چین میں 8 ماہ بعد کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت



چین میں آٹھ ماہ بعد جمعرات کو کرونا وائرس کا ایک مریض ہلاک ہو گیا ہے۔ مرنے والے سے متعلق تفصیلات نہیں بتائی گئیں البتہ صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ صوبہ ہیبی میں پیش آیا ہے۔

چین میں گزشتہ سال مئی کے بعد سے کرونا وائرس سے ایک بھی ہلاکت سامنے نہیں آئی تھی۔ لیکن حکام کی جانب سے جمعرات کو ایک مریض کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

کرونا سے ہلاکت کی اطلاع ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی ادارۂ صحت کی 10 رکنی ٹیم کرونا وائرس کی جنم بھومی کی تحقیقات کے لیے ووہان پہنچی ہے۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے مطابق جمعرات کو مزید 138 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

چین میں کرونا سے متعلق رپورٹنگ پر سٹیزن جرنلسٹ کو چار سال قید

حالیہ چند ہفتوں کے دوران چین میں رپورٹ ہونے والے یومیہ کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جمعرات کو رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد گزشتہ سال مارچ کے بعد ایک روز میں سامنے آنے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔

حکومت نے صوبے ہیبی کے متعدد شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ کیا ہوا ہے جب کہ ملک کے شمالی حصے میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور تقریباً دو کروڑ افراد گھروں تک محدود ہیں۔

گزشتہ ہفتے حکام نے بڑے پیمانے پر کرونا وائرس ٹیسٹ مہم شروع کی تھی اور ہیبی کے دارالحکومت آنے اور جانے والے ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کر دی تھی جب کہ اسکولوں اور دکانوں کو بھی بند کرا دیا تھا۔

ووہان میں زندگی بحال، 'اب کوئی خوف نہیں ہے'

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ہیبی کووڈ-19 کا نیا گڑھ بنتا جا رہا ہے جب کہ 70 لاکھ آبادی والے اس کے پڑوسی شہر ژنگ ٹال میں گزشتہ جمعے سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔

متاثرین کی تعداد پر قابو پانے کے تناظر میں شمال مشرقی شہر ہیلیونگ جیانگ نے بھی بدھ کو ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے تین کروڑ 75 لاکھ شہریوں سے کہا ہے کہ وہ صوبے سے باہر ہر گز نہ جائیں اور تمام عوامی اجتماعات منسوخ کر دیے جائیں۔

یاد رہے کہ 2019 میں کرونا وائرس کا پہلا کیس ووہاں میں سامنے آیا تھا۔ عالمی ادارۂ صحت کی تحقیقاتی ٹیم کی چین آمد کا مقصد وبائی مرض سے متعلق حساس معلومات اکٹھی کرنا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پیٹر بین ایمبارک کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کام کا آغاز کرنے سے قبل دو ہفتے تک قرنطینہ میں رہے گی. اس کے بعد مختلف مقامات کا دورہ کرے گی۔ اس موقع پر چینی ہم منصب بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa