ملکہ حسن کہلانے والی اداکارہ صابرہ سلطانہ


میری خوش قسمتی تھی کہ پاکستانی فلمی صنعت کی نامور اداکارہ صابرہ سلطانہ سے پچھلے دنوں زرین پنا کی معرفت ایک نشست ہوئی۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کچھ پیغامات بھی دیے اور تلخ حقیقتیں بھی بتائیں جو ان کے مطابق سامنے آنا چاہئیں :

”سب سے پہلے تو میں یہ بتا دوں کہ صابرہ سلطانہ میرا اصلی نام ہے۔ بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے میرا نام رابعہ بتلایا گیا ہے جو صحیح نہیں۔ میرا بابائے اردو کے خاندان سے تعلق نہیں بلکہ ایک پٹھان فیملی سے ہے۔ میں نے اپنی فنی زندگی کا سفر کراچی سے شروع کیا۔ یہ 1962 کی بات ہے میرے والد ’جے والٹر تھامسن‘ میں ایک شعبے کے انچارج تھے جہاں اشتہارات بھی بنتے تھے۔ مجھے شہرت حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ چاہتی تھی کہ اخبار میں میری تصویر آئے۔ ریڈیو پاکستان سے عبد الماجد بچوں کا پروگرام کرتے تھے۔ میں نے وہاں خط لکھنے شروع کر دیے کہ کم از کم مجھے اپنا نام تو سنائی دے گا۔ جب وہ کہتے کہ کراچی سے صابرہ سلطانہ لکھتی ہیں تو میں بہت خوش ہوتی“۔

”پھر میں والد صاحب کے پیچھے پڑی کہ کسی اشتہار میں کام کروں گی۔ والد صاحب بڑی مشکل سے راضی ہوئے۔ میں ایک ہی بیٹی تھی وہ بھی لاڈلی۔ والد صاحب کہنے لگے اچھا چلو! پھر میں نے کسی صابن یا کریم کے اشتہار میں کام کیا۔ اس کی فلم بھی بنی۔ میں بہت خوش ہوئی کہ تصویریں چھپ رہی ہیں اور اخبار میں نظر آتی ہوں۔ پھر میں نے سوچا فلم میں کام کروں گی تو پھر تو اور ہی اچھی بات ہو جائے! والد صاحب کہنے لگے کہ نہیں فلم ولم نہیں ہو گی۔

بس اتنا ہی ٹھیک ہے۔ پھر میں نے کہا ریڈیو ڈراموں میں کام کروں گی۔ ڈرامے کے لئے آڈیشن دیا۔ مجھے کال آئی اور میں نے ایک ڈرامہ بھی کر لیا۔ اب دوبارہ میں نے والد صاحب کو کہا کہ کراچی میں جو فلمیں بن رہی ہیں ان میں کام کرنے میں تو کوئی حرج نہیں! تھوڑا کام کر کے اپنا دل خوش کر لوں گی پھر نہیں کروں گی۔ والد صاحب کہنے لگے کہ ٹھیک ہے ”۔

”میری پہلی فلم سلور جوبلی“ انصاف ”( 1960 ) ہے۔ اس میں نیلو باجی اور کمال صاحب تھے۔ میری ساقی صاحب کے ساتھ جوڑی تھی۔ پھر فلم“ تم نہ مانو ”( 1961 ) بہار باجی اور حبیب صاحب کے ساتھ کی۔ میرا کردار شہزادی کا تھا۔ اس وقت تاریخی فلمیں بہت بنتی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ میں شہزادی یا ملکہ کے کردار کے لئے بہت موزوں ہوں۔ پھر رانی کے ساتھ فلم“ چھوٹی بہن ”( 1964 ) کی۔ یہ فلمیں کراچی میں بنیں۔ ادھر شباب کیرانوی صاحب کو اپنی آنے والی دو فلموں کے لئے کسی نئی ہیروئن کی تلاش تھی۔

انہوں نے میرے اشتہارات اور فلمیں دیکھیں تو مجھ سے رابطہ کیا کہ لاہور آ کے فلمیں سائن کر و۔ والد صاحب نہیں مانے۔ انہیں راضی کرنے کی کوشش کی کہ دو فلمیں ہی تو ہیں۔ پھر واپس آ جائیں گے۔ وہ میری ضد کی وجہ سے مان گئے۔ یوں میں نے شبابؔ صاحب کی فلم ”جمیلہ“ ( 1964 ) میں حبیب صاحب کے مقابل ٹائٹل رول ادا کیا۔ حبیب صاحب کا اس فلم میں بڑا منفرد کردار تھا۔ دوسری فلم ”شکریہ“ ( 1964 ) کے ہیرو علا الدین تھے۔ میں اس فلم میں ایک پٹھان ’لڑکا‘ بنی تھی۔ لڑکے کے بھیس میں مزدوری کرتی ہوں۔ علا الدین صاحب کو پتا لگتا ہے کہ میں لڑکی ہوں تو ہم لوگ گانا گاتے ہیں : ’میرے دل کا بنگلہ خالی ہے۔‘ ۔ اس فلم کو عوام نے بہت پسند کیا اور اس نے سلور جوبلی کی ”۔

”جب یہ فلمیں مکمل ہو گئیں تو دوسرے فلمساز بھی مجھے اپنی فلموں میں لینے لگے۔ پھر میں نے“ برما روڈ ”( 1967 ) ،

”14 سال“ ( 1968 ) وغیرہ میں کام کیا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ تاریخی فلموں میں مجھے بہت کام دیا گیا جیسے : ”تخت اور تاج“ ( 1970 ) ، ”مجاہد“ ( 1965 )۔ یہ فلم پاک بھارت جنگ کے دوران نمائش کے لئے پیش کی گئی، سلور جوبلی فلم ”عادل“ ( 1966 ) اور سلور جوبلی فلم ”تاج محل“ ( 1968 )۔ میں نے ان فلموں میں شہزادی اور ملکہ کے کردار ادا کیے۔ جب ”مجاہد“ اور ”عادل“ بنیں تو فلمسازوں اور صحافیوں نے مجھے ”ملکہ ء حسن“ کا خطاب دیا۔ میں بہت خوش ہوئی ”۔

”فلم“ ماں کا پیار۔ ”( 1964 ) میں ایک مشکل کردار دیا گیا۔ نوجوانی سے بڑھاپے کا۔ مجھے کئی ایک لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہ کردار آپ کے فلمی کیریئر میں مشکلات پیدا کر دے گا۔ مجھے اس وقت فن سے عشق تھا۔ پھر دل بھی مشکل کردار کرنے کا کہتا تھا۔ اسکرین پر اس کردار میں دیکھ کر میرے خط لکھنے والے پرستار ناراض ہو گئے۔ ایک صاحب نے تو مجھے اپنے خون سے خط لکھا۔ میں نے انہیں لکھا کہ سرخ رنگ کی سیاہی سے کیوں خط لکھا؟

تو انہوں نے بہت غصہ کیا کہ آپ نے تو میرے خون کو ’سیاہی‘ کہہ دیا۔ سب ہی نے مجھے برا بھلا کہا کہ کیا ہو گیا آپ کو! میں نے اس کردار پر بہت محنت کی اور حقیقت کا رنگ ڈال دیا۔ یہ کردار فلمسازوں اور ہدایتکاروں کو اتنا پسند آیا کہ پھر تو اس قسم کے کرداروں کی برسات ہو گئی۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مجھ سے واقعی بھاری غلطی ہو گئی۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ میری ہم عصر اداکاراؤں میں سے کسی نے اس قسم کا کردار نہیں کیا ”۔

”پھر فلمساز قتیلؔ شفائی صاحب کی پشتو فلم“ عجب خان آفریدی ”( 1971 ) میں مجھے کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ میں نے کہا کہ مجھے پشتو نہیں آتی۔ مجھے بتایا گیا کہ میرا کردار ایک انگریز لڑکی کا ہے۔ اس کے لئے ہمیں آپ ہی موزوں لگتی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی پشتو بولیں گی کیوں کہ آپ تو اس فلم میں انگریز ہیں! میں نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ بوڑھی عورتوں کا کردار ادا کر کے میں تو سخت پریشان تھی۔ اب یہ کردار تو میرے لئے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ مجھے کچھ سکون ملتا نظر آیا کہ میں اس فلم میں ایک اسمارٹ انگریز لڑکی کا کردار ادا کروں گی“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8