ایک روایتی مذہبی آدمی سے مکالمہ


زندگی ایک مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی حقیقت ہے، اس میں کچھ بھی جامد اور ساکت نہیں ہوتا بلکہ یہ بہتے ہوئے پانی کی مانند ہے اور اس کا بہاؤ ہمیشہ آگے کی جانب ہوتا ہے۔ زندگی کا یہ تسلسل صدیوں سے یونہی جاری و ساری ہے۔ اس کے کوئی ہارڈ اور فاسٹ اصول نہیں ہیں، اس تسلسل اور بہاؤ میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کھلے دل سے تسلیم کر کے ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ لوگ زندگی کو باشعور طریقے سے جینے کی کوشش کرتے ہیں مگر کچھ روایتی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں گرد و نواح میں ہونے والی تبدیلیوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اپنی زندگی کو ایک جامد ذہنیت کے ساتھ جینے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ انہوں نے روایتی طور پر جو پڑھا، سیکھا اور سمجھا ہوتا ہے وہ ساری زندگی اسی محدود دائرے کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ روایتی لوگ اندھی تقلید کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی دائروی زندگی پر قانع ہو جاتے ہیں۔

میری ایک ایسے ہی روایتی آدمی سے آشنائی ہے جس کے خیالات بڑھتی عمر کے ساتھ بھی تبدیل نہیں ہوئے، اس کا نام امجد ہے جو گزشتہ 30 سال سے ایک چھوٹی سی دکان چلاتا ہے۔ اس میں وہ مذہبی کتابیں، ٹوپیاں، تسبیح، خوشبو اور مصلے وغیرہ کا کاروبار کرتا ہے مگر اس کی گزر بسر بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔

اب تو خط وغیرہ کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ جب خطوط کا دور تھا تو سرکاری لفافوں پر یہ جملے درج ہوتے تھے ”چھوٹا خاندان زندگی آسان“ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میرا یہ مذہبی دوست ان درج شدہ جملوں کو مٹا کر یہ لکھا کرتا تھا ”بڑا خاندان اور زندگی آسان“ جب کوئی امجد سے پوچھتا کہ تم ایسا کیوں لکھتے ہو تو وہ اس کے جواب میں یہ دلیل پیش کرتا تھا کہ ”ہر پیدا ہونے والا بچہ خود اپنا رزق آسمانوں سے لے کر آتا ہے اور زیادہ بچوں سے روزی میں برکت ہوجاتی ہے“ مگر امجد کی عملی زندگی اس جملے کی نفی کرتی تھی۔ اس کے 12 بچے تھے اور حقیقی تصویر یہ تھی کہ وہ خود اور اس کی بیوی مسلسل بیمار رہتے تھے، نجی ڈاکٹرز کی فیس ادا کرنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی دونوں میاں بیوی اور کبھی بچوں کے ساتھ سرکاری ہسپتال کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔

امجد نے اپنے بچوں کو بھی سکول کی تعلیم کی بجائے مدرسے کی تعلیم کو ترجیح دی اور اس کے 4 بچے عالم بن گئے، پس منظر چونکہ زیادہ مضبوط نہیں تھی اس لیے بچے چھوٹی موٹی مسجد میں چند روپوں کے عوض امام مسجد بن گئے مگر گھر کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔

گزشتہ دنوں بڑے عرصے کے بعد مجھے اس کی دکان پر جانے کا اتفاق ہوا، اس کی عمر اب کافی ہو چکی ہے۔ میں نے اس کے چہرے پر شکستگی اور بے چینی کے اثرات دیکھے اور دکان پر بھی گاہکوں کی زیادہ ریل پیل نہیں تھی۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے امجد سے کچھ سوال کر ڈالے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ آج بھی اپنی روایتی سوچ پر قائم ہے یا اس کی سوچ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔

سوال : امجد آپ کی کیسے گزر بسر ہو رہی ہے؟
جواب: جناب! بڑی مشکل سے گزر بسر ہو رہی ہے، گھر میں بیماریوں کا ڈیرہ لگا رہتا ہے، فیملی زیادہ ہونے کی وجہ سے گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔

سوال: کیا آپ بچوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں؟
جواب : کسمپرسی کے حالات کے باوجود میں اللہ کی ذات پر راضی ہوں اور مشکلات تو اس کے بندوں پر آتی جاتی رہتی ہیں، ان دنیاوی عارضی مشکلات سے کیا گھبرانا۔

سوال: کیا لوگ آج کل اسلامی کتب خریدتے ہیں؟
جواب: اب لوگ دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور مہینوں کوئی کتاب نہیں بکتی، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ دین میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے۔ لوگ مجھ سے منٹو کی کتابیں ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ توبہ توبہ۔

سوال: کیا خوشبو، ٹوپیاں اور جائے نماز بھی سیل ہوتے ہیں؟
جواب: افسوس کی بات ہے کیا بتاؤں ”کپڑا اٹھاؤ تو اپنا پیٹ ہی ننگا ہوتا ہے“ اب لوگوں کو آخرت کی فکر بالکل نہیں اور یہ سب چیزیں اب خال خال ہی سیل ہوتی ہیں۔

سوال: کیا آپ اپنے امام بچوں کی تعلیم اور روزی سے مطمئن ہیں؟
جواب: اب دین دار لوگوں اور علماء کا معاشرے میں وہ مقام نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا، لوگ امام اور علماء کے ہاتھ چوما کرتے تھے مگر اب تو دیکھ کر ہی راستہ بدل لیتے ہیں۔ اب میرے بچے ڈاکٹرز، انجینئر بننے سے تو رہے کیونکہ میں تو دنیاوی تعلیم کو کافرانہ تعلیم سمجھتا ہوں۔ اب لوگوں میں دین نہیں رہا اور نہ دین دار لوگوں میں دین بچا ہے اب تو یہ پیسوں کی گیم بن چکی ہے۔

سوال: آپ اپنے حالات کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں؟
جواب: میں اپنے حالات کا ذمہ دار اپنے اعمال کو سمجھتا ہوں کیونکہ اب ہمارے اعمال خالص نہیں رہے، اسی وجہ سے ہم دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور ترقی کا انحصار مال کی بجائے اعمال پر ہوتا ہے۔

سوال: جو لوگ کلمہ گو نہیں ہیں یعنی ’کافر‘ ، وہ تو اس وقت دنیا کے امام بنے ہوئے ہیں ایسا آخر کیوں ہے؟
جواب: یہ کافر دنیا میں نواز دیے گئے ہیں، ان کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ آخرت میں مسلمان عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے۔ جو آج کافر انجوائے کر رہے ہیں، وہ ہم آخرت میں انجوائے کریں گے۔

سوال: پھر آپ کے دنیا میں آنے مقصد کیا ہے، اگر آپ کو سب کچھ جنت میں ہی ملنا تھا؟
جواب: دنیا امتحان کی جگہ ہے اور قادر مطلق ہمیں مختلف آزمائشوں میں ڈال کر آزماتا ہے جو دنیا میں رہ کر دنیا کی عیاشیوں سے بچ جائے گا، وہ پھر جنت میں عیش کرے گا۔

سوال: جو لوگ کلمہ پڑھے بغیر جنت و دوزخ کے لالچ و خوف سے ماورا ہو کر انسانی جانیں بچاتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کو موذی بیماریوں سے بچانے کے لیے میڈیسن یا ویکسین وغیرہ دریافت کرتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: ان کی دریافت کی واہ واہ انہیں دنیا میں ایوارڈ کی صورت میں مل جاتی ہے مگر آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ وہ جہنم کی آگ میں جلیں گے۔

سوال: کلمہ گو عبدالستار ایدھی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: وہ نماز روزہ سے بہت دور تھا اور حرامی بچوں کا وارث بنتا تھا، اس لیے وہ صرف نام کا مسلمان تھا اور اس کا انجام بھی کوئی اچھا نہیں ہو گا۔

میں اپنے معزز دوست کی گفتگو سن کر واپس آ گیا کیونکہ بقول ڈاکٹر خالد سہیل ”دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان ہیں اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی دیکھنے والی آنکھیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).