یزغل سر: ایک طرف گلیشیئر دوسری جانب کھائی، منفی 35 ڈگری میں ’موت کا سفر‘ کرنے والے کوہ پیما


دس جنوری کے انتہائی سرد دن ’یزغل سر‘ کی چوٹی پر پاکستان کے پرچم کے ساتھ کھڑی ایک خاتون با آواز بلند آسمان کی جانب نگاہیں کر کے کہہ رہی تھیں: ’دیکھو جو کام تمھاری زندگی میں نہ کر سکی وہ تمھارے بعد کر لیا ہے۔‘

گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے علاقے شمشال سے تعلق رکھنے والی شکیلہ نوما یہ بات اپنے بھائی امتیاز کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھیں جو گذشتہ سال مہم جوئی کے دوران جان کی بازی ہار گئے تھے، شکیلہ اس مہم میں ان کے ساتھ تھیں۔

امتیاز اپنی بہن کو ایک عظیم کوہ پیما دیکھنا چاہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ شکیلہ نے اس چوٹی کو موسمِ سرما میں سر کرنے کا چیلنج قبول کیا تھا۔

موسمِ سرما میں مہم جوئی کے دوران کسی ٹیم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ یزغل سر کی چوٹی کو سر کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ شکیلہ نوما بھی اس ٹیم کی رکن ہیں جس میں دو خواتین اور تین مرد شامل تھے۔

اس ٹیم نے مہم جوئی کا آغاز نئے سال کے آغاز کے موقع پر کیا اور دس جنوری کے روز یزغل سر کی چوٹی سر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ خاتون جو سردیوں میں بغیر آکسیجن ’کے ٹو‘ سر کرنا چاہتی ہیں

’میری کامیابی پاکستانی خواتین کے نام‘

’اسے سانس نہیں آتی تھی تو میری سانس اٹکی رہتی تھی‘

کوہ پیما کی تنہا کے ٹو سر کرنے کی ’خودکش‘ مہم ختم

شکیلہ کے علاوہ اس ٹیم کی دوسری خاتون ممبر قراقرم یونیورسٹی ہنزہ کیمپس کے شعبہ سیاحت کی طالبہ ندیمہ سحر ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے سردیوں میں یزغل سر کو فتح کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستانی خواتین ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب ہم لوگوں نے ایک کٹھن سفر کے بعد فتح حاصل کی تو بلندی پر دھوپ تھی اور برفباری بھی ہو رہی تھی جو ہمارے پاؤں چھو کر نیچے جا رہی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ یزغل سر کا یہ دشوار گزار پہاڑ اپنی چوٹی پر پہچنے پر ہمارا خیر مقدم کر رہا ہے۔‘

یزغل سر کا تعارف؟

یزغل سر پاکستان کے قراقرم رینج میں پہاڑوں کے لیے مشہور زمانہ وادی شمشال میں واقع ہے۔ 5669 میٹر کی بلندی کے باعث کوہ پیما اس کو مشکل ترین چوٹیوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق اس کو سب سے پہلے سنہ 80 کی دہائی میں سر کیا گیا تھا۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری قرار حیدری کا کہنا تھا کہ اس کے بعد بھی مہم جوؤں نے اس کو فتح کیا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے لیکن موسمِ سرما میں اس ٹیم سے قبل کوئی بھی اسے سر نہیں کر پایا تھا۔

اس کی وجوہات بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہاں بڑے بڑے گلیشیئر اور دشوار گزار راستے ہیں اور پھر سردیوں میں انتہائی تیز ہوائیں بھی چلتی ہیں جس کی وجہ سے اس سے پہلے کسی کو کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

قرار حیدری کا کہنا تھا کہ پاکستانی کوہ پیماؤں کا یہ کارنامہ اس لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سردیوں میں پہلی مرتبہ اس کو نہ صرف فتح کیا گیا بلکہ اس میں ہماری بہادر مہم جو خواتین بھی شامل تھیں اور ان کا یہ کارنامہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

سخت جان ٹیم کا انتخاب

اس مہم جوئی کی تجویز پاکستان میں مہم جوئی کے کھیلوں کی سرگرمیوں میں کئی سال سے مصروف عمل سعد منور اور کوہ پیمائی میں آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کرنے والے قدرت علی کے علاوہ پاکستانی کوہ پیما عبد جوشی کی تھی۔

سعد منور نے پہلے سے اس کے لیے مختلف انتظامات کرنے شروع کر دیے تھے جبکہ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ اس مہم میں شمشال سے تعلق رکھنے والی شکیلہ نوما اور ندیمہ سحر کو بھی شریک کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ یہ دونوں خواتین کوہ پیمائی میں قدرت علی کی شاگرد بھی تھیں۔

قدرت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سال 2018 میں موسم سرما میں اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر موسمی حالات اور دیگر وجوہات کے باعث ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’اب جب سعد منور نے یہ تجویز پیش کی تو میں خوشی سے تیار ہو گیا۔‘

اس موقع پر انھوں اپنی اپنی دونوں شاگردوں ندیمہ سحر اور شکیلہ نوما کا انتخاب کیا جو ان کے مطابق ’مضبوط اور بہادر‘ کوہ پیما ہیں اور شکیلہ نوما نے تو اس سے پہلے بھی موسم سرما کی ایک مہم کامیابی سے مکمل کر رکھی تھی۔

قدرت علی کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے شمشال میں زندگی ویسے ہی سخت ہونے کے باعث مرد و خواتین قدرتی طور پر سخت جان ہوتے ہیں اور ان میں مشکلات برداشت کرنے کی سکت موجود ہوتی ہے۔ ہر مرد و خاتون کو بچپن ہی میں مال مویشی اور دیگر کاموں کے لیے پہاڑی علاقوں میں چلنا پڑتا ہے۔

سعد منور کا کہنا تھا کہ ’اس مہم کے دوران ان دو بہادر خواتین نے منفی 35 ڈگری میں اپنی مہم مکمل کی۔ یہ انتہائی خطرناک پہاڑ ہے جہاں پر اچھے موسم میں بھی خطرات موجود ہوتے ہیں مگر سردیوں، برفباری اور گلیئشر میں تو یہ خطرات اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔‘

انتہائی کٹھن سفر

شکیلہ نوما کے لیے ان کے بھائی امتیاز احمد استاد کا بھی درجہ رکھتے تھے، وہ گذشتہ برس اطالوی کوہ پیماؤں کے ہمراہ ایک حادثہ کا شکار ہوئے اور جانبر نہ ہو سکے۔

انھوں نے بتایا کہ ’بھائی کا المناک حادثے میں جان گنوانا ہمارے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں تھا۔ بھائی امتیاز احمد ہی کی وجہ سے میں بھی کوہ پیمائی کرتی تھی۔‘

’مجھے جب سعد منور اورقدرت علی نے موسم سرما کی مہم جوئی کی دعوت دی تو میں نے نہ صرف میں نے یہ دعوت قبول کر لی بلکہ اس کی تیاری کے لیے سخت محنت بھی کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آسان مہم نہیں تھی بلکہ قدم قدم پر مشکلات ہماری سوچ سے بھی زیادہ تھیں۔ راستے میں کئی مشکلات آئیں تین مرتبہ ہم لوگ موسمی حالات کی وجہ سے واپس بیس کیمپ آئے تھے۔‘

شکیلہ نوما کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک بڑا راستہ رسیوں کی مدد سے طے کیا، جو کہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کئی مقامات پر قدرت علی، عبد جوشی اور سعد منور نے ہمارے لیے راستے بنائے تھے جن سے گزر کر ہم نے دشواریوں کو پار کیا تھا۔

ندیمہ سحر کا کہنا تھا کہ ’یہ موت کا سفر تھا۔ منفی 35 ڈگری میں سفر کرتے ہوئے ایک طرف گلیشیئر ہوتا تو اس کی دوسری طرف کھائی ہوتی تھی۔ قدم قدم پر ہمیں پھسلن کا سامنا تھا۔ ایک قدم بھی اگر ادھر سے ادھر پڑ جاتا تو صرف موت ہی مقدر ٹھہرتی۔’

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ دشوار گزار راستے طے کرتے تو سامنے کوئی چوٹی نظر آتی اس تک جاتے تو ہمیں پتا چلتا کہ نہیں یہ بلندی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے سفر اور بھی رہتا ہے۔ سفر کرتے کرتے اچانک سامنے کوئی ایسا گلیئشر آ جاتا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا، اس کو پار کرنا بذات خود انتہائی تھکا دینے والا اور مشکل ہوتا تھا۔

ندیمہ نے کہا کہ ’واپسی کا سفر اس سے بھی زیادہ دشوار گزار تھا۔ ہماری مہم جوئی اس لیے بھی مختلف تھی کہ ہم نے یہ پہاڑ نہ صرف سردیوں کے موسم میں فتح کیا ہے بلکہ اس کو سر کرنے کے لیے ایک نیا راستہ بھی دریافت کیا ہے۔‘

حوصلہ افزائی اور وسائل ملیں تو ماوئنت ایورسٹ اور کے ٹو بھی دور نہیں

سعد منور کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاکستان، بالخصوص گلگت بلتستان اور پھر وادی شمشال میں کوہ پیمائی کا بہت بڑا ٹیلنٹ موجود ہے، جس میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’مگر بدقسمتی سے ان لوگوں کو اتنے وسائل اور مواقع نہیں ملتے کہ یہ اپنا ٹیلنٹ ظاہر کرسکیں۔ پاکستان میں موجود کئی چوٹیاں جو پہلی مرتبہ غیر ملکیوں نے فتح کی ہیں وہ یہاں کے کوہ پیما بھی کرسکتے تھے۔‘

سعد منور کا کہنا تھا کہ قدرت علی نے ایک مرتبہ یزغل سر کو سردیوں میں فتح کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس میں وہ کامیاب تو نہیں رہے مگر انھیں یہ تجربہ ضرور ہو گیا تھا کہ وہ دوسری مرتبہ بہتر تیاری کے ساتھ اس کو آرام سے فتح کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اپنی دو خواتین کوہ پیماؤں کو اپنی ٹیم میں اس لیے شریک کیا تاکہ دنیا اور ارباب اختیار تک نہ صرف ان کی بلکہ ہماری دیگر خواتین مہم جوؤں کی صلاحیتوں کا پیغام پہنچ سکے۔

’ہمارا خیال ہے کہ اب اس کارنامے کے بعد شاید نہ صرف ان خواتین بلکہ وادی شمشال میں پھیلے ہوئے ٹیلنٹ کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی ہو تاکہ وہ مزید کارنامے بھی انجام دے سکیں۔‘

یہ کام آٹھ ہزار روپے کی ملازمت سے کرنا ممکن نہیں

شکیلہ نوما کا کہنا تھا کہ بچپن ہی سے کوہ پیمائی سے منسلک ہوں۔ کوہ پیمائی کی تربیت تو حاصل کی ہے مگر مجھے کبھی بھی اس کے لیے ورزش وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ بچپن ہی سے مال مویشی اور دیگر کاموں کے لیے کئی کئی گھنٹے تک پہاڑوں میں سفر کرتی تھی۔

’یہی وجہ ہے کہ سفر کرنے کی نہ صرف عادت ہو چکی ہوں بلکہ ہماری ٹانگیں اور بازو بھی مضبوط ہیں جو دنیا کا کوئی کام بھی کر سکتے ہیں۔‘

ندیمہ سحر کا کہنا تھا کہ ہم پہاڑی لوگ ویسے ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے پاس وسائل اور مواقع کی کمی ہے۔

’اگر میرے پاس وسائل اور مواقع ہوں تو میرا عزم ہے کہ میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کروں۔ میرا خواب ہے کہ پہلے کے ٹو کو موسم گرما اور پھر بعد میں موسم سرما میں فتح کر کے ریکارڈ بناؤں۔‘

شکیلہ نوما کا کہنا تھا کہ ’اب تو کافی سارا وقت روزگار کے سلسلے میں نکل جاتا ہے ورنہ میرا خواب ہے کہ ماوئنٹ ایورسٹ کو فتح کرنے کے بعد دنیا کے سفر پر نکل کھڑی ہوں اور جہاں جہاں کوئی ایسی چوٹی ہو جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ چوٹی خواتین کے لیے فتح کرنا مشکل ہے تو میں اس کو فتح کر کے دکھاؤں۔

’مگر یہ کام آٹھ ہزار روپے کی ملازمت سے کرنا ممکن نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp