امریکہ، انڈیا اور چین: خفیہ امریکی رپورٹ میں انڈیا کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کی بات پر چین کا سخت ردعمل


ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی
انڈیا اور چین کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کی ایک خفیہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے ہلچل مچ گئی ہے۔

مبینہ طور پر اس رپورٹ میں امریکہ کی ایشیا پیسیفیک کے علاقے سے متعلق پالیسی کی بات کی گئی ہے۔ امریکی ویب سائٹ ایکسیوس نے کہا ہے کہ اس نے اس رپورٹ کی کاپی دیکھی ہے جس میں امریکہ اپنی ’انڈو پیسیفیک پالیسی‘ میں انڈیا کو اہمیت دینا چاہتا ہے تا کہ چین سے مقابلہ کیا جا سکے۔

ایکسیوس نیوز کے مطابق سن 2018 کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ نے دس صفحوں پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ اس میں انڈو پیسیفیک علاقے میں پچھلے تین سالوں میں چین، انڈیا اور شمالی کوریا کے علاوہ باقی ممالک کے بارے میں حکمت عملی کا ذکر ہے۔

رپورٹ میں امریکہ کی عالمی حکمت عملی اور دفاعی چیلینجز سے نمٹنے کے لیے کئی پہلوؤں کا ذکر ہے۔

ظاہر ہے اب بیس جنوری کے بعد جو بائیڈن کو ان چیلینجز کا سامنا کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیے:

سلامتی کونسل کی تین کمیٹیوں کی سربراہی انڈیا کے پاس، پاکستان کے لیے اس کا مطلب کیا ہو گا؟

پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے مزید کیا کرنا ہوگا؟

اس رپورٹ میں چین کو ایک مسئلے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد شمالی کوریا کو بھی اسی طرح دکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ چین سے مقابلہ کرنے کے لیے علاقے کے ان لبرل معیشتوں والے ممالک کے ساتھ اتحاد ضروری جو امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین سے مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا کے ساتھ فوجی، سفارتی اور خفیہ تعاون بڑھانا چاہیے۔

جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے اثرورسوخ کو روکنے کے لیے انڈیا کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے کی بھی بات کہی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مضبوط انڈیا سے چین کی بڑھتی طاقت کو بیلنس کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے علاقے میں چین امریکی اتحاد کو کمزور کرکے خود بڑا کھلاڑی بننا چاہتا ہے۔

روس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اس علاقے میں حاشیے پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پورے علاقے کے لیے چین، امریکہ اور انڈیا اہم ہیں۔ ظاہر ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی حکمت عملی بھی یہی ہو۔

امریکی اور چینی رہنما

چین کا سخت ردعمل

اس رپورٹ پر چینی وزارت خارجہ کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ بدھ کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کی معمول کی پریس کانفرنس میں شینہوا نیوز ایجنسی نے اس بارے میں سوال کیا۔

شینہوا نے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا کہ ’امریکی حکومت کی ایک خفیہ رپورٹ جاری ہونے کی بات ہو رہی ہے، جس میں انڈو پیسیفیک حکمت عملی کا ذکر ہے۔ اس میں تائیوان کا دفاع، چین سے مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا کو فروغ دینا اور علاقے میں امریکی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟‘

اس کے جواب میں ترجمان نے کہا ’کچھ امریکی رہنما چاہتے ہیں کہ وہ اپنی وراثت خفیہ دستاویزات کے ذریعے چھوڑ کر جائیں۔ لیکن ان دستاویزات سے امریکہ کے برے ارادے ہی واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ امریکہ کی انڈو پیسیفیک حکمت عملی چین کو روکنے اور دبانے کے لیے ہے۔ یہ علاقے کے امن اور استحکام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آمرانہ حکمت عملی ہے۔ میں اس میں کم سے کم تین بڑی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں۔ سب سے پہلے، یہ سرد جنگ والی ذہنیت ہے۔ فوجی تصادم کو اکسانے والی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی علاقے میں باہمی فائدے والے تعاون کو تباہ کرنے کے لیے ہے۔ یہ علاقائی امن، استحکام اور خوشحالی کو تباہ کرنے کے لیے ہے۔ دراصل انہیں تاریخ کے کوڑےدان میں ڈال دینا چاہیے۔ امریکہ علاقائی امن کو خطرے میں ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کا اصلی چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔`

