حسن نثار صاحب سے نظام خلافت کے بارے میں چند سوالات


1 0 جنوری 2021 کو مکرم حسن نثار صاحب جیو نیوز کے پروگرام پر ”میرے مطابق“ میں تشریف لائے۔ بات تو یہ شروع ہوئی تھی کہ وزیراعظم نے ہزارہ کے مقتولین کی تعزیت کے لئے جانے میں تاخیر کیوں کی؟ لیکن جلد ہی امریکہ میں کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے پر سوال ہوا اور اس پر حسن نثار صاحب نے جمہوری نظام پر غصہ نکالنا شروع کر دیا۔

لیکن ایسے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں جمہوریت سے زیادہ جمہوری نظام کے حق میں بولنے والوں پر طیش آ رہا تھا۔

انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ان لوگوں کی اچھی طرح خبر لی اور ان کو ”چپڑ قناتیوں“ کا نام دیا۔ اور فرمایا کہ یہ لوگ کچھ پڑھتے تو ہیں نہیں۔ اور فرمایا ”یہ بوتھے اٹھا کر بات کر دیتے ہیں۔ لوگوں کو misguide کرتے ہیں۔ یہاں اس معاشرے میں ایسے intellectual criminals کی کمی نہیں۔ یہ کچھ لوگ ہیں جن کو جمہوریت نے کاٹا ہوا ہے۔ ہم احساس کمتری کے مریض۔ جنہیں میں کہتا ہوں دیسی میمیں اور کالے پیلے صاحب۔“

اس اظہار برہمی پر یہ سوال تو اٹھنا تھا کہ اگر پاکستان کے لئے جمہوریت کا نظام مناسب نہیں تو پھر کون سا نظام یہاں نافذ کیا جائے؟ حسن نثار صاحب نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئیں۔ انہوں نے اس کا جواب پہلے ہی تیار کیا ہوا تھا۔ ویسے آج کل ریڈی میڈ کپڑوں کی طرح ریڈی میڈ جوابات کا بھی فیشن ہے۔ یعنی آپ کو مغز ماری کرنے کی ضرورت نہیں۔ بنے بنائے جواب پروگرام سے پہلے دستیاب ہوتے ہیں۔ مکرم حسن نثار صاحب نے فرمایا:

” ہمارا سیاسی اور مالیاتی نظام بھی غیروں کا۔ مسلمانوں کا نظام ہے خلافت۔ جو کس کے خلاف ہے؟ یہ ملوکیت اور آمریت کے خلاف ہے۔ تین چیزیں ہیں۔ ایک خلافت کا concept ہے۔ دوسرا concept ہے بادشاہت، ملوکیت اور آمریت کا ہے۔ تیسرا ہے مغربی جمہوریت۔ ہمارے یہ چپڑقناتیے۔ یہ مغربی جمہوریت۔ کیا دیا ہے مغربی جمہوریت نے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم سے بعد آزاد ہونے والا چین کہاں کھڑا ہے؟ ہندوستان کو دیا مودی اس جمہوریت نے۔ ان کو دیا ڈونلڈ ٹرمپ۔ خلفاء راشدین compare کر لو۔“

ان ارشادات کا مطلب واضح ہے کہ دنیا میں تین قسم کے نظام موجود ہیں۔ پہلا ملوکیت اور آمریت، دوسرا مغربی جمہوریت اور تیسرا مسلمانوں کا نظام خلافت۔ اور ان کی رائے تھی کہ پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں ”نظام خلافت“ کے علاوہ اور کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اور باقی دنیا میں بھی دوسرے دو نظام ناکام ہو چکے ہیں۔

کامیابی سے چلنے والے ممالک کی مثال کے طور پر انہوں نے خاص طور پر چین کا نام لیا۔ خاکسار حسن نثار صاحب کا ممنون ہے کیونکہ انہیں کے پروگرام سے مجھے یہ علم ہوا کہ چین میں ”نظام خلافت“ قائم ہو چکا ہے۔ تبھی تو وہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ ورنہ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی کہ چین کے لوگ صدر شی جن پنگ کے دست مبارک پر بیعت کر چکے ہیں۔

اگر تو بات صرف کسی شخص یا گروہ کے عقائد کی ہوتی ہے تو اس پر کسی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسماعیلی احباب محترم پرنس کریم آغا خان کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح بوہرہ فرقہ کے احباب محترم مفضل سیف الدین صاحب کو اپنا امام یا داعی مطلق تسلیم کرتے ہیں۔ اور مسیحی دنیا کے ایک ارب سے زیادہ کیتھولک احباب تقدس مآب پوپ فرانسس کو اپنا روحانی لیڈر سمجھتے ہیں۔ ہر گروہ کا اپنا مذہبی عقیدہ ہے ، وہ جس کو چاہے اپنا امام، روحانی پیشوا، خلیفہ، مرشد یا مذہبی لیڈر خیال کرے۔ اس کا ریاست یا نظام حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔

لیکن حسن نثار صاحب یہ نظریہ پیش فرما رہے ہیں کہ پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک کے لئے مغربی جمہوریت کا نظام حکومت مناسب نہیں۔ اس کو ختم کر کے اس کی جگہ حکومت چلانے کے لئے ”نظام خلافت“ قائم کرنا ہو گا۔

چونکہ یہ نظریہ ہمارے تک حسن نثار صاحب کی وساطت سے پہنچا ہے اس لئے ہم ان کی خدمت میں چند سوالات پیش کرنا چاہتے ہیں۔

جب یہ بات کی جاتی ہے کہ ملک کو ”نظام خلافت“ کے تحت چلانا چاہیے تو اس میں خود بخود ایک مذہبی رنگ آ جاتا ہے۔ ایسا شخص جو بطور خلیفہ کے ملک کو چلائے گا وہ صرف دنیاوی سربراہ نہیں ہو گا بلکہ لازمی طور پر اس کو ایک مذہبی سربراہ اور روحانی قائد کی حیثیت بھی حاصل ہو گی۔ ورنہ وہ شخص ”خلیفہ“ نہیں کہلا سکتا۔ اب یہ شخص ایک وقت میں کسی ایک مسلک سے ہی تعلق رکھ سکتا ہے اور صرف پاکستان میں ہی بہت سے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ آباد ہیں۔

اگر یہ خلیفہ سنی مسلک سے تعلق رکھے گا تو کیا شیعہ احباب باوجود مسلک کے اختلاف کے اسے اپنا مذہبی اور روحانی قائد تسلیم کر لیں گے۔ اگر یہ خلیفہ شیعہ ہو گا تو کیا سنی احباب اسے اپنا مذہبی رہنما یا امیر المومنین تسلیم کر لیں گے۔ اگر یہ روحانی سربراہ دیوبندی خیالات کا ہو گا تو کیا بریلوی خیالات کے احباب اسے اپنا مذہبی رہنما مان لیں گے؟

میں اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک اور سوال پیش کرتا ہوں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ملک کی حکومت ایک مذہبی خلیفہ کے ہاتھ میں دے دی جائے تو ظاہر کہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک خلیفہ پاکستان کا ہو، دوسرا خلیفہ افغانستان کا، تیسرا بنگلہ دیش کا اور چوتھا سعودی عرب کا۔ اور جتنے مسلمان ممالک ہوں اتنے ہی خلفاء ہوں۔ ظاہر ہے پھر تمام مسلمان ممالک کو مل کر ایک خلیفہ مقرر کرنا پڑے گا۔

اور خلیفہ تو ہوتا ہی وہ ہے جس کی اطاعت فرض ہو۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر ملیشیا کا ایک خلیفہ مقرر ہو جائے تو تمام مسلمان ممالک کی حکومتیں اور قانون ساز اسمبلیاں اس کی ماتحت ہوں گی۔ اور اگر وہ ان کے فیصلوں کو منسوخ کر دے تو انہیں اپنی بیعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اطاعت کرنی پڑے گی۔ حکومتی معاملات میں سعودی بادشاہ کو بھی اس کی اطاعت کرنی ہو گی اور عرب امارات کے فرماں رواؤں کو بھی اس کا حکم ماننا ہو گا۔ کیا یہ سب اس کے لئے تیار ہو جائیں گے؟

اگر خلافت سے مراد ایسی خلافت ہے جو کہ مغربی طرز حکومت کو ختم کر کے حکومت چلانے کے لئے نافذ کی جائے اور یہ خلافت عالمی ہو تو پھر تمام مسلمان ممالک میں صدور، وزراء اعظم اور بادشاہوں کی حیثیت صرف گورنروں کی طرح کی ہو گی۔ اور اگر یہ خلیفہ انہیں معزول کر دے تو اطاعت کا یہ تقاضا ہو گا کہ یہ خاموشی سے گھر چلے جائیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ حسن نثار صاحب نے بنیادی معلومات حاصل کیے بغیر اس پروگرام میں اس نازک موضوع پر اظہار خیال شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ جوش میں یہ بھی کہہ گئے کہ خلیفہ اپنے سے اگلے خلیفہ کو مقرر نہیں کر سکتا۔ اور یہ دلیل بھی پیش کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خود اگلا خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اگلا خلیفہ مقرر کیا تھا۔[تاریخ طبری جلد دوئم حصہ دوئم ص 610 ]۔

اگر اب پاکستان میں ایسا نظام خلافت قائم کیا جائے تو ملک کی حکومت کا نظم و نسق بھی چلا رہا ہو تو پھر یہی اختیارات اب بھی حاصل ہوں گے۔ اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب تمام مسلمان ممالک پر حکومت کرنے کے لئے ایک خلیفہ منتخب ہو گا تو یہ سب ممالک اسے کس طرح مقرر کریں گے۔ کیا عام انتخابات ہوں گے یا یہ فریضہ چند خواص ادا کریں گے۔

حسن نثار صاحب نے ایک انقلابی تجویز دی ہے اور اس پر عمل کرنے سے پہلے عملی طور پر تمام مسلمان ممالک کے دستور یا تو ختم کرنے پڑیں گے یا ان میں بنیادی قسم کی تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم از کم ان ابتدائی سوالات کے جوابات عنایت فرما دیں تاکہ مزید سوالات ان کی خدمت میں پیش کیے جا سکیں۔ مجھے امید ہے کہ ”ہم سب“ کے مدیران ان کے جوابات کو ضرور شائع کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).