شکست کا سبب یہی رسوائے زمانہ بوفورس اسکینڈل بنا۔

اس اسکینڈل کا بنیادی کردار اوتاویو کتراچی Ottavio Quattrocchi ہے۔ 1938 میں مافیا کی دنیا میں مشہور ”سسلی“ میں پیدا ہونے والا اوتاویو کتراچی 1960 کی دہائی میں اٹلی کی آئل اینڈ گیس فرم Eni اور اسی کی انجنئیرنگ شاخ Snamprogetti کا نمائندہ بن کر بھارت آیا۔ جلد ہی اس کا خاندان گاندھی خاندان کے بہت قریب آ گیا جب اس کے تعلقات راجیو اور اس کی اطالوی نژاد بیوی سونیا گاندھی سے استوار ہوئے، جو آج کل کانگریس پارٹی کی صدر ہیں۔

1974 میں کتراچی کی ملاقات راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی سے ایک اطالوی شخص، مولیناری Molinari نے کروائی۔ اس کے بعد سے کتراچی اور اس کی بیگم کی راجیو اور سونیا گاندھی سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ دونوں کے بچے بھی آپس میں گھل مل گئے۔ اس وقت راجیو گاندھی انڈین ائر لائن میں پائلٹ تھا۔ ان کے آپس میں اطالوی کھانے اور تحائف کے تبادلے ہونے لگے، اس طرح کتراچی خاندان راجیو گاندھی اور اس کی بیوی سونیا گاندھی کے بہت قریب ہو گیا۔

ان دو خاندانوں کے بچے بھی ایک ساتھ بڑے ہوئے۔ وزیراعظم کے دفتر میں کتراچی کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ دہلی کی نوکر شاہی کے اعلیٰ سرکاری افسران اس کی آمد پر اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ گاندھی خاندان کا آخری زمانہ 1980 سے 1987، بھارت میں کتراچی کے لئے سنہری دور تھا۔ وہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا سونا ہو جاتی۔ اس کے اور بھارتی سرکار کے مابین سودے کی ایک پیشکش بھی مسترد نہیں ہوئی۔

اس زمانے کی کانگریس پارٹی کے ایک کارکن کے بقول : ”حتیٰ کہ کھاد کے ٹھیکے بھی Snamprogetti نے حاصل کر لیے جن کے بارے میں یہی سمجھا گیا کہ یہ سونیا اور راجیو گاندھی کے مفاد کی خاطر دیے گئے ہیں“ ۔ ان حضرت کا بھارتی وزراء پر اثرو رسوخ اس قدر بڑھ گیا کہ اس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ وی پی سنگھ ( 1984۔ 87 ) جو آگے چل کر وزیر دفاع ( 1987 ) اور پھر وزیر اعظم ( 1989۔ 90 بنے، جنہوں نے سب سے پہلے رسوائے زمانہ بوفورس اسکینڈل کیس کی پیروی کی اور جن کے بیان کی تلخیص کو عدالتی فیصلہ میں شامل کیا گیا، عاجز آ گئے۔ کابینہ کے ایک اجلاس میں، کابینہ کے مطابق کتراچی نے وزیر خزانہ سے ملنے کی مختلف اوقات میں متعدد دفعہ کوششیں کیں لیکن وزیر موصوف نے اس سے ملاقات نہیں کی۔ اس پر راجیو گاندھی نے انہیں کتراچی سے ملنے کی ہدایت کی۔

کتراچی نے اپنی فرم Snamprogetti کے ذریعے 60 بڑے پراجیکٹ حاصل کیے، ان میں سے یہ بہت ہی اہم منصوبے ہیں :

٭ 1981 : Rashtriya Chemicals & Fertilizers Ltd۔ (RCF) کے پلانٹ کا ٹھیکہ جو ساحلی شہر سورت، گجرات میں لگایا گیا۔ اسی سال گجرات ہی میں Oil and Natural Gas Corporation Limited (ONGC) ، ایک ملٹی نیشنل کمپنی، کی گیس پائپ لائن بچھانے کا ٹھیکہ بھی حاصل کیا۔

٭ 1983 National Fertilizers Limited (NFL) ضلع گونا، مدھیا پردیش میں 726,000 ٹن یوریا بنانے کی صلاحیت والی فیکٹری بنانے کا ٹھیکہ جس نے یکم جولائی 1988 سے بھر پور کام شروع کر دیا۔

٭ 1984 Indian Farmers Fertiliser Cooperative Limited،
(IFFCO) کے بریلی، اتر پردیش میں تین عدد پلانٹ لگائے گئے۔
٭ 1987 Nagarjuna Fertilizers and Chemicals Limited کے دو عدد پلانٹ، آندھرا پردیش میں لگائے گئے۔

اس وقت یہ بات عام ہو گئی تھی کہ کتراچی کے ذریعہ بھارت کے بڑے سے بڑے ٹھیکے لئے جا سکتے ہیں۔ زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ 1985 میں جب Hazira۔ Bijapur۔ Jagdishpur (HBJ) پراجیکٹ میں فرانسیسی کمپنی Spie Capag نے کتراچی کی فرم سے چند سو کروڑ روپے کم کی بولی لگائی اور وہ ٹھیکہ/پراجیکٹ کتراچی کے بجائے اس کمپنی کو دے دیا گیا تو وزیر پٹرولیم، کشور شرما کی وزارت ہی سے چھٹی کرا دی گئی۔ اب ان کا درجہ کم ہو کر کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری کا ہو گیا۔ ادھر پی کے کول PK Kaul کو کیبنٹ سیکریٹری سے ہٹا کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھارت کا سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔ بھارتی گیس اتھارٹی کے چیئرمین مین، ایچ ایس چیمہ HS Cheema کو بھی ہٹا دیا گیا۔

بوفورس اسکینڈل اس وقت منظر عام پر آیا جب انگریزی روزنامہ ”دی ہندو“ کی چترا سبرامینیم اور این رام کو بوفورس کے مینیجنگ ڈائریکٹر مارٹن آرڈبو Martin Ardbo کی خفیہ ڈائری ہاتھ لگ گئی جس میں اور باتوں کے علاوہ کئی جگہ ”Q“ اور ”R“ کے واضح اشارے تھے۔ جب تفتیشی ٹیم نے سوئس بینکوں میں رقم کی ترسیل کی چھان بین کی تو Q کی شناخت اوتاویو کتراچی Ottavio Quattrocchi سے ہوئی جو اکاؤنٹ ہولڈر تھا۔

R کا بھید بھی جلد کھل گیا۔ اس سے مراد راجیو گاندھی تھا۔ بھارتی سی بی آئی نے بھی اس ڈائری کی نقول حاصل کر لیں لیکن عدالت نے ان کی صحت ماننے سے انکار کر دیا کیوں کہ وہ اصل کے بجائے فوٹو کاپیوں پر مشتمل تھی۔ اس اسکینڈل کو روکنے کے لئے بھارتی حکومت نے سویڈش ذمہ داروں سے مل کر معاملے کو دبانے کی اپنی سی بہت کوشش کی۔ اس وقت کی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کر کے حتمی کہہ دیا کہ ”یقیناً اس معاملے میں ’بوفورس‘ نے کمیشن کی رقم ادا کی ہے، یا براہ راست بھارتی افسران کو یا کسی بروکر کے واسطے سے 1.2 بلین ڈالر کی یہ رقم بھارتی افسران کی جیبوں میں گئی“ ۔

قانونی طور پر راجیو گاندھی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی لیکن خود کانگریس پارٹی کے سیاست دان اس اسکینڈل کی چھان بین کے درپے ہو گئے جس سے راجیو گاندھی کی حکومت ہل گئی جو بالآخر 1989 کی انتخابی شکست منتج ہوئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3