کیا بلاول بھٹو، آصف زرداری کو بائیڈن تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت ملی؟


صدر
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی بطور نائب صدر 2011 میں اُس وقت کے پاکستانی صدر آصف زرداری سے ملاقات
منگل سے پاکستانی سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو یا شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔

بی بی سی اردو کے ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے پی پی پی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کی جماعت کو ایسا کوئی دعوت نامہ نہیں آیا ہے۔

اب اصولی طور پر تو صارفین کو احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہیے تھا کہ خبر دینے والا کون ہے اور مصدقہ ذرائع سے اس بارے میں کوئی تصدیق یا تردید ہوئی ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’صدر ٹرمپ کو فوراً عہدے سے ہٹایا جائے ورنہ ان کا مواخذہ ہو سکتا ہے‘

ٹوئٹر نے ٹرمپ کا اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کر دیا

جب جو بائیڈن کی فتح شکست میں بدلنے کے لیے صدر ٹرمپ نے حکام کو ووٹ ’تلاش‘ کرنے کو کہا

لیکن سوشل میڈیا پر جب ایک خبر آ جائے تو پھر وہ کہاں رکتی ہے۔

ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے حامی صارفین تھے جنھوں نے ناخوشگواری کا اظہار کیا تو چند نے اس پر آصف زرداری سے متعلق طنزیہ جملے کسے۔

دوسری طرف وہ صارفین تھے جنھوں نے اس خبر پر مزے لیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ حکومت کی اس دعوت پر کتنی سبکی ہو گی۔

اور ایک صارف تو یہاں تک دعوی کر بیٹھے کہ پاکستان کی جانب سے ماضی میں امریکہ میں سفیر کی ذمہ داریاں نبھانے والے حسین حقانی کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا کہ پی پی پی کے رہنماؤں کو تقریب میں شرکت کی دعوت ملی۔

پی پی پی کے دور حکومت میں سفیر کا کردار ادا کرنے والے حسین حقانی کو وضاحتی ٹویٹ کرنی پڑی کہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔

ایک صارف شیک شیک اس دعوت نامے کی خبر پر لکھتے ہیں کہ ‘اس کو مداخلت کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔’

لیکن دوسری طرف صارف نتاشہ گنتی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘میلٹ ڈاؤن شروع ہونے والا ہے’۔

اسی طرح ایک اور صارف تیمور اس خبر پر کہتے ہیں کہ ‘ٹرول بریگیڈ کو بہت تکلیف ہوگی۔۔۔’

ایک اور صارف نے خبر پر تبصرہ کیا کہ ‘اسی طرح مغربی طاقتیں تیسری دنیا کے ممالک کو غلامی میں رکھتی ہیں، اور کرپٹ سیاسی خاندانوں کو جائز قرار دیتی ہیں تا کہ وہ ان کے لیے کام کر سکیں۔’

چلیں، فیکٹ چیک تو ہو گیا کہ پی پی پی رہنماؤں کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت کی خبر غلط تھی۔

لیکن شاید اس سے کئی صارفین کے ذہنوں میں ضرور سوال اٹھا ہو کہ نو منتخب امریکی جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں کون شرکت کر رہا ہے اور کون نہیں، اس دن کیا کیا ہوگا اور کووڈ 19 کی وجہ سے کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔

بی بی سی آپ کے ان جیسے کئی سوالات کے جوابات پیش کر رہا ہے۔

حلف برداری کی تقریب کیا ہے؟

امریکی صدر کے دور صدارت کا باضابطہ آغاز حلف برداری کی تقریب سے ہوتا ہے جو کہ ملک کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہوتی ہے۔

اس تقریب کی لازمی عنصر صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے حلف جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

حلف

2009 میں براک اوباما کے نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن حلف اٹھاتے ہوئے

‘میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ایمانداری سے اپنے امریکی صدر کے عہدے کی ذمہ داریاں نبھاؤں گا، اور اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکی آئین کو تحفظ دوں گا اور دفاع کروں گا۔’

ان الفاظ کو ادا کرتے ہی جو بائیڈن 46ویں امریکی صدر بن جائیں گے اور حلف برداری کی تقریب کا سب سے اہم جزو مکمل ہو جائے گا۔

جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد کملا ہیرس نائب صدر بن جائیں گی لیکن وہ اپنا حلف جو بائیڈن سے پہلے لیں گی۔

جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کب ہے؟

امریکی قانون کے تحت حلف برداری کی تاریخ 20 جنوری متعین ہے۔ مقامی وقت کے مطابق تقریب کا آغاز صبح ساڑھے گیارہ بجے ہوگا اور حلف برادری دوپہر بارہ بجے ہو گی۔

اس دن حلف برداری کے بعد جو بائیڈن وائٹ ہاؤس منتقل ہو جائیں گے جو بطور صدر ان کا اگلے چار سال تک گھر رہے گا۔

سکیورٹی کے انتظامات کیا ہوں گے؟

حلف

صدارتی حلف برداری کی تقریب میں بہت جامع سکیورٹی منصوبے بنائے جاتے ہیں لیکن اس بار چھ جنوری کو ہونے والے واقعات کے بعد ان پر اور بھی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔

گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے حمایتیوں کی ایک بڑی تعداد نے کیپٹل کے نام سے معروف امریکی قانون ساز عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔

اس سال کی تقریب کے لیے دس ہزار سے زیادہ نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا گیا ہے جکہ پانچ ہزار نیشنل گارڈز بھی تیار رہیں گے اگر ایمرجنسی میں انھیں طلب کرنا پڑا۔

چار برس قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھایا تھا تو اس روز واشنگٹن میں آٹھ ہزار نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا تھا۔

جب جو بائیڈن بطور صدر اپنا حلف اٹھائیں گے تو اس دن واشنگٹن میں ایمرجنسی نافذ ہو گی، جو کہ چھ جنوری کے واقعات کے بعد شہر کے میئر نے نافذ کر دی تھی۔

نو منتخب صدر بائیڈن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘میں اپنی سکیورٹی اور حلف برداری کی تقریب کے بارے میں پریشان نہیں ہوں۔’

تاہم سینیٹر ایمی کلوبچار، جو کہ جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ چاہتی ہیں کہ تقریب کے انتظامات کو محفوظ بنانے کے لیے بڑے اقدامات لیے جائیں۔

کیا ڈونلڈ ٹرمپ اس دن موجود ہوں گے؟

صدر

امریکہ میں یہ روایت ہے کہ جانے والا صدر نو منتخب صدر کی حلف اٹھانے کی تقریب میں موجود ہوتا ہے

امریکہ میں یہ روایت ہے کہ جانے والا صدر نو منتخب صدر کی حلف اٹھانے کی تقریب میں موجود ہوتا ہے۔

نیوز ویب سائٹ پولیٹیکو کے مطابق ابراہم لنکن کے نائب صدر اور پھر ان کی موت کے بعد صدر بن جانے والے اینڈریو جانسن نے انتخاب ہارنے کے بعد 1869 میں نو منتخب صدر اُلیسس ایس گرانٹ کی صدارت کی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت سے اجتناب کیا۔

اس کے بعد سے ہر صدر نے اپنے بعد آنے والے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی ہے۔

چار برس قبل جب صدر ٹرمپ حلف اٹھا رہے تھے تو اس تقریب میں جانے والے صدر براک اوباما کہ علاوہ صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود ہلیری کلنٹن نے اپنے خاوند اور سابق صدر بل کلنٹن کے ساتھ شرکت کی تھی۔

مجموعی طور پر صرف تین صدور، جان ایڈمز، جان کوئنسی اور اینڈریو جانسن نے اپنے بعد منتخب ہونے والے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے انکار کیا ہے۔

حلف

چار برس قبل جب صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے موقع پر صدر براک اوباما کہ علاوہ صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود ہلیری کلنٹن نے اپنے خاوند اور سابق صدر بل کلنٹن کے ساتھ شرکت کی تھی

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اگر جانے والا صدر آنے والے صدر کی تقریب حلف برادری میں شرکت کرے تو وہ شاید اس کے لیے بے چینی کا باعث بن سکتا ہے لیکن اس سال معاملہ کچھ اور ہی ہوگا کیونکہ صدر ٹرمپ وہاں پر موجود نہیں ہوں گے۔

گذشتہ جمعے کو انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ‘وہ تمام لوگ جو پوچھ رہے تھے، میں 20 جنوری کو ہونے والی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کروں گا۔’

صدر ٹرمپ نے اس ٹویٹ سے کچھ دیر قبل ہی ایک اور پیغام میں کہا تھا کہ وہ ‘نئی انتظامیہ’ کے لیے ‘پر امن’ طریقے سے طاقت کی منتقلی کے وعدے پر کارفرماں ہیں۔

