خدارا اب مجھے مرنے دو: بھٹو کی دہائی


کل میں اپنے تخیل کے گھوڑے پر سوار دنیا کا چکر لگا رہا تھا اور گھوڑے نے اپنی منہ زوری پر سندھ کا رخ کر لیا۔ گڑھی خدابخش پہنچ کے گھوڑا ایک دم رک گیا۔ میں  نے بہتیری کوشش کی، چابک ماری مگر گھوڑا ایک قدم نہ ہلا۔ ”ہر چیز اپنی مرضی سے چلتی ہے اگر کسی کے ساتھ زبردستی کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے“ ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پاکستان کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب تشریف لا رہے تھے۔

کیا آپ مجھ سے مخاطب ہیں میں نے پوچھا۔ ہاں ہاں بچے میں تمہی سے بات کر رہا ہوں۔ قریب آنے پر میں نے بھٹو صاحب کو غور سے دیکھا ان کی آنکھوں میں کئی سالوں کی خماری تھی ، نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کئی دہائیوں سے نہیں سوئے۔

اسلام علیکم! میں نے گھوڑے سے اترتے ہوئے انہیں سلام کہا۔ سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ میرے قریب ہی کھڑے ہو گئے۔ میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا بھٹو صاحب! آپ کی آنکھ بھاری بھاری ہے، رات کس شغل میں گزاری ہے۔ روہانسی آواز میں کہنے لگے شغل کہاں یار ، کتنے ہی برس ہو گئے اپنے دشمنوں سے جان چھڑا کے آیا تھا۔ مگر میرے جیالوں نے آج تک مجھے سکون سے مرنے نہیں دیا۔

کیوں خفا ہوتے ہو بھٹو صاحب! لوگ آج بھی آپ سے محبت کرتے ہیں۔آپ کے نام کے نعرے گونجتے ہیں فضاؤں میں۔

یہی تو مسئلہ ہے۔ بہادر شاہ ظفر اپنے خاندانی سلطنت گنواتے گنواتے جب بالکل ہاتھ دھو بیٹھا تو برما کے شہر رنگون کے ایک قید خانے میں بقیہ عمر گزارنے کے بعد اپنے مزار میں پاؤں پھیلا کر سو گیا۔ مگر، مگر میں آج تک سکون سے سو نہیں پایا ہوں۔ اب تو اتنی خماری ہے کہ چلتے ہوئے میرے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔

بھٹوصاحب کہیں آپ ”ٹن“ تو نہیں ہیں۔ بدتمیز میں نیند کی بات کر رہا ہوں۔ یہ ’تم پیو ہزاروں سال، تم جیو ہزاروں سال‘ کے نعرے لگانے والی قوم کی مہربانی ہے کہ آج تک مجھے سکون سے سونے نہیں دیا۔ادھر بندے کو اونگھ آنے لگتی ہے کہ ادھر سے کانوں میں پھر کسی ستم ظریف کی آواز آتی ہے ”جئے بھٹو“ ۔ ”کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے“ ۔ چڑ ہو گئی ہے مجھے اس نعرے سے۔ خدارا اب مجھے مرنے دو۔

بھٹوصاحب چلنے لگے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ ابھی تو کتنی ہی باتیں ہیں جو بھٹو صاحب سے کرنی ہیں۔ کتنے ہی سوالوں کے جواب معلوم کرنے ہیں۔ بھٹو صاحب! بھٹو صاحب! ذرا رکیے تو آپ سے کچھ اور باتیں کرنی ہیں۔ نہیں اب مجھے نیند آئی ہے میں اپنی قبر میں جا رہا ہوں۔

بھٹو جانی یار! سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے آپ کی قبر میں جا کے اور کوئی نہیں لیٹے گا لیکن میری بات تو سنو۔ لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے چلتے رہے۔ میں نے کہا بھٹو صاحب! یہ بات نہ سننے والی یہ بات نہ کرنے والی تو وہی بات ہوئی جو 1971 میں ہوئی تھی۔

میرا تیر نشانے پر لگا،  بھٹو صاحب پلٹے اور بولے تم بھی مجھے ہی سانحہ 1971 کا ذمہ دار سمجھتے ہو۔ مجھے لگتا ہے آپ اکیلے ذمہ دار نہیں تھے۔ بھٹو صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے سمجھدار لگتے ہو۔ میں ہنسا تو مجھے گھورتے ہوئے بولے اتنی سمجھداری اچھی نہیں ہوتی۔ بھٹو صاحب مڑے اور تیز تیز قدموں سے چلنے لگے۔ بھٹو صاحب وہ 1965 کی جنگ کیوں لگی تھی۔

میں جا رہا ہوں۔
بھٹو صاحب! کیا وہ آپ کی سازش۔۔۔ میری بات ابھی پوری ہی نہیں ہوئی تھی کہ بھٹو دفعتاً مڑے اور غصے سے کہا۔
منہ بند رکھو اپنا۔

میں خاموش ہو گیا اور سرجھکا لیا۔

اچھا ، بولو کیا بات ہے؟ بھٹو صاحب نے پیار سے پوچھا۔ میں نے پہلے والی بات چھیڑنی مناسب نہ سمجھی بلکہ پوچھا بھٹو صاحب! آپ نے تاریخ کا بہت مطالعہ کیا ہے۔ کوئی سبق جو آپ نے سیکھا ہو؟

بیٹا! تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا ۔ کیا مطلب بھٹو صاحب؟ میں نے معصومانہ سوال کیا۔ یہ اپنے محبوب وزیراعظم نواز شریف کو دیکھ لو۔ میں نے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا اور اس نے مجھے دار پر لٹکایا۔ نواز شریف نے مشرف کو آرمی چیف بنایا اور مشرف نے اس کا تخت الٹایا۔ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ بھٹو صاحب ضیاء کے بارے میں کیا کہتے ہو کچھ حال معلوم ہے اس کا۔ میرے سامنے اس کا ذکر مت کرو ، مجھ سے کچھ اچھا حال نہیں ہے اس کا۔

اب تو مشرف کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ہے معلوم ہے کچھ؟ معلوم ہے ، معلوم ہے ہم کو لیکن یہ کیس ابھی چلے گا۔ بھٹوصاحب کیا مشرف کو سزا ہو گی؟سزا ہو یا نہ ہو زندہ وہ بھی نہیں رہے گا۔ موت تو بہرحال اسے بھی آئے گی۔

آپ مشرف کو کیا مشورہ دیں گے؟

میں تو یہ کہوں گا کہ مشرف کو فیصلہ قبول کرنا چاہیے ، میں نے تو سنا تھا وہ بہت بہادر ہے مگر اب کیوں ڈر رہا ہے۔

سر! اس کے حامی کہتے ہیں کہ اسے سزا غلط سنائی گئی ہے۔
جو بے گناہ مارے جاتے ہیں وہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے پھر پتے کی بات کہی۔
”جیسے آپ”،  میں نے کہا
چپ رہو تم۔
بھٹو صاحب گویا ہوئے فوج پاکستان کا سب سے بہتر، منظم اور مضبوط ادارہ ہے لیکن صرف ایک مسئلہ ہے۔
وہ کیا سر؟

وہ یہ کہ فوج سمجھتی ہے کہ صرف ہم ہی اس ملک کے خیر خواہ ہیں۔ بھٹو صاحب لیکن فوج نے کتنی قربانیاں دے کر دہشت گردی کو ختم کیا ہے؟ جب بندہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی گھر کو آگ لگا بیٹھے تو پھر بجھانی تو پڑتی ہے۔
بھٹو صاحب زیادہ ہو رہا ہے۔
کیا میری باتیں۔
نہیں میرا کالم۔
بھٹو صاحب! اور نواز شریف کا کیا بنے گا؟
نواز شریف کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو کچے گھڑے پر دریا پار کرنا چاہتا ہو۔

دریا پار یہ سوچ کے چل
گھڑے بدل بھی جاتے ہیں
پروین شاکر

اور زرداری۔۔۔؟
ہاہاہا زرداری چکنی مچھلی کی طرح ہے وہ ہاتھوں سے نکل جائے گا۔
اور بلاول؟
بلاول میرا مان ہے ، بلاول اپنی ماں کا ناز ہے لیکن ابھی وہ بہت پیچھے کھڑا ہے۔
اگر بلاول پیچھے ہے تو آگے کون ہے؟بھٹو صاحب نے زرداری کی طرح دانت نکال دیے۔
اور بے نظیر کا قاتل کون؟
اس سے خود پوچھ لینا کبھی۔
اور عمران خان؟
عمران، عمران تاریخ میں زندہ رہے گا۔
کیا آپ کی طرح؟
شاید۔
اور عوام؟
عوام مر جائیں گے۔
خداحافظ!

بھٹو صاحب نے ہاتھ ملایا اور غائب ہو گئے۔

نوٹ: یہ کالم پرویز مشرف کو خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد لکھا گیا۔ مگر بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).