آپ کے کتنے بچے ہیں؟


پاکستان میں اس وقت اوسط عمر 65 سال چل رہی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ہماری آدھی زندگی یا تو لوگوں کو شادی مبارک شادی مبارک کہتے کہتے گزر گئی یا پھر یہ بات ثابت کرنے میں گزر گئی کہ ہم نالائق نہیں ہیں۔ امتحان مشکل آتا ہے۔

پاکستانی پس منظر کے حساب سے زندگی کی دوسری اننگز سے بہت پریشان ہوں۔ پریشانی سوالات کی نہیں، پریشانی یہ ہے کہ سوال کا جواب بھی کرنے والے کی پسند کا دینا ہوتا ہے۔ اکثر خیال آتا ہے کہ جب جواب بھی آپ نے خود ہی سوچ رکھا ہوتا ہے تو خود کلامی کر لیا کریں۔ ہمیں کیوں تکلیف دیتے ہیں؟ عمر کے اس حصے میں سب سے زیادہ پوچھے جانے والے دو سوالات ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ بچے کتنے ہیں؟ یعنی سیدھا اگلے بندے کی خودی پر وار کرنا۔

بمشکل پچیس سال کی جدوجہد کے بعد بندہ تھوڑا سا زندگی کے مزے لینے شروع ہوتا ہے کہ سامنے یہ سوال رکاوٹ بن جاتا ہے جیسے زندگی کا سارا خلاصہ تو یہیں پنہاں ہے۔ اب ہمارے بچے چونکہ ہیں نہیں تو حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بول دیتے ہیں کہ ”نہیں سر۔ دعا کیا کریں“ ۔ بس یہ کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ دعا کی آڑ میں پورا میرج بیورو نکل آتا۔ فلاں ابن فلاں کے ساتھ آپ کے والد کے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ ان کے گھر بات کرتے ہیں آپ کی؟

فلاں ابن فلاں نے ابھی ماسٹرز کیا ہے، فلاں ابن فلاں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ تخلیق ہی آپ کے لئے ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بندہ سوچتا ہے کہ یار میں اتنا اہم ہوں؟ کہ ایک خاص صنف نازک کی تخلیق کا سبب ہی میں ہوں؟ لیکن وہ تو اردو زبان کا شکریہ جس کا ایک لفظ ”مبالغہ آرائی“ ذہن میں آ جاتا ہے اور بال بال بچتے ہیں۔ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ پہلے شادی شدہ ہونے کا کیوں نہیں پوچھتے۔ لیکن یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ ان لوگوں کے پاس دونوں کارڈ ہوتے ہیں۔ ایک میرج بیورو کا اور دوسرا شادی کورس کا۔ چونکہ شادی کے بعد برصغیر کے ہر  باشندے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، ”بچے“ ۔

کیونکہ اگر شادی کے پہلے سال بچے نہ ہوں تو پورا پاکستانی معاشرہ ایسی مجرمانہ نظروں سے دیکھتا ہے جیسے گریٹر اسرائیل پلان کا شراکت دار ہونے کی وجہ سے وہ بچے پیدا نہیں کر رہا۔ اس لیے زندگی کا دائرہ اسی کے گرد گھومتا ہے اور اسی لیے میرج بیورو سے زیادہ شادی کورس بکتا ہے۔ اب وہ بھلا پہلے بچوں کا کیوں نہ پوچھیں؟ شادی کا پوچھیں تو کروانی پڑی گی۔ لمبا کام۔ ہو نہ ہو۔ یہاں تو سب کچھ سیدھا سیدھا۔ بندہ اگر شادی شدہ ہو تو مہذب معاشروں کی طرح یہاں انکار بھی نہیں کر سکتا کہ نہیں سر ابھی پلان نہیں بچوں کا کیونکہ کیا معلوم کہ آگے سے دینیات کا وہ لیکچر سننے کے ملے کہ بندہ غصے میں پوری کرکٹ ٹیم بنا کر امت میں اضافہ کرنے کی نیت کر لے۔ کیونکہ نیت کا بھی تو ثواب ہوتا ہے نا۔

یہ تو خیر ایک چھوٹا سا سوال ہے مگر اہم ضرور ہے۔ اس کے علاوہ اگر دیکھیں تو کہیں جانے کے لئے ٹکٹ خریدیں تو وقت پوچھ کر لیتے ہیں کہ کتنے بجے نکلے گی۔ لیکن اس کے باوجود گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ٹکٹ چیکر سے پوچھنا کہ یار سات بجے کا ٹائم ہی ہے نا؟ یعنی اب کیا کہا جائے؟ گاڑی کے شیشے ٹوٹے ہوتے ہیں، لوگ زخمی پڑے ہوتے ہیں اور انہی سے سوال کر رہے ہوتے ”بھائی کیا ہوا؟ اور پھر جواب ہی خود دیتے کہ“ لگ تو ایکسیڈنٹ رہا ہے ”۔

مٹھائی کی دکان میں جا کر پوچھتے ہیں کہ بھائی مٹھائی ہو گی؟ بھئی اب جس چیز کے دکان ہے اس سے وہی چیز ہی ملے گی نا۔ فلم دیکھنے کی لیے ٹکٹ خرید چکے ہیں لیکن پھر بھی پچھلا شو دیکھ کر باہر آنے والوں سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ فلم کیسی ہے؟ ارے اگر ان کی رائے کو ذہن میں رکھ کر فلم دیکھنی تھی تو ٹکٹ ہی کیوں لیا؟ کوئی تجزیہ پڑھتے اور اسی بنیاد پر دیکھنے یا نہ دیکھنے کا فیصلہ کر لیتے۔ اب بندہ کیا کرے!

ویسے تو کہا جاتا ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی پر مجھے لگتا ہے کہ یہی سوال “بجھیں” گے تو روشنی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).