عمر کی نقدی (6)
اسلام آباد میں نذیر کے پاس رہتے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا لیکن ابھی تک رہائش کا کوئی بندوبست نہیں ہو رہا تھا۔ ہم نے ان دنوں میں بہت سے سیکٹرز کے دورے کیے لیکن کہیں بات نہیں بنی۔ نذیر جن کے ساتھ رہتا تھا وہ فلیٹ ( اب فلیٹ کہتے ہیں اس وقت ہم انہیں کوارٹر کہتے تھے ) ایک چوہدری صاحب کو الاٹ تھا جو جہلم کے کسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ مجھے انہوں نے جب پریشان دیکھا تو کہا کاکا، جتنے دن مرضی یہاں رہو، ہم تم سے تنگ نہیں ہوں گے تمہاری وجہ سے شام کو رونق لگی رہتی ہے۔
ایک دن نذیر نے شام کو مجھے کہا کہ تمہاری رہائش کا بندوبست ہو گیا ہے۔ چلو میرے ساتھ فلیٹ دیکھنے چلیں۔ ہم فلیٹ سے پیدل ہی نکلے اور تھوڑی دور واقع جی سیون ٹو میں ایک فلیٹ میں پہنچے۔ یہ فلیٹ ہمارے ہی علاقے کے کامرس منسٹری میں ملازم غلام مصطفے بھٹی کو الاٹ تھا۔ گراؤنڈ فلور پر واقع اس فلیٹ میں دو کمرے تھے ایک کچن۔ ٹائلٹ اور باتھ روم اور پیچھے صحن تھا۔ ایک کمرے میں فیصل آباد کے دو افراد مقیم تھے۔ بھٹی صاحب اپنے کمرے میں مجھے رکھنے پر راضی ہو گئے تھے۔
اسلام آباد ان دنوں تیزی سے آباد ہو رہا تھا۔ ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے رہائشی فلیٹ بہت کم تھے۔ سٹیٹ آفس سے فلیٹ کی الاٹمنٹ ایک بہت ہی مشکل اور طویل مرحلہ تھا۔ ایسے بہت سے ملازمین جن کو فلیٹ الاٹ تھے اور جنہوں نے اپنی فیملیاں اپنے آبائی قصبوں یا شہروں میں رکھی ہوئی تھیں وہ اپنے ساتھ چار پانچ ملازم رکھ لیتے تھے۔ جو ان کو کرایہ دیتے تھے کیونکہ ان کی تنخواہ سے ہاؤس الاؤنس کٹ جاتا تھا۔ بھٹی صاحب کی فیملی بھی ان کے گاؤں میں رہتی تھی اور وہ اکیلے اس فلیٹ میں رہتے تھے۔
میں اس سے اگلے دن ان کے فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔ ہماری بلڈنگ میں کل چھ فلیٹ تھے تین نیچے اور تین ہی اوپر۔ ہمارے علاوہ سب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔ اس لئے ہم پہلے دن ہی تھوڑا سا ریزرو ہو گئے۔ ہمارے کمرے میں دو چارپائیاں تھیں۔ ایک پر میں نے بستر بچھا لیا۔ کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ فیصل آباد والے دونوں لڑکوں نے اپنے کھانے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ لیکن بھٹی صاحب درویش آدمی تھے پکانے کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے کبھی کسی ہوٹل سے اور کبھی کسی ڈھابے سے کھانا کھا آتے تھے۔
مجھے نذیر نے کہا تھا کہ میں شام کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھایا کروں۔ انہوں نے باقاعدہ میس بنایا ہوا تھا۔ میں شام کا کھانا ان کے فلیٹ میں ہی کھاتا تھا۔ پہلے ہی دن رات کو سوتے میں مجھے جسم پر کچھ خارش محسوس ہوئی۔ کافی دیر میں کھجاتا رہا۔ جب خارش زیادہ ہوئی تو میں نے لائٹ جلا کر اپنی چارپائی دیکھی تو چادر پر کالے کالے چھوٹے سینکڑوں کی تعداد میں کھٹمل تھے جو میں نے پہلی بار دیکھے تھے۔ میں نے بستر سے چادر باہر صحن میں لے جا کر جھاڑی اور پھر بستر پر بچھائی۔ کچھ دیر آرام سے گزری، پھر وہی کام دوبارہ شروع ہو گیا۔
میں نے دوبارہ لائٹ جلائی تو پھر کھٹملوں کی ایک فوج حملہ آور تھی۔ اب میں نے چارپائی اٹھائی اور اسے صحن میں رکھا، فرش پر بستر بچھایا اور سکون کی نیند سو گیا۔ اس کے بعد جتنا عرصہ میں نے اسلام آباد میں گزارا فرش پر ہی بسیرا رہا۔ مجھے فرش پر سوتے دیکھ کر بھٹی صاحب بھی میرے ساتھ فرش نشین ہو گئے۔
نیشنل ٹیلنٹ پول کو قائم ہوئے تین سال ہو گئے تھے لیکن بھٹو حکومت ختم ہونے کی وجہ سے کام کی رفتار میں بہت کمی آ گئی تھی۔ ہماری تقرریاں بھی دو سال لیٹ ہو گئیں تھیں۔ ہماری جس سیکشن میں تقرریاں ہوئی تھیں اس کا کام ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اس کے بعد اس کو کمپیوٹرائزڈ کرنا تھا۔ ہماری سیکشن میں کل اٹھارہ افراد کی تقرریاں ہوئی تھیں۔ جن میں چھ لڑکیاں اور بارہ مرد حضرات تھے۔ ابتدائی دنوں میں ہماری سیکشن کے لئے دفتر میں کوئی باقاعدہ انتظام نہیں تھا اور نہ ہی کسی کے پاس میز کرسی موجود تھا۔
موجودہ دفتر میں بیٹھنے کے لئے جگہ کم تھی اس لئے ہماری سیکشن کے لئے دفتری اوقات دوپہر دو بجے سے شام سات بجے رکھے گئے۔ یوں ہم نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ہمارے ڈائریکٹر جنرل تو بہت اچھے اور قابل آدمی تھے۔ البتہ انچارج ڈائریکٹر چوہدری اشرف چیمہ صاحب انتہائی سخت مزاج تھے۔ بات بات پر ڈانٹ پلا دیتے تھے۔ محترمہ طاہرہ مظہر اور محمد افضل ہمارے اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ ہم لوگ تقریباً سارے ہی نوجوان اور کالجوں سے فارغ ہو کر آئے تھے اس لئے جوش اور کام کرنے کی لگن بھی بہت تھی۔
میری عمر نوکری کے پہلے دن اکیس سال سے بھی کم تھی۔ ہماری چار چار افراد کی ٹیم بن گئی تھی۔ تین اسسٹنٹ اور ایک ان کا انچارج۔ ہمارا ٹارگٹ تھا کہ ایک دن میں ہم نے تین سو افراد کے ڈوزیر کی جانچ پڑتال کر کے ان کے متعلق ساری انفارمیشن رجسٹر پر درج کر کے ڈوزیر پر نمبر لگا کر اس کو ترتیب سے فائل کرنا ہوتا تھا۔ میرا کام فارم چیک کرنا، لکھائی کے کام کی نگرانی کرنا اور ان کو ایک الماری میں صحیح ترتیب سے رکھنا تھا۔
ہمارا دفتر ان دنوں ایف سیون میں رانا مارکیٹ کے سامنے ایک گلی میں پرائیویٹ کوٹھی میں تھا۔ ایک ہفتہ میں ہی ہم سب پوری طرح سیٹ ہو گئے۔ سارا وقت دفتر میں ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا۔ ایک دن میں جلدی دفتر آ گیا تو ڈائریکٹر صاحب کی سیکرٹری نے کہا کہ کام میں میری کچھ مدد کرو۔ میں اس کے پاس بیٹھا اسے فائلنگ کا کام کروا رہا تھا، کہ اتنے میں ڈائریکٹر صاحب آ گئے۔ مجھے دفتر کے پروٹوکول کا کوئی پتہ ہی نہیں تھا۔ خاتون تو ان کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی مجھے بھی اس نے اٹھنے کا اشارہ کیا لیکن میں نہیں سمجھا اور بیٹھا رہا۔ ڈائریکٹر صاحب کمرے میں چلے گئے۔ اندر جا کر مجھے اندر بلایا اور زبردست جھاڑ پلائی۔ اس کے بعد سب نئے سٹاف کو بلایا اور انہیں دفتر کے ادب و آداب پر ایک طویل لیکچر دیا اور اس پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا عندیہ بھی دے دیا۔ سب ہی خوف زدہ ہو گئے۔
اسلام آباد ان دنوں ایف ایٹ سے آگے ختم ہو جاتا تھا۔ جی نائین سیکٹر میں کراچی کمپنی میں سرکاری فلیٹس کی تین چار عمارتیں ابھی نئی بنی تھیں۔ وہاں کچھ ملازموں کو فلیٹ الاٹ ہوئے تھے لیکن ویرانی کی وجہ سے ملازمین وہاں جانے سے کتراتے تھے۔ سرکاری ملازم زیادہ تر جی سکس اور جی سیون میں واقع فلیٹس میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ جاپان کی مدد سے پمز ابھی تکمیل کے مراحل میں تھا۔ اور جی ایٹ بھی ابھی بن رہا تھا۔ بلیو ایریا میں صرف دو بڑی عمارتیں تھیں، ایک میں سرکاری دفاتر تھے اور دوسری سٹیٹ لائف کی عمارت تھی۔
آب پارہ، سپر مارکیٹ اور کورڈ مارکیٹ اسلام آباد کے شاپنگ سینٹر تھے۔ صدر سے سیکریٹیریٹ اور دوسری صدر سے بذریعہ لال کوارٹرز، رانا مارکیٹ اور جناح سپر تک فورڈ ویگنیں چلتی تھیں یا پھر ٹیکسیاں۔ ہمارے ڈائریکٹر جنرل کے پاس ایک پرانی سی گاڑی تھی یا پھر دفتر کے لئے ایک پرانا سا کیری ڈبہ اس کے علاوہ باقی کسی کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ کئی دفعہ ہمارے ساتھ ویگن میں انیسویں گریڈ کے افسر کھڑے ہو کر سفر کر کے دفتر آتے تھے۔
ایک سے دوسرے سٹاپ تک کرایہ پچاس پیسے ہوتا تھا۔ انہی دنوں میں لال مسجد کے ساتھ کھلی گراؤنڈ میں جمعہ بازار کا اجرا ہوا تھا۔ ہمارے بھی دفتر کے دو تین لوگوں نے اس میں سبزی اور منیاری کے چھوٹے چھوٹے سٹال لگانے شروع کیے تھے۔ جناح سپر مارکیٹ ابھی بن رہی تھی۔ اس میں ابھی چند مارکیٹ ہی بنی تھیں لیکن زیادہ تر دکانیں سپر مارکیٹ میں ہی تھیں۔
دفتر کے معمولات ایک ڈگر پر آ گئے تھے۔ ہماری سیکشن کے اضافے سے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ملازمین کی تعداد بڑھی تو نئے دفتر کی تلاش شروع ہوئی، کچھ ہی دنوں بعد جناح سپر مارکیٹ میں ایف جی گرلز سکول کے سامنے والی بلڈنگ کے ساتھ اگلی عمارت کی تیسری منزل کا پورا فلور لے لیا گیا۔ اس وقت اس کا کرایہ تین ہزار مہینہ مقرر ہوا اور دو سال کا ایڈوانس دیا گیا تھا۔ اس وقت اس عمارت کے مالک ایک ڈاکٹر صاحب تھے جو امریکہ میں رہتے تھے۔
شاہ صاحب ہمارے دفتر کے کیشیر تھے، انہوں نے کہا کہ آپ اپنا اکاؤنٹ بینک میں کھلوائیں کیونکہ آپ کی تنخواہ کا چیک بن کر آئے گا۔ پندرہویں گریڈ تک تنخواہ دفتر سے ملتی تھی۔ ہماری بلڈنگ کے ساتھ ہی حبیب بنک کی برانچ تھی، وہاں میں نے اکاؤنٹ کھلوا لیا۔ اکتیس مارچ کو شاہ جی نے تنخواہ کا پہلا چیک نو سو چوراسی روپے کا میری میز پر رکھا۔ میں نے چیک دیکھا تو ایک دم مجھے بے جی اور ابا جان کا خیال آیا کہ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتے، اور میں پہلی تنخواہ ان کے ہاتھ میں دیتا تو وہ کتنے خوش ہوتے۔
یہ خیال آتے ہی مجھے ایک دم بہت بے تحاشا رونا آیا۔ میں اپنی کرسی سے اٹھا اور باہر بالکونی میں کھڑے ہو کر بہت رویا، یہ خوشی اور غم کا ملا جلا تاثر تھا۔ اگلے دن جمعرات تھی تو میں ایک چھٹی لے کر اپنی ماں جیسی بڑی بہن کے پاس بنوں گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت ہی زیادہ خوش ہوئیں۔ جب میں نے یہ بات ان سے کی تو انہوں گلے لگا کر مجھے بہت پیار کیا اور پھر ہم دونوں ہی اپنے والدین کو یاد کر کے بہت روئے۔
- بیٹیوں کو ایسے دوزخ سے بچائیں - 15/04/2024
- برطانیہ کے ایک منفرد ٹیکسی ڈرائیور - 09/04/2024
- شاید میں کبھی واپس نہ آ سکوں - 05/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).