سلامتی کونسل کی تین کمیٹیوں کی سربراہی انڈیا کے پاس، پاکستان کے لیے اس کا مطلب کیا ہو گا؟


سلامتی کونسل
حال ہی میں انڈیا کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں تین مختلف کمیٹیوں کی دو سال کے لیے سربراہی کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ ان کمیٹیوں میں طالبان سینکشن کمیٹی، کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی اور لیبیا سینکشن کمیٹی شامل ہیں۔

انڈیا کی ان تین کمیٹیوں کی سربراہی کو کیا پاکستان ایک بڑی پیش رفت کے طور پر تشویش کے ساتھ دیکھ رہا ہے؟

مبصرین کے مطابق پاکستان کی تشویش کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جہاں ایک طرف انڈیا کو پاکستان کا حریف سمجھا جاتا ہے وہیں آنے والے دنوں میں چند ایسے معاشی معاملات بھی آنے والے ہیں جن میں پاکستان کا خیال ہے کہ انڈیا اس کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

سفارتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ کاؤنٹر ٹیررازم یعنی انسدادِ دہشتگردی اور طالبان سینکشن کمیٹی وہ دو شعبے ہیں جن کے تحت انڈیا پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر مزید پابندیاں لگوا سکتا ہے۔

طالبان سینکشن کمیٹی کیا کام کرتی ہے؟

طالبان سینکشن کمیٹی ان ممالک کی فہرست بناتی ہے جو طالبان کی مالی معاونت کرتے ہوں یا پھر کسی اور طرح ان کے ساتھ شریک ہوں۔

اس کی بنیاد پر پوری دنیا کے 180 سے زیادہ ممالک اپنے قوانین میں ترامیم کرتے ہیں اور ان افراد کے ناموں کو کالعدم تنظیموں اور افراد کی فہرست کا حصہ بنا دیتے ہیں، جس کے بعد ان پر منی لانڈرنگ اور مالی معاونت پر بننے والے قوانین کا اطلاق ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کا منتخب ہونا کتنی بڑی بات ہے؟

’افغان سوچتے ہیں کہ پاکستان طالبان کو چابی دے کر چلا رہا ہے لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے‘

پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے مزید کیا کرنا ہوگا؟

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے بی بی سی کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی ان کمیٹیوں کے معاملات مستند طریقے سے چلتے ہیں اور ان کا اطلاق یہ کرواتے آ رہے ہیں۔

‘بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض کمیٹی ہیں لیکن یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی شِق 7 کے تحت بنی ہوئی کمیٹیاں ہیں۔ اور بہت فعال ہیں۔ اور ان کے معاملات خاصے مستند طریقے سے چلتے ہیں۔ ہر کمیٹی کی اضافی 15 سے 20 قراردادیں ہیں جو ان کے دائرہ کار اور مینڈیٹ کا خیال کرتی ہیں۔’

پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

اس وقت پاکستان کو دو سے تین معاملات کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف کا آنے والا ورچوئل اجلاس ہے۔

اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو اکتوبر 2020 میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 میں سے 21 سفارشات مکمل کر لی تھیں۔ لیکن رہ جانے والی چھ سفارشات کو ایف اے ٹی ایف نے خاصا اہم قرار دیا ہے، اور اس کی ڈیڈ لائن فروری 2021 میں مکمل ہوگی۔

اس کے بارے میں پاکستان کے سفارتی حلقوں میں ایک خیال یہ ہے کہ انڈیا اپنا زور لگا کر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے، جبکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے میں ناکام ہونے پر انڈیا پاکستان کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈنگ بھی رکوا سکتا ہے۔

دوسری جانب افغان امن عمل ہے۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات مشاہد حسین سید نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے، کیونکہ طالبان سینکشن کمیٹی جس کا افغانستان سے تعلق ہے اور کاؤنٹر ٹیررزم کمیٹی جس کی انڈیا 2022 میں سربراہی کرے گا، یہ دونوں پاکستان کے بنیادی مفادات ہیں۔ ان دونوں مسائل پر انڈیا پاکستان کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اب افغان امن عمل میں انڈیا کو پیچھے کے دروازے سے شمولیت کا موقع مل گیا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان نے ایک طرف امریکہ اور طالبان کے درمیان اور دوسری جانب افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان بنیادی مفادات کو انڈیا نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے۔’

احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ اس پیشرفت کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں دیکھیں تو دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ ایسا کرنے کے پیچھے ایک قانونی وجہ ہے۔ جب آپ بطورِ ملک انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کی سربراہی کرتے ہیں، تو آپ اقوامِ متحدہ کے قانونی ڈھانچے کے تحت کام کرتے ہیں نا کہ بطورِ ملک کوئی اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ اس کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں، پھر تو آپ پر بڑی ذمہ داری ہے۔’

انھوں نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ایک طرف یہ قانون کسی ملک کو کسی حملے کی صورت میں اپنا دفاع کرنے کا حق دیتا ہے، وہیں دوسری جانب کوئی بھی ملک اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے کسی پڑوسی ملک کے خلاف یکطرفہ اقدام نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے انڈیا کی ذمہ داری پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنا مفاد دیکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف ازخود کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتا۔

‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ سی ٹی سی یعنی کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی اور طالبان سینکشن کمیٹی کے سربراہ ہیں تو آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افغانستان کے معاملات میں آپ کا کردار مداخلت میں نا تبدیل ہو جائے۔ آپ کو مدد کرنی ہے لیکن آپ غیر قانونی مداخلت نہیں کر سکتے۔ انڈیا نے اس کمیٹی کی سربراہی کا بیڑا اٹھا کر خود پر زیادہ بڑی ذمہ داری ڈال لی ہے۔’

انڈیا کے مفادات کیا ہیں؟

انڈیا کے مفادات پر بات کرتے ہوئے دی ہندو اخبار کی سفارتی امور کی ایڈیٹر سہاسنی حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کا ایک عنصر افغان امن عمل پر نظر رکھنا ہے۔

‘اسی لیے اس اہم عہدے پر فائز ہونا انڈیا کے لیے بہت ضروری تھا۔ طالبان کی مدد کرنے والی تنظیموں کی فہرست سے بے دخلی اسی کمیٹی کے ذریعے ہو گی جس کے نتیجے میں انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر آواز ملے گی کہ کس کو فہرست سے نکالنا ہے، کس کو بلاک کرنا ہے اور کس کو غیر فعال کرنا ہے۔ اور وہ اپنا بیانیہ بھی سامنے رکھ سکے گا۔’

انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کے بارے میں سہاسنی حیدر نے کہا کہ ‘سی ٹی سی اس وقت انڈیا کے بین الاقوامی ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ انڈیا کے لیے یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ انڈیا بارہا یہ کہتا رہا ہے اور اقوامِ متحدہ بھی یہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے۔ تو ان کمیٹیوں میں شامل ہونے سے انڈیا کو اپنے دیرینہ بیانیے کو استعمال کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کو اقدامات اٹھانے پر مجبور بھی کر سکتا ہے۔’

ان کے مطابق ان دو برسوں میں انڈیا ان باتوں پر ضرور پیش قدمی کرنا چاہے گا۔

انھوں نے کہا کہ سنہ 1996 میں انڈیا نے سی سی آئی ٹی یعنی کومپری ہینسو کنوینشن آن انٹرنیشنل ٹیرر کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت اور دہشت گردی کی روک تھام پر مفصل بات کرنے کی کوشش کی تھی، اور اُن کے مطابق اب ایک بار پھر وہ اس کا اطلاق کروانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

طالبان کمیٹی پر انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے غیر مستقل ارکان ان کمیٹیوں کی سربراہی کرتے آ رہے ہیں، لیکن سیکیورٹی کونسل بھی اکثر ان ممالک کا انتخاب کرتی ہے جو آپس میں پڑوسی نہ ہوں، اور اکثر خطے کے باہر ممالک کو سربراہی کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، جیسے کہ انڈیا کو لیبیا سینکشن کمیٹی کا سربراہ منتخب کرنا اس کی ایک مثال ہے۔

‘لیکن اب جبکہ انڈیا کو طالبان سینکشن کمیٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ باقی پانچ مستقل ممالک نے پڑوسی نہ ہونے والی شرط کی مخالفت کی ہو گی، جس کے نتیجے میں انڈیا کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے اور جو انڈیا کی حکومت کے لیے بہت اہم بات ہے۔’

سفارتی سطح پر پاکستان کیا کر سکتا ہے؟

ماہرین اور سیاستدان اس کا حل سفارتکاری کے ساتھ ساتھ پارلیمانی ڈپلومیسی کو بتاتے ہیں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس کئی راستے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی طور پر اور خطے میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ ‘چین اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ اور اس کونسل میں ہمارے بیانیے کی شمولیت چین کی ذریعے ہو سکتی ہے۔ امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی آنے والی حکومت سے اچھے مراسم اور بات چیت پاکستان کے کام آ سکتی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ آنے والی امریکی انتظامیہ بشمول جو بائیڈن اور کملا ہیرس نے کشمیر کی معاملے پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے۔

‘تیسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے غیر مستقل ممبران ممالک کے ساتھ سفارتی لابی مضبوط بنائیں۔ اور اس کے ساتھ افغان امن عمل، انسدادِ دہشتگردی، اور کشمیر سیاست سے بالاتر معاملات ہیں، جس کے لیے پارلیمانی ڈپلومیسی کا سہارا لیں جو پچھلی حکومت نے بھی استعمال کی تھی۔’

‘اس کے ذریعے حکومت، فوج اور ریاست مل کر کام کر سکتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp