سارا قصور میاں نواز شریف کا ہے


مسلم لیگ میں مفاہمت کا دوسرا نام میاں شہباز شریف ہے۔ اسی لیے تو سرکاری و غیر سرکاری امن کے خواہاں لوگ بھاگ بھاگ کر جیل جاتے ہیں۔ جی نہیں، گاندھی جی کی پیروی کرتے ہوئے

نہیں، بلکہ قائد حزب اختلاف سے ملاقات کرنے کے لیے۔ جناب محمد علی درانی صاحب، عمران خان، حال مقیم ایوان وزیر اعظم نیز بنی گالہ، کے دوست کیا، دشمن بھی نہیں ہیں۔ کچھ بندے سیدھے سیدھے

بڑی سرکار سے منسلک ہوتے ہیں۔ یعنی پکی کارروائی کی ضمانت کے ساتھ۔ لیکن جناب شہباز شریف کے لیے صرف ایک مشورہ ہے۔

ہرگز ہرگز، مفاہمت کے جال میں مت آ جائیو اسد، سوری، شہباز۔ ذرا سوچیے افہام و تفہیم سے کام لینے کی وجہ سے جناب حمزہ شہباز ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ جیل میں ہیں اور آپ کا بھی آنا جانا لگا ہوا ہے۔ جس میں جانا زیادہ اور آنا کم شامل ہے۔ اب خدانخواستہ مفاہمت زور پکڑ گئی تو جیل کے بعد تو پھانسی ہی ہے۔ اور قوم اب تک بھٹو صاحب کی پھانسی کے صدمے سے نہیں نکل پائی! لہذا ملک و قوم پر رحم فرمائیں۔ اصلی و نقلی مفاہمتی ایلچیوں سے ہوشیار رہیں۔ یعنی اس گلی نہ ہی جائیں تو بہتر ہے۔

تاہم سچ پوچھیں تو سارا قصور ایک دفعہ پھر میاں محمد نواز شریف کا ہے۔ بجلی کی تاروں پر ٹاکی پھیرے بغیر ہی صوبائی و وفاقی حکومت کو بیوقوف بنا کر پردیس اڑ گئے۔ حالانکہ موصوف کو پتہ تھا کہ ٹاکی آپ نے ہی پھیرنی ہے۔ لاہور کو اتنا گندا کر دینے کے بھی میاں صاحب ذمہ دار ہیں۔ دونوں برادران ترکی سے آئے صفائی کرنے والوں کو ٹھیکہ دیتے نہ آج لاہور کا یہ حال ہوتا۔

اندر کی کہانی یہ ہے کہ ایک ترکی ڈرامے کی قسط دو سو پنتیس ہمارے محبوب حکمران کو پسند نہیں آئی۔ موصوف نے کہا بھی کہ یہ قسط دوبارہ بنائی جائے۔ آخر میں بائیس کروڑ پاکستانیوں اور عالم اسلام کا لیڈر ہوں۔ نیز یہ کہ ادارے بھی میرے ساتھ ہیں۔ لیکن بدتمیز ترکوں نے صاف انکار کر دیا۔ اس پر ہمارے جلیل القدر رہنما نے انہیں صاف بتا دیا کہ میں بلیک میل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ مجھے بلیک میل کا مطلب ہی نہیں آتا۔ عظیم لیڈر کے اس بڑے بیان پر پاکستان میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ جبکہ دنیا اس بیان پر انگشت بدنداں ہے۔

میاں صاحب نے پی پی پی کی آخری مرکزی حکومت کی متعینہ مدت پوری کروا نے کے لیے جو زور لگایا تھا اس نے پارٹی کو عوام کے سامنے ننگا کر دیا۔ اس بددلی کا نتیجہ 2013ء کے انتخابات کی صورت میں ظاہر ہوا۔ سندھ کے استثنا کے ساتھ باقی پاکستان میں پی پی پی کا صفایا ہو گیا۔ اس بظاہر سیاسی نتیجے نے باطنی قوتوں کو کافی پریشان کیا۔ 1988ء کے بعد جو نیم جمہوری سیاسی نظام سامنے آیا تھا اس میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار بہرحال باطنی قوتوں کے ہی پاس تھا۔ جن کے اشارے پر سیاسی جماعتیں، ’ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی‘ طرز پر اسلام آباد براجمان ہو جایا کرتی تھیں۔ 88 اور 90 میں جہاں پیپلز پارٹی مخالف دھڑوں کو آشیر واد حاصل تھی، اس کے بعد بی بی شہید زمانہ قبل از پرویزیہ میں، مقتدرہ کے زیادہ قریب تھیں۔ دونوں صورتوں میں اشارہ بزرگوں کا ہی حتمی ہوتا تھا۔ اس خوشگوار توازن کا صفایا 2013 میں ہو گیا۔ بہر حال قصور میاں نواز شریف کا تھا۔

اب مقتدرہ کو ایک ایسے گھوڑے کی تلاش تھی جو گستاخ نواز شریف کے مقابل توازن پیدا کر سکے۔ ایک فرق کے ساتھ۔ ویسے تو اب سارے سیاست دان ہی سرکاری ہاتھوں میں پل کر بڑے ہوئے ہیں لیکن جناب عمران خان سے پہلے اگر کوئی سیاست دان خاکی نرسری میں گملے سے لے کر تناور درخت بننے تک پلا بڑھا ہے تو وہ میاں نواز شریف ہے۔ (عمران خان کو سیاست دان کہنے، لکھنے پر معذرت، لیکن ایسی واردات اور ایسے بندے کے لیے کوئی اور لفظ بھی تو نہیں موجود)۔ اس ہاتھوں کھلائے، یعنی نواز شریف نے، بڑے ہو کر جتنا مایوس کیا ہے اس عمل نے یقیناً مقتدرہ کا دل بھی توڑا ہے۔ دل ٹوٹنے کے باوجود ملک میں اپنی دیوتا سمان حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو کٹھ پتلی تو ہو مگر اس میں جان پڑنے کا کوئی امکان نہ ہو۔

اس دفعہ بھی مقتدرہ نے کوئی کچا کھیل نہیں کھیلا۔ پہلے پانچ سال ایک صوبے میں حکومت دے کر رننگ پوری کروائی گئی ہے کہ کہیں کوئی ایسی ویسی نوازیانہ رمق تو نہیں ہے۔ اس امکان کو تسلی بخش طریقے سے جانچنے کے بعد آخر لایا گیا وہ شاہکار، تھا جس کا انتظار۔ اب یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اس کی کارکردگی بھی اسی معیار کی ہے۔
پیارے بزرگو، اس غیر اخلاقی کہانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مسلم لیگ نون اور پی پی پی کا باہمی گڑبڑ توازن قائم رہتا تو بیچاری مقتدرہ اتنی خوار نہ ہو رہی ہوتی۔ لہذا، سارا قصور میاں نواز شریف کا ہے۔
لیکن کہانیاں وہاں ختم نہیں ہوتیں جہاں ان کا سرکاری اختتام لکھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ جانتے ہیں کہ ’پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘ بیکار اور غلط بیانیہ ہے۔ حالانکہ اگر عمران خان کے بیانات سنے جائیں تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ وجہ یہ کہ ہر کسی کو رات گیارہ بجے کے بعد کی بنی گالا نصیب نہیں ہوتی۔ جہاں نواز شریف اور جناب آصف زرداری صبح تک این آر او مانگتے رہتے ہیں۔ انڈے، مرغیاں اور کٹے دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ بھی زیتون کے سائے تلے۔ بنی گالا سے یاد آیا۔ ہم خود بھی کسی کا نام لینا اور وہ بھی کسی پیشہ ور فوجی کا نام لینا غلط سمجھتے ہیں۔ اس معاملے پر بھی میاں نواز شریف کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ آپس کی لڑائی، آپس میں ہی رکھنی چاہیے۔ آپس کی لڑائی؟ لیکن جنرل قمر باجوہ صاحب اور جنرل فیض صاحب، جب آپ کا چنیدہ لوگوں کے فاقے کرنے پر فرمائے کہ پھر میں کیا کروں اور جب موصوف کو بتایا جائے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور وہ پھر یہی ارشاد فرمائے کہ میں کیا کروں تو آپ خود ہی انصاف سے، حتیٰ کہ نا انصافی سے بھی فیصلہ کریں کہ اس صورت میں عوام کو کیا کرنا چاہیے؟
چند غدار طبیعت، مودی کے یار ٹائپ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی، بلوچستان اور باقی پاکستان میں امن بھی جناب نواز شریف کے زمانے میں ہی ہوتا ہے۔ اور سی پیک سمیت، بھارت اور سنٹرل ایشیا کے ممالک بھی پاکستانی گزرگاہ استعمال کر رہے ہوتے۔ سچی بات ہے، ہم تو یہ سب سن بھی نہیں سکتے۔ درمیانے درجے کے صنعت و حرفت سے تعلق رکھنے والے کاروباری تو خواہ مخواہ ہی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ کیا انہیں کور کمانڈرز کے اجلاس سے زیادہ معیشت اور بین الاقوامی تجارت کا پتہ ہے! ہم تو فخر سے اپنے دوستوں بلکہ کبھی کبھی دشمنوں کو بھی بتاتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ کمان 5.8 فیصد کی رفتار سے بڑھتی ہوئی جی ڈی پی سے مطمئن نہیں تھی۔ وہ منفی یا نصف فیصد کی شرح سے بڑھتی ہوئی معیشت کو کیسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس آئی ایس پی آر یا شیخ رشید کی طرف سے تو اب تک اطلاع نہیں ہے لیکن سنا ہم نے یہ ہے کہ تمام کماندار معیشت کے بارے میں گفتگو پھوڑی پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ یہ بھی وطن سے محبت اورتشویش کے اظہار کا ایک انداز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).