ندیم افضل چن کا استعفیٰ، کیا اختلافِ رائے کی گنجائش کم ہو رہی ہے؟


وفاقی کابینہ کے متعدد وزراء وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم افضل چن کے استعفے کو قبول نہ کرنے کے حوالے سے متحرک ہو گئے ہیں۔ کابینہ ڈویژن نے بھی ابھی تک ندیم افضل چن کو ان کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا۔ جبکہ ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا اس لیے وہ استعفیٰ دے کر آ گئے ہیں۔

کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملے اور اس واقعے پر احتجاج اور مظاہرین کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے مطالبے کے حوالے سے ندیم افضل چن اور وزیر اعظم کے ایک اور معاون خصوصی شہباز گل کے درمیان سوشل میڈیا پر خاصی گرما گرمی رہی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کی رائے سے سخت اختلاف کیا تھا۔

مستعفی ہونے والے ندیم افضل چن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے استعفی مانگا گیا تھا جس کی بنا پر اُنھوں نے استعفی دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے

وفاقی کابینہ: خزانہ سمیت اہم وزارتوں میں رد و بدل

وزیر اعظم عمران خان ’مائنس ون‘ کا ذکر خود ہی کیوں کر رہے ہیں؟

اُنھوں نے کہا کہ ویسے بھی اگر پارٹی کی لائن کے خلاف چلا جائے تو استعفی دینا بنتا ہے۔ ندیم افضل چن حکمراں جماعت کے چند ان افراد میں شامل ہیں جو حکومتی پالیسوں پر کبھی کبھار تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک سول کے جواب میں ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ وہ مستعفی ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کا حصہ رہیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر اُن کا استعفی قبول نہ بھی کیا گیا تو شاید ان کے لیے اب اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھنا ممکن نہ ہو۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ندیم افضل چن پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اور وہ اس جماعت کے دور حکومت میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔

ندیم افضل چن جب پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو عمران خان خود چل کر ان کے گھر گئے تھے۔

دو روز قبل ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے کسی کا نام لیے بغیر پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے وزراء اور مشیروں کو خبردار کیا تھا کہ اگر اُنھوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو یا تو وہ خود مستعفی ہو جائیں ورنہ اُنھیں نکال دیا جائے گا۔

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ وزیر اعظم ندیم افضل چن کا استعفی منظور نہ کیا جائے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے لیکن ایک دوسرے کی رائے کا احترام ضروری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ندیم افضل چن ایک سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان ہیں اور ایسے افراد کی پارٹی کو سخت ضرورت ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر اختلاف رائے ذاتیات میں تبدیل ہو جائے تو اس کا پارٹی کو نقصان ہوتا ہے۔

سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پہلے دور میں وفاقی وزیر رہنے والے غلام دستگیر خان کا کہنا ہے کہ جمہوری دور میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اگر وفاقی وزرا کے درمیان کسی معاملے پر اختلاف ہوتا تھا تو اس کا اظہار سامنے کیا جاتا تھا اور کبھی بھی ان کے درمیان وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تلخ جملوں کا تبادلہ نہیں ہوا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزراء میاں نواز شریف سے گلہ بھی کرتے تھے کہ وہ اُنھیں ملاقات کے لیے وقت نہیں دیتے تاہم کبھی کبھی وزیر اعظم ان وزیروں کا گلہ دور بھی کر دیتے تھے۔

غلام دستگیر خان کا کہنا تھا کہ فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں صورت حال مختلف ہوتی تھی اور کابینہ کے اجلاس کے دوران کسی کو بھی ان سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔

اُنھوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں ضیا الحق تاخیر سے پہنچے تو کسی نے بھی ان سے تاخیر کی وجہ نہیں پوچھی تاہم ضیا الحق نے کابینہ کے اجلاس شروع ہونے سے پہلے خود ہی بتایا کہ اُنھوں نے اپنی کابینہ کے تین وزیروں کو فارغ کر دیا ہے حالانکہ ان میں سے دو وزیر کابینہ کے اجلاس سے ایک روز قبل بلوچستان کے علاقے سبی میں ہونے والے میلے میں ضیا الحق کے ساتھ گئے تھے۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر جو وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے، کا کہنا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں اگر وزراء کے درمیان کسی معاملے پر اختلاف رائے ہو بھی جاتا تو وزیر اعظم اس معاملے کو انتہائی بردباری سے حل کراو لیتے تھے۔

عرفان قادر پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور میں وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے پر بات ہوتی تھی اس کے علاوہ وزراء کے محکموں کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جاتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp