کیا بیٹیاں ناقابل برداشت بوجھ ہیں؟


اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اس سے اس کی زوجہ کو پیدا کیا، اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں خواتین کو پھیلا دیا (القرآن) ۔

دین اسلام  نے تخلیق کے اعتبار سے مرد و خواتین کو ایک جیسا مقام عطا فرمایا ہے۔  معاشرتی برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہی ہے۔ عورت کو ہمیشہ سے مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ مرد خود کو طاقتور تصور کرتا ہے۔

خواتین پر تشدد کی وجوہات میں تعلیم کی کمی،  حقوق سے ناواقفیت ،  بے جا پابندی اور  اسلام سے دوری ہے۔  شادی کے بعد عورت سے سب سے پہلے اولاد کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اگر بیٹا ہوا تو خوشیاں، بیٹی پیدا ہوئی تو طعنہ اور اولاد نہ ہوئی تو بانجھ ہونے کی سند دے دی جاتی ہے۔ لڑکیوں پر ظلم کی داستان آج کی نہیں بلکہ یونانی تہذیب نے عورت کو ناپاک اور شیطان کہا،  رومیوں نے انسانوں سے کم تر مخلوق جانا ، یہودیوں نے ناقص العقل سمجھا۔  مشرق نے نجس و حقیر کہا ، ایرانیوں نے فتنہ و فساد کی جڑ قرار دیا جب کہ جاپانی اور چینی اسے ناقابل اعتبار سمجھتے رہے۔

ہندو ازم میں عورت کو ستی کے نام پر شوہر کی چتا کے ساتھ نذر آتش کیے جانے کا گھناؤنا فعل انجام دیا جاتا رہا ، قبل از اسلام عرب معاشرے میں منحوس قرار دے کر زندہ درگور کی جاتی رہی۔ آج کے اس تہذیب یافتہ دور میں بھی امریکا و یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشرے نے عورت کو ایک نمائشی شے اور عیش و عشرت کا سامان بنا کر اس کی تذلیل و تشہیر کرتے ہوئے اشتہارات میں مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ بناکے رکھ دیا ہے۔

کرۂ ارض پر اسلام کا سورج طلوع ہونے سے قبل عورتوں پر ظلم و بربریت کی داستانیں عام تھیں،  عدل و انصاف کی روح تقریباً عنقاء ہو چکی تھی۔ عورت کی حیثیت مرد کے پاؤں کی جوتی سے بھی کم تر تھی۔ بچیوں کو زندہ درگور کر دینا تو ایک عام سی بات تھی۔ تذلیل نسوانیت عروج پر تھی۔ ”صحیح بخاری“ میں حضرت عمر فاروقؓ کا فرمان ہے کہ ”عہد جہالت میں عورتوں کو بالکل ہیچ سمجھا جاتا تھا لیکن طلوع اسلام کے بعد اللہ نے ان کے متعلق آیات نازل کیں تو ان کی قدر و منزلت معلوم ہوئی۔“ (صحیح بخاری)

قرآن کریم میں اللہ پاک عورت و مرد دونوں کا یکساں تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ”اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔“ (الحجرات 13 : 49 )

سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے عورتوں کو عزت و احترام کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچایا کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ احکامات باری تعالیٰ اور احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں امہات المومنینؓ‘ بنات رسول اللہ ﷺ اور صحابیاتؓ کی زندگی کے شب و روز رہتی دنیا تک کی خواتین کے لیے بہترین عملی نمونہ قرار پائے۔ طلوع اسلام سے قبل دنیا کی طویل تاریخ عورتوں کے ساتھ مثبت کردار و عمل کے ذکر سے خالی ہے۔

طلوع اسلام کے بعد عطا کردہ حقوق کے سبب دنیا کی ان مظلوم و لاچار عورتوں نے علم و عمل کے میدانوں میں حیرت انگیز کارنامے انجام دے کر عقل کو دنگ کر دیا۔ اسلامی تعلیمات سے حاصل کردہ شعور و آگاہی اور فکر و نظر کی وسعت کے سبب اپنے عزم و استقلال، علم و دانش ، فہم و فراست اور ایثار و قربانی سے وہ عظیم الشان داستانیں رقم کیں کہ جو تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف سے تحریر ہیں۔ان بہادر اور جری خواتین نے شریعت اسلامی کے زیر سایہ وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ انہیں دیکھ اور سن کر کرۂ ارض کے بڑے بڑے بہادر انگشت بدنداں رہ گئے

تاریخ گواہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی صداقت کی گواہی دینے والی اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ایک خاتون ہی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سب سے پہلے جام شہادت نوش کرنے والی حضرت سمیہؓ (حضرت عمار ؓ کی والدہ) بھی ایک خاتون تھیں۔ اسی طرح بے شمار مسلمان خواتین کے مختلف اوقات میں بری اور بحری جنگوں میں شرکت کے واقعات بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ یعنی جنگ کے میدان میں زخمیوں کی خدمت و تیمارداری ہو ، طب و جراحت،  درس و تدریس یا علمیت و خطابت کا میدان ، صنعت و حرفت،  تجارت و زراعت ، تعلیم و تربیت ہو یا وعظ و تقریر،  عدل و انصاف کا معاملہ ، ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات، سیاسی مشورے ہوں یا حکومتی معاملات، اصلاح معاشرہ اور عزیز و اقارب سے تعلقات ، پڑوسیوں کے حقوق،  خانگی معاملات ، معاشرتی تنازعات، فقہی مسائل ہوں یا دینی معاملات ، غرض یہ کہ زندگی کا وہ کون سا پہلو ہے  جس میں قرون اولیٰ کی ان مسلم خواتین نے عظیم الشان کارہائے نمایاں انجام نہیں دیے۔

یقیناً امت مسلمہ کی ان عظیم خواتین کے یہ عملی اقدامات آج کی خواتین کے لیے راہ ہدایت بھی ہیں اور باعث نجات بھی۔ اسلام نے عورت کا تعین چار معزز رشتوں میں کیا۔ ماں،  بیوی ،بیٹی اور بہن۔ عورت کو جب ماں کے مقام و مرتبے پر پہنچایا تو اس کے قدموں تلے جنت رکھ کر اسے تقدس و تکریم کی معراج عطا کر دی۔ جب بیوی کا درجہ دیا تو آئینہ و آبگینہ قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ حسن سلوک کو تقویٰ کا جزو لازم قرار دیا اور گھر کی محافظ و ملکہ بنا دیا۔ جب بیٹی کا درجہ دیا تو اس کی پرورش ، تربیت اور اس سے محبت کو جنت کے حصول کا ذریعہ کہا اور جب بہن کا درجہ دیا تو وہ باپ ، بھائیوں کی دوست، مونس ، غم خوار اور مان قرار پائی۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ”زمانۂ جہالت میں جو کچھ ہوا، اللہ نے اسے معاف کر دیا۔“ اسلام نے بیٹیوں کے قتل کے اس جاہلانہ اور ظالمانہ اقدام کو نہایت نفرت انگیز جرم قرار دیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔“ (سورۃ التکویر 8,9 : 81 )

شریعت اسلامی عورت پر اپنے والدین، شوہر یا سرپرست کی اجازت سے گھر سے باہر نکل کر کمانے یا گھر ہی میں کوئی پیشہ اختیار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔ اگر کوئی عورت اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمت ، تجارت کرتی ہے، یا کسی صنعت و حرفت سے وابستہ ہے تو اسے ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔

دنیا کی نصف آبادی ہونے کے ناتے خواتین کو بھی آزادی سے جینے کا مساوی حق حاصل ہونا چاہیے ۔ آج بیٹیاں ماں باپ، بھائیوں کے ہاتھوں مظلوم بن چکیں ، وہ حقوق جو شریعت نے دیے، وہ روشن خیالی کے ہاتھوں ختم ہوئے۔ جو حق وراثت اللہ نے دیا وہ غیرت کی چکی نیچے پس کر رہ گیا۔ اپنے ہی خونی رشتوں کی ہر طرح سے خدمت، برتن دھونے، جوتیاں سنوارنے ، پالش کرنے کے باوجود بھی مجرم ٹھہریں! ہماری تہذیب کا ہمارے ہی ہاتھوں جنازہ اٹھ چکا۔ ہم خود ہی وہ وقت لا چکے ہیں کہ اب بیٹیاں رحمت خدا نہیں۔ ناقابل برداشت بوجھ بن چکی۔ ان کے حقوق ہم نے سلب کیے ،عزت روشن خیالی نے سلب کر لی۔ بیٹیاں والدین، بھائیوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).