کورونا وائرس ویکسین اور سازشی نظریات


بظاہر کورونا وائرس کا پہلا کیس چین کے وسطی شہر ووہان میں ایک برس قبل سامنے آیا تھا جس کے بعد یہ وبا دنیا کے دوسرے ممالک تک پھیلنا شروع ہوئی اور اب تقریباً ہر خطہ اس سے متاثر ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے نومبر میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پہلا کیس دسمبر 2019 کے شروع میں رپورٹ ہوا تھا۔ لیکن جہاں تک وبا کے پہلی مرتبہ پھیلنے کا سوال ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہیں سے اس مرض کا آغاز ہوا ہو۔

عالمی ادارۂ صحت نے وائرس سے متعلق آگاہی کے لیے 10 سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم تشکیل دی ہے۔ یہ ٹیم اس بارے میں تحقیق کرے گی کہ کورونا وائرس کا پہلا مریض کس طرح وبا سے متاثر ہوا۔ ٹیم اس حوالے سے ان جانوروں پر بھی تحقیق کرے گی جن کے متعلق یہ شبہ ہے کہ کورونا وائرس ان کی وجہ سے پھیلا۔

بہرحال، چین اور دوسرے ممالک سے ہوتے ہوئی، کورونا وائرس پاکستان بھی پہنچی اور اس کا ظہور 26 فروری 2020 کو کراچی میں ہوا۔ ویسے تو پاکستان میں ایک وبا 2018 سے لے کر آج تک موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے کورونا کی کوئی ضرورت تو نہیں تھی، لیکن جو ہونا ہے اس کو تو ہم ٹالنے سے رہے قاصر۔

کورونا وائرس کی پہلی لہر گئی اب دوسری لہر چل رہی ہے جس کے بارے میں بتایا یہ جا رہا ہے کہ پہلی لہر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کورونا وائرس نے بلاتفریق پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ پاکستان کے لوگ بھی بیک وقت دو وباؤں سے نمٹ رہے ہیں۔

ایک وبا جس کی لہر کی کوئی خبر نہیں دوسری وبا کی دوسری لہر چل رہی ہے۔ پہلی وبا کے لئے تو سب ہم آواز و یکجا ہو کر جانے کی دعائیں  مانگ رہے ہیں جبکہ دوسری وبا پر عوام میں تھوڑی تفریق پائی جاتی ہے۔ اکثریت تو یہی کہتی ہے کہ دونوں وباؤں کا جلد از جلد خاتمہ ہو جائے مگر دوسری وبا (کورونا) کے بارے میں ان شخصیات کے کچھ الگ ہی خیالات ہیں جو تقریباً ایک سال سے چھٹیوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ گویا ان کو اس وبا سے محبت سی ہو گئی ہے۔

اب کورونا وائرس کی مختلف ویکسینز بھی مارکیٹ میں آنے کو ہیں۔ بہت سے ممالک کورونا وائرس کے خلاف موثر ویکسین بنانے میں مصروف عمل ہیں، اور اس کے ٹرائل بھی شروع ہو چکے ہیں۔ دنیا کے سائنسدان انسانیت کو بچانے کے اپنے کام پر مامور ہیں اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اور ایسی بھی مخلوق ہے جنہیں کوئی کام سوجھتا نہیں اور صرف ان بھلے لوگوں کی محنت کو مٹی میں ملامے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور آئے دن کوئی نا کوئی شوشہ مارکٹ میں پھینک دیتے ہیں۔

اس وقت دنیا دو قسم کے لوگوں میں تقسیم ہے ، ایک وہ جو انسانیت کو بچانے کی کوششوں میں اپنے شب و روز قربان کر رہے ہیں اور ایک وہ لوگ جو انسانیت کو گمراہ کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً: ایک سابق سینیٹر  نے سینکڑوں کے مجمعے میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ ویکسین دجال کا منصوبہ ہے۔ اس کے لگتے ہی محرم رشتوں کی تمیز بھی ختم ہو جائے گی اور اس سے incest کو فروغ دیا جائے گا اور بالآخر منصوبہ ہو گا گریٹر اسرائیل کی تکمیل کا۔ ایک خودساختہ دفاعی تجزیہ کار مزید انوکھی بات لائے، اب انہیں لگتا ہے کہ ویکسین جس بھی خاتون کو لگی وہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گی۔

اس کے علاوہ بہت سے ایسے ‘عظیم لوگ ‘آج بھی پائے جاتے ہیں جو کورونا وبا کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسے ایک ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں پولیو ویکسین کا آغاز 1994 ء میں ہوا۔ چھبیس سال گزر گئے لیکن آج تک پاکستان پولیو کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ دنیا کے صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان ہیں، جہاں آج بھی پولیو وائرس موجود ہے۔

پولیو ویکسین کو بھی شروع میں ہی شدومد سے متنازعہ بنا دیا گیا تھا۔ منبر و بیٹھک میں بڑے وثوق سے اسے یہود و نصاریٰ کی سازش بتایا جاتا تھا جو کہ دراصل مسلمان آبادی کو بانجھ بنانے کا ایک منصوبہ ہے۔ آج تک پولیو کے قطرے مسلمان بچوں میں بیماری پھیلانے کا منصوبہ، بانجھ بنانے کا منصوبہ اور ذہنی نشو و نما کے خلاف سازش بتائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی رہنماؤں نے اپنا کردار بخوبی ادا نہ کیا، جس کی وجہ سے منبر سے پولیو کے خلاف آگہی پھیلانے کے بجائے پولیو ویکسین یا قطروں کے خلاف گمراہ کن خطبات دیے جاتے رہے، حتیٰ کہ اب یہ نوبت آ گئی کہ مسلم ممالک بھی پولیو سرٹیفیکیٹ کے بغیر آپ کو سفر کی اجازت دینے سے قاصر ہیں۔

کورونا وائرس کو پہلے پہل کافروں کی سزا، حرام جانور کھانے کا نتیجہ اور پھر عذاب قرار دیا گیا کہ جو پانچ وقت وضو کرے وہ تو محفوظ ہے لیکن پھر پتہ چلا کہ وائرس ہم انسانوں سے تو زیادہ وسیع النظر ہے کہ یہ مذہب، رنگ و نسل کی تمیز کیے بغیر سب کو ایک ہی طرح نمٹاتا ہے۔

پھر سائنسی طریقے سے بنے صابن، سینی ٹائزر اور بلیچ کام آنے لگے۔ جب وائرس نے ہر فرقے کے علماء کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کیا تب سمجھ آیا کہ وائرس واقعی کسی سے کمزور نہیں۔ سائنس خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ وائرس کے وجود میں آنے کے ایک سال کے اندر ہی اس کا مقابلہ کرنے کو تین ویکسین اب تک تقریباً ً تیاری کا مرحلہ پار کرنے کو ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے لائیو ویکسین ٹریکر سے دستیاب معلومات کے مطابق محققین اب تک 63 ویکسین کے کلینیکل ٹرائل انسانوں پر شروع کر چکے ہیں، جن میں سے 18 ویکسین کچھ فیصلہ کن نتائج تک پہنچ سکتی ہیں۔

کورونا ویکسینز میں ہے کیا؟ اس سوال کے جواب میں بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق ”کورونا وائرس کی مختلف ویکسینوں میں ایک جنیاتی کوڈ کا استعمال کیا گیا ہے جو انسانی مدافعاتی نظام کے ردعمل کی وجہ بنتا ہے اور انہیں ایم آر این اے ویکسینز کہا جاتا ہے۔یہ ویکیسنیں انسانی خلیوں میں رد و بدل نہیں کرتیں بلکہ یہ صرف انسانی جسم کو کورونا کے وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کا کام کرتی ہیں۔چند ایک ویکسینوں میں کورونا وائرس سے پروٹین حاصل کر کے استعمال کی گئی ہے۔ بعض اوقات ویکسینوں میں دیگر اجزا مثلاً المونیم وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کو زیادہ مستحکم اور موثر بنایا جا سکے ”۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ”ویکسین آپ کو کوئی بیماری نہیں لگاتی بلکہ یہ آپ کے جسم کے مدافعاتی نظام کو یہ سکھاتی ہیں کہ اگر کوئی مخصوص وائرس جسم میں داخل ہو تو اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ویکسین کے باعث آپ بیمار نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس یہ آپ کے جسم کے مدافعتی نظام کو انفیکشن کی پہچان اور اس سے لڑنے کے طریقے سکھاتی ہے۔

کچھ افراد میں ویکسین لگنے کے بعد معمولی علامات ضرور ظاہر ہوتی ہیں جیسے پٹھوں میں درد، ہلکا سا بخار وغیرہ۔یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ویکسین لگنے کے بعد جسم کا ردعمل ہے۔ بہت کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی ویکسین کے باعث الرجک ردعمل سامنے آئے۔ کسی بھی منظور شدہ ویکسین پر اس میں موجود اجزا درج ہوتے ہیں۔ یہاں آپ کو خبردار بھی کیے دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ویکسین مخالف جھوٹی کہانیاں پھیلانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور ان کی بنیاد سائنس ہرگز نہیں ہے ”۔

ہمارے ہاں ویکسین ابھی پہنچی نہیں آپ نے دیکھا کہ اس کے خلاف مہم شروع ہو چکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جہالت ایک سلو پوائزن ہے۔ یہ آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو متشدد، جذباتی اور ذہنی غلام بناتی ہے۔ ایسے لوگ تھوڑے بہت فرق سے ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کو گمراہی کا راستہ دکھاتے ہیں تاکہ ان کے اپنے مفادات محفوظ رہیں اور ان کی ہٹ دھرمی قائم رہ سکے۔

ان سب چیزوں جو ہمیں گمراہ کر رہی ہیں اور ہمیں ذہنی طور پر ایک غیریقینی کی صورتحال میں پھنسا رکھا ہے ، کا تعلق ہمارے دماغ اور اطراف میں نسل در نسل گردش کرتی من گھڑت کہانیاں ہیں۔ اس کے لئے مختلف حربے جیسا کہ کبھی مذہب و عقیدہ تو کبھی وطن پرستی جیسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سب صرف ذہن کی غلامی اور نفسیات کا کھیل ہے، جس میں ایک انسان دوسرے سے کھیل رہا ہے اور دوسرے کو پتا بھی نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کا کھلونا بن چکا ہے۔ ایک انتہائی مشکل دور سے گزرنے کے بعد ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ بقا صرف تعلیم و تحقیق میں ہے، اس لیے کوئی بھی بات آگے پہنچانے یا تسلیم کرنے سے پہلے تصدیق کرنے کی عادت ڈالیں۔ بلا وجہ عالم و استاد بننے سے پرہیز کریں اور کسی سوال کو ذہن میں ہی دفن نہ کریں بلکہ اس کا جواب تلاش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).