نریندر مودی اور شی جن پنگ

چینی وزارت خارجہ نے کہا ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے کے ممالک پوری طرح سمجھدار اور محتاط ہیں۔ انھیں امریکہ اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لیے یرغمال نہیں بنا سکتا۔ دوسری بات یہ کہ امریکی حکومت تائیوان کے معاملے میں اپنے ہی عزم کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ’

’ون چائینا‘ ایک حقیقت ہے اور تائیوان چین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ چین تائیوان کے معاملے میں کسی بھی طرح کی غیر ملکی مداخلت سے لڑنے کے لیے تیار ہے۔ تائیوان کے اندر بھی شر پسند عناصر کا مقابلہ کریں گے۔ ہم اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تائیوان کو چین میں ضم ہونے سے روکنے کی ہر امریکی کوشش ناکام ثابت ہوگی۔ میں امریکہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ’ون چائینا‘ پالیسی پر عمل کرے۔ امریکہ اگر چاہتا ہےکہ تائیوان میں امن قائم رہے تو وہ اس معاملے میں نہ پڑے۔‘

چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ اپنی خراب نیت کی وجہ سے چین کو علاقے میں خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

ترجمان نے کہا ’ہمارے ہمسایوں کے ساتھ چینی تعلقات اور حکمت عملی میں امریکہ ٹانگ اڑا رہا ہے۔ وہ ہمیں خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ سچ ہمیشہ سچ ہوتا ہے اور فتح انصاف کی ہی ہوتی ہے۔ چین پرامن ترقی اور خود کفیل دفاعی سٹریٹجی کا پابند ہے۔ ہم عالمی امن کے تخلیق کار ہیں، عالمی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں اور عالمی نظام میں سرپرست کی طرح ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایشیا پیسیفیک کا حصہ ہونے کی وجہ سے چین فعال انداز میں باہمی فائدے، سب کو ساتھ لے کر چلنے، علاقائی امن، استحکام اور خوش حالی کے لیے کام کرنے کا پابند ہے۔ ’اس علاقے کے ممالک سب جانتے ہیں۔ میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایشیا پیسیفیک میں چین اور امریکہ کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ سرد جنگ والی ذہنیت سے باز آئے گا اور دشمنی کی جگہ تعاون کا انتخاب کرے گا۔‘

ڈونلڈ مرمپ اور شی جن پنگ

انڈیا کے لیے امریکی کیمپ بھی پیچیدہ؟

پورے بیان میں چینی ترجمان چاو لیجی ان نے انڈیا کا نام نہیں لیا۔ اب بھلے ہی امریکہ اور انڈیا میں قربت کی بات کہی جا رہی ہے تاہم تاریخی طور پر امریکہ اور انڈیا کے تعلقات اتنے آسان بھی نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کافی پیچیدگیاں بھی رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دوران انڈیا نے امریکہ کے کیمپ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ انڈیا تب ’غیر جانبدار‘ تحریک میں شامل تھا۔ ایسے میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں زیادہ قربت رہی کیونکہ سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کے ساتھ تھا۔

انڈیا کے لیے پوری طرح سے امریکی کیمپ میں جانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ ایک ماہ پہلے ہی روس کے وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے کواڈ گروپ پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا چین کے خلاف مغربی ممالک کی ’لگاتار، جارحانہ اور دھوکہ پر مبنی حکمت عملی کا ایک موہرا ہے۔ روس کے ساتھ انڈیا کی تاریخی دوستی رہی ہے۔‘

لیکن چین اور روس کے تعلقات بھی بہت اچھے ہیں۔ امریکی سربراہی کو چیلینج کرنے کے لیے اس وقت دونوں ملک ساتھ کھڑے ہیں۔ روس نہیں چاہتا کہ چین کے خلاف انڈیا امریکی کیمپ میں شامل ہو جائے۔‘

روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے روسی انٹرنیشنل افئیرز کے اجلاس میں کہا تھا، ’مغرب ایک یک قطبی دنیا بحال کرنا چاہتا ہے۔ مگر روس اور چین کے اس کا ماتحت ہونے کے امکانات کم ہیں۔ لیکن انڈیا ابھی انڈو پیسیفیک علاقے میں کواڈ جیسی مغربی ممالک کی چین مخالف حکمت عملی کا ایک مہرا بنا ہوا ہے۔‘

روسی وزیر نے یہ بھی کہا تھا کہ مغربی ممالک انڈیا کے ساتھ روس کے قریبی تعلقات کو بھی کمزور کرنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp