انڈیا میں کسان سراپا احتجاج: کیا انڈین کسانوں کا احتجاج نریندر مودی کی توقعات سے بھی زیادہ منظم نکلا؟


احتجاج
انڈیا کے دارالحکومت کو جانے والی متعدد بڑی شاہراہوں پر گذشتہ 45 دن سے دھرنے اور حکومت سے آٹھ مرتبہ مذاکرات کی کوششوں کے باوجود، کسان اپنے مطالبات سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

بظاہر کسانوں کے مفاد میں بنائے گئے تین قوانین جن کا مقصد زرعی اجناس کی فروخت، قیمتوں کے تعین اور ذخیرے کے طریقہ کار کو سہل بنانا تھا لیکن ان قوانین کو مکمل طور پر واپس لیے جانے سے کم کسی بات پر کسان نئی دہلی کا محاصرہ ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

سپریم کورٹ نے منگل کو ان قوانین سے متعلق کئی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ان قوانین کے نفاذ پر حکمِ امتناعی جاری کر دیا ہے۔ لیکن غیر یقینی کی صورتحال ختم نہیں ہوئی ہے۔

لہذا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ان قوانین پر اتنا شدید ردعمل آنے کا اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہے اور وہ پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں میں عوام کی نبض کو کیوں نہیں پڑھ سکے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے کسان آخر چاہتے کیا ہیں؟

کیا انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نئے مجوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟

انڈیا: کھوپڑیوں کے ساتھ کسانوں کا احتجاج

پنجاب سے تعلق رکھنے والی سرکار کی ایک اتحادی جماعت کی طرف سے ان قوانین کی ابتدائی حمایت کی وجہ سے کیا نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس جال میں پھنس گئے۔

اکالی دل جو حکومتی جماعت کی اتحادی جماعت ہے اس نے بعد میں ان قوانین کے بارے میں اپنے موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے حکومت سے علیحدہ ہو گئے۔

کیا حکومت کو اس بات کا گمان تھا کہ ان قوانین کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کمی آئے گی؟

مودی کی شہرت سخت گیر سربراہ اور ایک ایسے رہنما کی ہے جو اپنے مخالفین کے سامنے کوئی نرمی نہیں دکھاتے اور جن کی جماعت کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہتا ہے۔

احتجاج

پنجاب میں ان قوانین کو منظور کیے جانے سے بہت پہلے ملک میں وبا کے دوران احتجاج کی فضا پیدا ہو رہی تھی۔ ناراض کسان کئی جگہوں پر ریل کی پٹریوں پر دھرنے دے رہے تھے۔ ستمبر کے آخر میں علاقائی جماعت اکالی دل نے واک آؤٹ کیا۔

تو کیا وجہ ہے کہ نریندر مودی ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں اور اب دنیا کا سب سے بڑا بحران بن کر سامنے آیا ہے۔

اس کی ایک وجہ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کو اب تک کسی عوامی احتجاج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سنہ 2015 میں گجرات کی پٹیل برادری کی طرف سے کیا گیا احتجاج ملازمتوں میں کوٹے سے متعلق تھا۔ یہ احتجاج چار سال جاری رہنے کے بعد ختم ہو گیا۔

دلی میں مسلمان خواتین کی طرف سے شہریت کے نئے قوانین کے خلاف احتجاج ایک ماہ تک جاری رہا لیکن کووڈ 19 کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات میں یہ احتجاج بھی ختم ہو گیا۔

لیکن اب تک کوئی بھی احتجاج اتنا شدید نہیں تھا اور اس نے حکومت کو اس طرح چیلنج نہیں کیا تھا جیسے موجودہ کسانوں کے احتجاج نے کیا ہے۔

انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن پروفیسر پرمندر سنگھ نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نریندر مودی صورت حال کا صحیح انداز نہیں کر پائِے کیونکہ انھیں پنجاب میں کسانوں کے احتجاج کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔

ان کا خیال ہے کہ نریندر مودی کو عوامی مظاہروں کا سامنا کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے جس کی وجہ سے انھیں نے اس بحران سے نمٹنے میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا ہے۔

احتجاج

دوسری وجہ یہ ہے کہ موجودہ احتجاج انڈیا کی تاریخ میں کیے جانے والے مظاہروں سے بالکل مختلف ہے۔

نوآبادتی دور میں استحصالی قوانین کے خلاف ہونے والے کسانوں کی بغاوتیں اکثر تشدد کا راستہ اختیار کر لیتی تھیں۔

سنہ 1947 میں آزادی کے بعد سے کسان اجناس کی گرتی ہوئی قیمتوں، بڑھتے ہوئے قرضوں اور دیگر معاملات پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی احتجاج اتنا منظّم اور اتنا شدید نہیں تھا جس کو ملک کی چالیس سے زیادہ کسانوں کی تنظیمیں اور پانچ لاکھ سے زیادہ کسان اور وسیع عوامی حمایت شامل ہو جس طرح کی موجودہ احتجاج کو حاصل ہے۔

موجودہ احتجاج پنجاب سے شروع ہوا جو نسبتاً ایک خوشحال علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ہریانا کے کسان بھی شامل ہوگئے جو پنجاب کے ساتھ دوسری ریاست ہے جس نے زرعی پالیسیوں سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔

یہاں کے کسان اپنی کم ہوتی آمدن سے پریشان تھے اور وہ اس خوف میں مبتلا ہو گئے کہ نئے قوانین سے نجی کمپنیوں کے اس کاروبار میں شامل ہونے سے ان کا مستقل خطرے میں پڑ جائے گا۔

یہ احتجاج اب وسیع ہو گیا ہے اور انڈیا میں زرعی شعبے سے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے دیگر تحفظات بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں کم ہوتی ہوئی زرعی زمین، گرتی ہوتی ہوئی پیداوار، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ایک ایسے ملک میں جہاں زراعت کا شعبہ ریاستوں کی ذمہ داریوں میں آتا ہے وہیں اس پر قانون سازی جیسے مسائل بھی نمایا ہو گئے ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر پراتاپ بھانو میتھا کہتے ہیں کہ ‘اس احتجاج کو دیکھا جائے تو بات محض کسی شکایت پر مظاہرے سے بڑھ گئی ہے۔‘

احتجاج

وہ کہتے ہیں کہ یہ احتجاج حکومت پر عدم اعتماد اور وفاق کی طرف سے اپنے اختیارات جتانے کے بارے میں ہے۔

اجتجاج کرنے والوں میں یہ جذبات پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

دھرنے کی جگہ سے شائع ہونے والے ایک اخبار ‘ٹرالی ٹائمز’ کے مدیر سرمیت ماوی نے کہا کہ مظاہروں میں شامل لوگ اسے اپنے حقوق کے لیے ایک بغاوت کا نام دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ حکومت کے خلاف بے خوف و خطر آواز بن گئی ہے۔

دہائیوں سے انڈیا میں کسان کو ایک غریب، نیم خواندہ اور مسلسل محنت کرنے والا انسان سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 15 کروڑ انڈین کسانوں میں مختلف قسم کے لوگ شامل ہیں جن میں بڑے اور چھوٹے زمین دار، بڑے اور چھوٹے کسان اور بے زمین ہاری شامل ہیں۔

لہٰذا جب یہ خبریں آتی ہیں کہ ’یہ لوگ تو پیزے کھا رہے ہیں‘ تو سوشل میڈیا اور معاشرے میں ایک تصور یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ’کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔‘

اس سے یہ بات ایک مرتبہ پھر ثابت ہو جاتی ہے کہ شہروں میں رہنے والے لوگ دیہات میں بسنے والے اپنے بھائیوں کے بارے میں کس قدر بے خبر ہیں۔

مودی کی حکومت جو سمجھنے میں ناکام رہی ہے وہ یہ بات ہے کہ احتجاج کرنے والے کسانوں کے شہروں میں بسنے والے لوگوں کی کتنی حمایت حاصل ہے اور ان کے کیسے تعلقات ہیں۔

ان میں سے بہت سے لوگوں کے بچے پولیس اور فوج میں ملازم ہیں، انگریزی زبان بولتے ہیں، سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، ان کے رشتہ دار ملک سے باہر بستے ہیں اور ان میں سے بہت سے خود بھی ملک سے باہر سفر کر چکے ہیں۔

یہ دھرنے بڑے منظم انداز میں چلائے جا رہے ہیں جہاں طبی امداد دینے کے لیے کلینک قائم ہیں، ایمبولینسز کا انتظام کیا گیا ہے، باورچی خانے چل رہے ہیں۔ حتیٰ کہ لائبریریاں بھی قائم کر دی گئی ہیں اور اخبارات بھی شائع کیے جا رہے ہیں۔

دیگر شہری مظاہروں کی طرح اس مظاہرے کے بارے میں بھی یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں کی وجہ سے اصل مسئلہ کہیں پیچھے رہ جائے گا۔

مورخ مہیش رنگاراجن کے بقول کسانوں کی یہ تحریک انڈیا کی بولی بول رہی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حب الوطن لوگ ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

کسان، انڈیا، سکھ، مودی

یہ کوئی روایتی احتجاج نہیں جو کسانوں کے مسائل اور قحط کے بارے میں ہو جو اس سے پہلے حکومتیں حل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

یہ احتجاج بدقسمتی سے پنجاب میں زرعی شعبے کی کامیابی کا پیدا کردہ ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے گندم اور چاول کی متعین کردہ قیمتوں اور زراعت کا جو ڈھانچہ بنایا گیا تھا اس کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ریاست ہے۔ اب پنجاب کی گردن میں ایک طوق بن گیا ہے، دو اچھی فصلوں کے بعد گوداموں میں گنجائش باقی نہیں رہی ہے جس کی وجہ سے آمدن پر اثر پڑا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

پروفیسر میتھا کے مطابق مشکل یہ ہے کہ پنجاب ایک خوشحال زرعی معاشرے سے ایک ایسے زرعی معاشرے میں تبدیل ہونے میں ناکام رہا ہے جہاں پائیدار بنیادوں پر زراعت اور صنعتیں جاری رہ سکے۔

زراعت سے منسلک 85 فیصد لوگ چھوٹے اور درمیانے کسان ہیں اور وہ مجموعی زرعی زمین کے 47 فیصد حصہ پر کام کرتے ہیں۔

حکومت اور کسان اس بات پر متفق ہیں کہ زرعی شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن وہ ان اصلاحات کی تفصیلات پر کوئی اتفاق پیدا نہیں ہو سکا ہے۔

پروفیسر میتھا کا کہنا ہے کہ اس کا حل موجود ہے لیکن سب سے بڑی مشکل باہمی عدم اعتماد ہے۔ ’یہی مسئلے کی بڑی وجہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp