مار بچوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟


انسان کو اللہ نے احساسات اور جذبات معمور وجود دیا ہے ۔ خوشی، غمی، غصہ، چڑچڑاپن سب کچھ اس میں فطری طور پر موجود ہے۔ غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ انسان غصہ میں وہ سب کہہ اور کر جاتا ہے جو وہ عام حالات میں اور نارمل موڈ میں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اولاد کی تربیت کی ذمہ داری گو کہ دونوں والدین پر ایک سی عائد ہوتی ہے مگر ہمارے معاشرے میں یہ ذمہ داری والدہ پر زیادہ عائد ہوجاتی ہے۔

مائیں اولاد سے کتنی بھی محبت کیوں نہ کرتی ہوں مگر کبھی کبھار ان کے اردگرد کا ماحول یا پھر زندگی کی کچھ پریشانیاں انہیں بھی تنگ کر دیتی ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا غصہ بچوں پر اتار دیتی ہیں ، کبھی زبانی کلامی اور کبھی تو ان کا ہاتھ بھی اٹھ جاتا ہے۔

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ماں ہوتے ہوئے آپ کو صبر و ہمت، برداشت اور استقلال کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ آپ کا وہ رویہ کئی سالوں کا فیصلہ منٹوں میں کر دیتا ہے ، وہ بچے جنہیں بات بات پر ڈانٹا جاتا ہے یا برا بھلا کہا جاتا ہے ، ان میں ڈر اور خوف بیٹھ جاتا ہے ، وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں یوں محسوس ہونے لگتا ہے گویا وہ بہت برے ہیں اور ان سے کوئی محبت نہیں کرتا اور اسی کشمکش میں انہیں اگر کہیں سے محبت مل جاتی ہے تو وہ وہیں کے ہو جاتے ہیں اور ایسے میں وہ غلط لوگوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔

جن بچوں کو زبانی برا بھلا کہا جاتا ہے ، شاید وہاں تو نقصان سو فیصد نہیں پچاس فیصد ہو مگر جہاں چہرے، سر، گردن پر ہاتھ اٹھانے والا معاملہ ہو وہاں پر آپ خود اپنے بچے کو اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں جہاں پہنچانا کبھی بھی آپ کی خواہش نہیں ہوتی ، چہرے، سر اور گردن پر ( (neurocells موجود ہوتے ہیں جن کا تعلق براہ راست دماغی صلاحیت اور قوت سے ہوتا ہے۔

جب بچوں کو چہرے اور سر پر مارا جاتا ہے تو اس سے وہاں موجود (neuro cells)کا خاتمہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی دماغی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے کہ کسی کے مارنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے محسوس کرنے کی حس ہی ماؤف ہو چکی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے سیکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

جب سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے تو یہ ان کے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانے کا سبب بنتی ہے۔  جب وہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ افسوس والدین اور خصوصا ماؤں کو ہوتا ہے اور ایسے میں بھی وہ بچوں کو ہی ڈانٹ رہی ہوتی ہے یعنی نقصان در نقصان،  جس بچے کی ذہانت شاید ابتدائی مار پیٹ سے دس سے بیس فیصد تک متاثر ہوئی ہو ، وہ آگے رواں رکھنے والے رویے سے اور متاثر ہو جاتا ہے۔

اس لیے بہترین حل تو یہی ہے کہ جب بچہ بے جہ ضد کرے تو اسے سمجھانے، غصہ کرنے یا پھر، مارنے کے بجائے اسے چھوڑ دیا جائے اور نظر انداز کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ وہ بچہ خود ہی تھوڑی دیر بعد آپ کے پاس موجود ہو گا اور صرف وہی بات کرے گا جو درست اور صحیح ہو گی۔

اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے ، نہ آپ کا غصہ کرنے سے آپ کا حسن متاثر ہو گا اور نہ ہی وہ بچہ مار کھا کر آگے دوسروں پر ہاتھ اٹھانا اپنا فرض سمجھے گا بلکہ اس کی دماغی صلاحیتیں بھی متاثر نہیں ہوں گی ، اس لیے جو چیز اور رویہ آپ کی اولاد کے لیے نقصان کا باعث ہے اسے چھوڑ دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).