گذشتہ سال کے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست سے مسلسل انکار کرنے والے صدر ٹرمپ نے اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

اور ان کی طرح ان کے حمایتی بھی یہ ماننے سے انکار کرتے چلے آئے ہیں اور ان میں سے چند نے تو ‘ورچوئل تقریب حلف برداری’ کا انتظام کیا ہے جو کہ اسی دن اور اسی وقت ہوگی جب جو بائیڈن اپنا حلف اٹھا رہے ہوں گے۔

فیس بک پر منعقد ہونے والے اس ایونٹ میں شرکت کرنے کے لیے 68000 سے زیادہ افراد اپنی رضا مندی دکھا چکے ہیں۔

کووڈ 19 کی وجہ سے اس سال کیا بدلے گا؟

حلف

جب براک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت میں حلف اٹھایا تھا تو تقریب میں تقریباً بیس لاکھ افراد نے شرکت کی تھی

جب براک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت میں حلف اٹھایا تھا تو تقریب میں تقریباً بیس لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔

تاہم نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس سال کی تقریب کا حجم بہت چھوٹا رکھا جا رہا ہے اور انھوں نے اپنے حامیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دارالحکومت نہ آئیں۔

ماضی میں تقریب میں شرکت کرنے کے لیے دو لاکھ کے قریب ٹکٹ فروخت کیا جاتے تھے لیکن اس سال وبا کے باعث صرف ہزار ٹکٹس فروخت کیے جائیں گے۔

تقریب میں شرکت کے لیے ٹکٹ کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

ٹکٹس تقریب میں ان حصوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں جو سٹیج کے نزدیک ہوں لیکن نیشنل مال عوام کے لیے کھلا ہوا ہوتا ہے۔

وہ لوگ جو تقریب میں شرکت کے لیے ٹکٹ لینا چاہتے ہوں تاکہ وہ حلف برداری کو قریب سے دیکھ سکیں، اس کے لیے انھیں اپنے علاقے کے نمائندے سے بات کرنی ہوگی۔

سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے اراکین کے پاس بھی محدود تعداد میں ٹکٹس ہوتے ہیں جو وہ بانٹ سکتے ہیں لیکن اس سال وبا کے باعث اس رکن کو اپنے ساتھ صرف ایک اور مہمان ساتھ لانے کا اجازت ہو گی۔

تقریب میں کون کون اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے؟

حلف برداری کی تقاریب میں جیتنے والے صدور ملک کے نامور فنکاروں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے دعوت دیتے ہیں لیکن جو بائیڈن نے ابھی تک کسی کا نام پیش نہیں کیا ہے۔

صدر اوباما نے اپنی پہلی تقریب حلف برداری میں معروف گلوکارہ اریتھا فرینکلن اور بے یونسے کو دعوت دی تھی۔

چار سال بعد اپنی دوسری تقریب حلف برداری کے لیے اوباما نے گلوکارہ کیلی کلارکسن اور جینیفر ہڈسن اور بے یونسے کو مدعو کیا۔

تاہم صدر ٹرمپ کو اپنی مرضی کے فنکاروں کو دعوت دینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ایلٹن جان، سیلین ڈییون، کس اور گارتھ بروکس کو تقریب میں مدعو کیا گیا لیکن ان سب نے دعوت ٹھکرا دی۔

بعد میں راکٹس، لی گرین ووڈ اور تھری ڈور ڈاؤن نے تقریب میں گانے گائے۔

حلف

صدر اوباما کے دوسری تقریب حلف برداری میں بے یونسے اپنے فن کا مظاہرے کر رہی ہیں

یہ تقریب جنوری میں کیوں ہوتی ہے؟

ماضی میں صدارتی حلف برداری کی تقریب 20 جنوری کے بجائے چار مارچ کو ہوا کرتی تھی۔

اس وقت اس کی وجہ تھی کہ ملک کے طول و عرض کے باعث ووٹ دیر سے جمع ہوتے تھے تو اس کے لیے زیادہ وقت دیا جاتا تھا لیکن اس کا نقصان یہ تھا کہ نو منتخب صدر کو چار ماہ تک انتظار کرنا پڑتا تھا جو کہ بہت طویل عرصہ تھا۔

تاہم ٹیکنالوجی اور مواصلات میں بہتری آنے کے بعد 1933 میں اس دورانیہ کو آئین کی 20ویں ترمیم کے ذریعے کم کر دیا گیا اور 20 جنوری کی تاریخ حلف برداری کے لیے چن لی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp