مہنگائی اور عمران خان کی سیاسی لغت


ایک بادشاہ کے انتقال کے بعد شہزادے نے تخت سنبھالا تواس کے علم میں آیا کہ عوام بادشاہ کے مرنے پر بہت خوش ہیں، کیونکہ بادشاہ سلامت کے دور میں مہنگائی تھی، ظلم تھا اور کسی کی داد رسی نہ ہوتی تھی۔ شہزادہ سخت رنجیدہ ہوا اور عمائدین سے خواہش ظاہر کی کہ باپ کے متعلق عوام کی رائے تبدیل کی جائے۔

تمام صلاح مشوروں کے بعد عوام پر مظالم کا نیا سلسلہ نافذ کر کے روز مرہ ضرروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جانے لگا۔ ساتھ ہی نیا بادشاہ عوامی مسائل سے اس حد تک لاتعلق ہو گیا کہ عوام چیخ اٹھے ، اس سے اچھا تو اس کا باپ ہی تھا جس کے دور میں اتنا ظلم نہیں ہوتا تھا۔

دیکھا جائے تو پی ٹی آئی بھی اپنے طرز حکومت سے اگلے الیکشن کے لیے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی راہیں تو پھر سے ہموار نہیں کر رہی کیونکہ تبدیلی کی آس لگائے عوام اب اس گتھی کو نہیں سلجھا پارہے کہ اگر صادق و امین حکومت میں یہ حال ہوتا ہے تو پھر ان سے اچھے کرپٹ لوگ ہی نہیں تھے کیا؟

اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمران خان عوام کا درد نہیں رکھتے ۔ ان کی نیت اور ایمانداری پر کوئی شک نہیں ہے بلکہ خان صاحب تو ملک کا قرضہ اتارنے اور انتہائی غریب طبقے کے لیے پناہ گاہوں جیسے منصوبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ان کو اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ سارے عوام تو ان پروگرامز کا حصہ نہیں بن سکتے۔

چلو گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ امیروں کے لیے ہوا لیکن ہر ماہ کے راشن کی فکر میں تو ملک کا کثیر طبقہ پریشان ہے، جو اشیائے خورونوش انہیں پچھلی حکومتوں میں مناسب داموں پر مل رہی تھیں ، تبدیلی آتے ہی ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

کرپٹ دور حکومت کے آخری روز تک صرف آٹا ، شکر ، دال ، چاول کے دام ہی نہیں اور بہت سی اور اشیاء بھی قابل بردشت قیمتوں کی حامل تھیں ۔ انڈے جو کبھی سردیوں میں بھی 150 سے اوپر نہیں جاتے تھے ، آج 220 روپے درجن اور 45 والی ڈبل روٹی 70 کی ہو گئی۔ کھانے پکانے کے کھلے تیل ہوں یا برانڈ جیسے تلو ۔ ڈالڈا آئل کی کلو والی تھیلی 200 سے 260 اور اجوا آئل کی 190 والی 240 کی ہو گئی ہے۔ روٹی 10 سے 15 کی۔ حلیب، ملک پیک دودھ کے کلو والے پیکٹ 110 سے 160 اور 80 روپے والا ڈیری امنگ 100 روپے کا ہو گیا ہے۔ جن ادویات کی قیمتوں میں پچھلے پندرہ سال سے اضافہ نہیں ہوا تھا وہ بھی مہنگی کر دی گئی ہیں۔

ٹرانسپوٹرز بھی منہ مانگے کرائے  لے رہے ہیں، ٹیکسی تو دور رکشا کی سواری بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ غربیوں کی سوغاتیں مونگ پھلی یا کسی ٹھیلے پر ملنے والے چھولہ چاول کی پلیٹ بھی ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ کسی مزدور کا بچہ سالگرہ کی ضد ہی کر لے تو سستے ملنے والے کیک بھی دوگنے داموں کے ہو گئے۔ غرض کہ کریانہ، ڈیری، بیکری کس کس آئٹم کی مثال دیں ، اب تو وہ حال ہے یہ کہ قبرستان میں قبر کے ریٹ بھی اتنے بڑھ گئے ہیں کہ غریب کا مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے اور اس جنگل راج میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

جن بجلی اور گیس کے بلوں کو جلانے کی ترغیب دی جاتی تھی ، آج انہی بلوں میں تاریخی اضافہ ہو چکا ہے۔ ادارہ شماریات اشیاء کی قیمتوں میں پچاس فیصد اضافے کے بعد پانچ فیصد کم ہونے پر مہنگائی میں کمی کی رپورٹ جاری کردیتا ہے۔

واضح رہے مہنگائی کی یہ شرح کورونا وبا کے پھیلنے سے قبل ہی اپنے آثار ظاہر کرنا شروع کر چکی تھی۔ افسوس کہ پرانے نرخ وہ ہیں جنہیں خان صاحب اور اسد عمر قوم پر ظلم قرار دیتے تھے۔ اب اگر اپوزیشن اسی مہنگائی پر سوال کر دے تو فواد چودھری برہم ہو کر فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیا پتا مہنگائی کیا ہوتی ہے۔

تو بھائی آپ ہی بتا دو کہ مہنگائی اور کس بلا کا نام  ہے؟ کیا نواز شریف اور زرداری سلطانہ ڈاکو تھے جو ملک کی دولت لوٹ کر غریب عوام کو کم قیمت اشیاء مہیا کر رہے تھے اور ان کے ادروار میں لوگوں کی آمدن میں بھی اضافہ ہو رہا تھا؟

چلو وفاقی وزراء تو کام سے زیادہ باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن بہتر ہو کہ اب خان صاحب کی توجہ بھی اپوزیشن سے زیادہ ان عوامی مسائل بالخصوص مہنگائی پر رہے۔ پولیس کے ہاتھوں کسی بے گناہ کی جان نہ جائے بلکہ مجرموں کو عبرت ناک سزائیں ملیں۔ نظام تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ ملک کا انفرا اسٹرکچر بہتر ہو۔

خان صاحب اڑھائی سال گزر گئے ہیں اور عام آدمی کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ یاد رکھیے اگر آپ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے تو یہ ان تمام افراد کی ناکامی ہو گی جنہوں نے آپ کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا۔ آپ تو چلے جائیں گے مگر سیاست کی لغت میں کرپشن اور ایمانداری کے معنی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).