دائروں کے مسافر، جنوری 2020 کی ڈائری کا ایک ورق


کیا کہنے ہیں ہمارے؟ ہماری ہر ادا ہی نرالی ہے، ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ اس دنیا کے سارے ضابطے اور اصول ہمارے لیے ہیں اور ہمیں یہ اختیار بھی ہے کہ جب چاہیں ہم ان اصولوں کو نہ صرف تبدیل کر سکتے ہیں بلکہ یکسر ختم کر کے کہانی کو نئے سرے سے شروع بھی کر سکتے ہیں۔

ہماری ہر آنے والی حکومت سمجھتی ہے کہ پہلی حکومت ہر برائی کی ذمہ دار ہے اور اگر وہ نہ آتے تو ملک خدانخواستہ ختم ہونے کے قریب تھا اور دوسری خوبی ہمارے ہاں یہ ہے کہ چاہے کتنی ہی حکومتیں بدل جائیں، چاہے کوئی بھی پارٹی الیکشن جیتے، پارٹی لیڈر کے علاوہ حکومتی چہرے وہی رہتے ہیں۔ اسی طرح مالی کرپشن نامی ایک سدا بہار درخت بھی ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے کہ حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی رہیں، نئی آتی رہیں، لیکن اس کے پھل میں ایسی برکت ہے کہ ہر موسم میں جتنا چاہے پھل اتار لیں، ہمیشہ نئی فصل تیار۔

محکمہ جات کی طرف دھیان دیں تو اگرچہ جرائم کی روک تھام کے لئے مروجہ ادارے تو موجود ہیں ہی، کرپشن کی فصل کو سنبھالنے کے لئے 1999 میں قائم ہوا ادارہ اب ماشا اللہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔

اوپر بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں تمام ریاستی ادارے حکومت وقت بدلنے کے ساتھ اپنی ترجیحات بھی بدل لیتے ہیں سوائے محکمہ زراعت کے کیونکہ زرعی ملک ہونے کے ناتے اس کا ایک اپنا مضبوط و مربوط نظام ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا بقول شخصے، ہر چیز سے تعلق ہے سوائے زراعت کے۔

اب عدالتی نظام ہی کو لی لیجیے، جس کی بدولت یہ چند حروف لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ 2013 میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر وفاقی حکومت نے ایک سپیشل کورٹ تشکیل دی، جس کے اراکین ہائی کورٹس کے تین سینئر ججز مقرر ہوئے۔ استغاثہ کی پوری ایک ٹیم بنائی گئی۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے پر نامزد ملزم پہلی پیشی پر حاضر ہوا، شناخت کروائی اور بعد ازاں بیرون ملک چلا گیا۔ عدالتی کارروائی چلتی رہی، ملزم کے وکیل تاریخ پر پیش ہوتے رہے لیکن ملزم دوبارہ حاضر نہ ہوا۔

عدالت نے کئی بار طلب کیا، دور سے بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت کی پیشکش کی لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ آخر تقریباً چھ سال تک مقدمے کی کارروائی کے بعد ، جس میں بارہا ملزم کو حاضری کا موقع دیا گیا، عدالت نے دونوں اطراف کے وکیلوں کو اپنے اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

اس پر اچانک وفاقی حکومت کی نیند ٹوٹی اور مقدمے کے آخری مراحل میں حتمی دلائل کے روز استغاثہ کی پوری ٹیم کو فارغ کر دیا اور عدالت کو نئے سرے سے کارروائی شروع کرنے کی استدعا کی لیکن عدالت نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور کچھ دنوں بعد ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ملزم پر عائد فرد جرم ثابت ہو گئی اور تفصیلی فیصلے میں سزا بھی سنا دی۔ تمام ملک میں گویا کہ بھونچال سا آ گیا اور وہ دھول اڑی کہ رہے نام اللہ کا۔

اگر کوئی عام ملزم ہوتا یا عام ملک ہوتا تو زیادہ سے زیادہ فیصلے کے خلاف اوپر والی عدالت میں اپیل دائر کر دی جاتی اور کبھی نہ کبھی اس کا فیصلہ بھی آ جاتا لیکن ایک تو ملزم کی سماجی حیثیت ایسی کہ بندہ ناچیز کچھ کہتے ڈرتا ہے اور اوپر سے ملک خداداد کوئی عام ریاست نہیں اس لیے مورخہ 13 جنوری 2020 کو ایک بڑی عدالت نے اس سپیشل کورٹ کے وجود ہی کو غیر قانونی قرار دے دیا کہ نہ ہوگا بانس تو نہ ہی بجے کی بانسری۔

دائروں کے مسافر، ایک بار پھر، نقطہ آغاز سے اپنے سفر شروع کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).