امریکہ میں ستر سال بعد ایک خاتون کو موت کی سزا
امریکی میں قتل کے جرم میں موت کی سزا پانے والی خاتون لیسا مونٹگومری کو بدھ کے روز مہلک انجیکشن لگا کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔
امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی سزا کو موخر کرنے کے حکم کو واپس لینے کے بعد امریکی ریاست انڈیانا کے ٹیری ہیٹی جیل میں ان کو مہلک انجیکشن لگا دیا گیا۔
قتل کے جرم کا ارتکاب کرنے والی اس امریکی خاتون کے مقدمے میں اس وجہ سے بھی غیر معمولی عوامی دلچسپی دیکھنے میں آئی کیونکہ مجرمہ کے وکلا کا کہنا تھا کہ ان کی موکلا بچپن میں ظلم اور زیادتی کا شکار رہی ہیں اور ان کی ذہنی حالت درست نہیں ہے۔
باؤن سالہ مجرمہ پر سنہ 2004 میں امریکی ریاست مزوری میں ایک حاملہ عورت کا پیٹ چاک کر کے اس کے بچے کو نکال کر بچے کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
مقتولہ کی شناخت بوبی جو سٹینٹ کے نام سے ہوئی تھی اور ان کی عمر اس وقت 23 برس کی تھی۔
بوبی جو سٹینٹ کا پیٹ چاک کیے جانے کے بعد ان کے جسم سے سارا خون بہہ گیا اور ان کی موت واقع ہو گئی۔
مونٹگومری امریکہ میں گزشتہ 67 سال میں موت کی سزا پانے والی پہلی خاتون ہیں۔
مزید پڑھیے:
امریکہ میں 1953 کے بعد پہلی خاتون کو سزائے موت کا سامنا
امریکہ:وفاقی سطح پر 17 برس میں پہلی سزائے موت
امریکہ: قیدی کو تجرباتی ٹیکے سے سزائے موت
مونٹگومری کی موت کی سزا پر عملد ر آمد کے وقت ان کے قریب موجود ایک خاتون کے مطابق آخری وقت مونٹگومری لے چہرے پر چڑہائے گئے کپڑے کو ہٹا کر پوچھا گیا کہ وہ موت سے پہلے کچھ کہنا چاہیں گی تو مونٹگومری نے کہا ‘نہیں’ اور اس کے علاوہ کوئی اور لفظ ادا نہیں کیا۔
مونٹگومری کو مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر 31 منٹ پر مردہ قرار دے دیا گیا۔
مونٹگومری کی وکیل کیلی ہنری نے کہا کہ جس کسی نے بھی موت کی سزا پر عملد ر آمد میں حصہ لیا ہے اس کو شرم آنی چاہیے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ذہنی طور پر متاثرہ اس خاتون کو موت کی سزا دینے کے لیے اس قدر تیار ہو گئی تھی کہ وہ کہیں نہ رکی۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیسا مونٹگومری کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔
ان کی موت کی سزا پر دو مرتبہ عملد ر آمد کو کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے روکا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم نے ان کو موت کی سزا دیئے جانے کا حکم سنا دیا۔
اس مقدمے کے ایک ڈرامائی موڑ میں پیر کو انڈیانا کے ایک جج نے موت کی سزا پر عملد ر آمد کو اس وقت تک روک دینے کا حکم دیا تھا جب تک ان کی ذہنی حالت کے بارے میں سماعت نہیں ہو جاتی۔
ان کے وکل کا کہنا تھا کہ پیدائشی طور پر ان کی موکلا کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ موت کی سزا دیئے جانے کے قابل نہیں ہیں۔
مونٹگومری کی زندگی کے بارے میں ان کے خاندان والوں کا کہنا تھا کہ وہ بچپن میں مسلسل اپنے والد کے ظلم اور جنسی زیادی کا نشانہ بنتی رہیں اور ان کی والدہ ان کو فروخت کرتی رہیں۔ ان کے وکیل کا کہنا تھا جو کچھ مونٹگومری کے ساتھ ہوا وہ تشدد کے مترادف تھا۔
ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ جس وقت ان سے یہ جرم سر زد ہوا ان کی ذہنی حالت درست نہیں تھیں اور انھیں کچھ احساس نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔
ان کے وکلا کے اس موقف کی تائید 41 سابق وکیلوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کی جن میں امریکی کمیشن آن ہیومن رائٹس کا ادارہ بھی شامل ہے۔
لیکن مقتولہ کے لواحقین اور عزیز رشتہ داروں کا یہ ہی کہنا تھا کہ مونٹگورمی نے جس بے دردی سے قتل کیا ان کو موت کی سزا ہی دی جانی چاہیے چاہے ان کی ذہنی حالت کچھ بھی ہو۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).