براڈ شیٹ، جھوٹ اور لالچ 


لاہور کی گلیوں میں اس حوالے سے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے فیملی کے لئے تیار ہوئے اخبار میں دہرایا نہیں جا سکتا۔ جو محاورہ ہے اس کے دو کردار ہیں۔ لالچی اور جھوٹا۔ اور دعویٰ ہے کہ لالچی ہمیشہ جھوٹے کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔

ان دنوں ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں جس غیرملکی کمپنی کے چرچے ہیں اس کا سربراہ یا CEOایرانی نژاد ہے۔  ایران سے ہم نے محبوب کو محبوب پکارنے کے بجائے ’’گل‘‘ کہنا سیکھا ہے۔  سچ کو برملا بیان نہ کیا جا سکے تو ’’استعاروں‘‘ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ظالم و جابر شہنشاہوں کے ہوتے ہوئے استعارے محکوموں کی زبان بن گئے۔ دورِ حاضر میں بھی کسی ایرانی کی گفتگو سنتے ہوئے لہٰذا انتہائی چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ وہ سادہ زبان میں اپنا مدعا بیان کرنے کا جبلی طور پر عادی نہیں ہوتا۔ تاریخی تناظر میں اس رویے کی وجوہات سے بخوبی آگاہ ہوں۔ استعاروں میں ہوئی گفتگو کو بلاتعصب سراہتا ہوں۔

بہرحال براڈ شیٹ نامی جو کمپنی ہے وہ بذات خود ’’آف شور‘‘رجسٹرڈ ہوئی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے ’’چور اور لٹیرے‘‘ اپنی حکومتوں سے جو رقوم چھپا کر غیرملکی بینکوں میں Park یا جمع کراتے ہیں وہ اس کا سراغ لگا سکتی ہے۔ ’’حرام کی کمائی‘‘سے لندن جیسے شہروں میں خریدی جائیدادوں کی نشان دہی بھی کر سکتی ہے۔

اکتوبر1999ء میں نوازحکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد جنرل مشرف نے وطن عزیز میں ’’صاف ستھری جمہوریت‘‘ متعارف کروانے کا وعدہ کیا تھا۔  اس ضمن میں ایک سات نکاتی ایجنڈا تیار ہوا۔ کرپشن کا خاتمہ مذکورہ ایجنڈے کا آئٹم نمبر ون تھا۔ اس کی تکمیل کیلئے قومی احتساب بیورو کا ادارہ تشکیل دیا گیا۔ نیب کے نام سے مشہور ہوئے اس ادارے کے سربراہ جنرل امجد تعینات ہوئے۔ وہ بہت ہی اصول پسند اور سخت گیر شمار ہوتے تھے۔ جنرل صاحب نے اپنی معاونت کیلئے فوج سے ریٹائر ہوئے دو افراد کو اپنا طاقت ور ترین مصاحب بنا لیا۔ اتفاق یہ ہوا کہ ان میں سے ایک میرے بہت ہی بے تکلف دوست تھے۔ قلمی ناموں سے انگریزی زبان میں جارحانہ کالم لکھتے ہوئے بدعنوانی کی کہانیاں بیان کرتے۔  شاعرانہ طبیعت کے حامل ہوتے ہوئے بھی لیکن ان کی شدید خواہش رہی کہ بدعنوانوں کو بازار میں لگے کھمبوں پر اُلٹا لٹکا کر ’’عبرت کا نشان‘‘ بنایا جائے۔ ان کے ایک ’’نرم گو‘‘ ساتھی بھی ایسی ہی سوچ کے حامل تھے۔ وہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل تعینات ہوئے۔

چند ہی لوگوں کو یاد رہا ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے الزام میں فوجی افسران کے ایک گروہ کے خلاف اٹک قلعہ میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ فوجی عدالت کے سربراہ جنرل ضیاء الحق تھے۔ انہوں نے مذکورہ گروہ کو قابل تعزیر ٹھہرا کر سخت سزائیں سنائیں۔ نیب کے جن افسران کا ذکرہوا ہے وہ بھی اس گروہ میں شامل تھے۔

ملک میں ’’انقلاب‘‘برپا کرنے کی لہٰذا ان دونوں افراد میں خواہش بہت دیرینہ تھی۔ جنرل امجد صاحب نے انہیں احتساب کا فریضہ سونپا تو گویا ایک خواب کی تعبیرممکن ہوتی نظر آئی۔ ’’بد عنوان افراد‘‘ کی ایک فہرست پہلے سے تیار ہو چکی تھی۔ ان میں سے چند کو احتساب بیورو قائم ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے دوران انہیں وہ حقوق بھی میسر نہیں تھے جو جنیوا کنونشن جنگی قیدیوں کو فراہم کرتا تھا۔ حقوق سے محروم کئے’’بدعنوانوں ‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے قانون یہ بھی تیار ہوا کہ جس شخص پر نیب بدعنوانی کا الزام لگائے اس کا ’’ثبوت‘‘فراہم کرنا گرفتار کرنے والے کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ ملزم ہی کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی۔ عدل و انصاف کے تاریخی اور عالمی معیار کو حقارت سے نظر انداز کرتا یہ قانون بھی ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ بازیاب کرنے میں بالآخر ناکام رہا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جنرل امجد صاحب کے نیب سنبھالتے ہی جن مشہور سیاست دانوں کی پہلی کھیپ گرفتار ہوئی تھی بعد ازاں جنرل مشرف کی سرپرستی میں’’بحال‘‘ ہوئی ’’جمہوری حکومت‘‘ میں اعلی عہدوں پر فائز رہے۔

اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے یاد رکھنا ہوگا کہ بدعنوانوں کو عبرت کا نشان بنانے کی تڑپ ایک حوالے سے ’’انقلابیوں‘‘ کا ’’لالچ‘‘ ہے۔ وہ بے چین وبے تاب رہتے ہیں کہ کوئی ’’جیمزبانڈ ‘‘ بد عنوان پاکستانیوں کی غیرممالک میں چھپائی رقوم اور وہاں خریدی جائیدادوں کا سراغ لگائے۔ بے قرارتلاش کے اس لمحے میں براڈ شیٹ نامی کمپنی 2000ء کا آغاز ہوتے ہی نمودار ہوئی۔ ’’لالچی‘‘ کو اس نے سنہرے خواب دکھائے۔ نیب سے اس کمپنی نے پاکستانیوں کی غیرملکوں میں چھپائی رقوم اور سراغ لگانے کا تحریری معاہدہ کر لیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد مگر حکومت پاکستان کو احساس ہوا کہ ’’مزا نہیں آیا‘‘۔ مذکورہ کمپنی سے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ کمپنی اس فیصلے کے خلاف عدالت میں چلی گئی۔  آج سے چند روز قبل اس نے بالآخر’’تاوان‘‘ کی صورت ہم سے 28 ملین ڈالر کی خطیررقم بھی وصول کرلی۔ سکہ رائج الوقت کے مطابق یہ غالباً 700 کروڑ پاکستانی روپے کے برابر ہیں۔ میرے اور آپ کے دیئے ٹیکسوں سے یہ رقم ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا…‘‘ کی مانند ہے۔

وطن عزیز میں اگر ریاستی اداروں سے حساب طلب کرنے کی حقیقی خواہش واقعتاً موجود ہوتی تو ہمارا میڈیا اور اراکین پارلیمان یکسو ہوکر دہائی مچانا شروع کرتے۔ مطالبہ ہوتا کہ وہ کون تھا جس کے ’’انقلابی لالچ‘‘کے باعث حکومت پاکستان میرے اور آپ کے دیئے ٹیکسوں سے ایک دو نمبر دِکھتی غیرملکی کمپنی کو 700 کروڑ روپے کی خطیر رقم دینے پر مجبور ہوئی۔

ہم سے بھاری بھرکم رقم اینٹھ لینے کے بعد مگر اس کمپنی کا سربراہ لندن سے ایک پاکستانی کے چلائے یوٹیوب چینل پر نمودار ہوگیا۔ انتہائی فراخ دلی سے وصول کردہ رقم لوٹانے کو وہ آمادہ نظر آیا۔ یہ ’’آمادگی‘‘ یقینا بے سبب نہیں تھی۔ اپنے انٹرویو کے دوران وہ اشاروں کنایوں میں اصرار کرتا رہا کہ بد عنوان پاکستانیوں کی جانب سے چھپائے ’’اربوں روپے‘‘ اب بھی اس کے علم میں ہیں۔ خواہش بڑی واضح تھی کہ اس کی ’’سراغ رساں‘‘ صلاحیتوں سے ایک بار پھر رجوع کیا جائے۔ عمران صاحب کی نیک نیت کو اس شخص نے قصیدہ خوانوں کی طرح سراہا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ ہمارے وزیراعظم ان دنوں نوازشریف کی سزایافتہ ہونے کے باوجود لندن موجودگی کی بابت بہت رنجیدہ ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں واضح طور پر گول مول انداز میں غیبت بھری کہانیاں سناتے ہوئے اس نے درحقیقت عمران خان صاحب کا دل موہ لینے کی مزید کوشش کی۔

نوازشریف کے بارے میں استعاروں میں جو داستان موصوف نے بیان کی عمران حکومت کے ترجمانوں نے ہمارے’’آزاد‘‘ میڈیا کو اسے بلند آہنگ انداز میں دہرانے کو قائل کیا۔ بدھ کی صبح اُٹھا تو وہ ٹویٹ بھی دیکھ لئے جن کے ذریعے وزیراعظم صاحب نے ’’براڈ شیٹ ‘‘نامی کمپنی کے ’’انکشافات‘‘ کا خیرمقدم کیا ہے۔ میرا دل یہ ٹویٹ پڑھتے ہی گھبرا گیا۔ دل سے فوراً دُعا نکلی کہ مذکورہ کمپنی کو ایک بار پھر پاکستانیوں کی’’حرام کمائی‘‘ سے غیرملکوں میں چھپائی دولت اور جائیدادوں کا ’’سراغ‘‘ لگانے کے لئے  Hireنہ کر لیا جائے۔ عمران خان صاحب تک میری رسائی کی کوئی صورت نہیں۔ سچی بات ہے میرے دل میں بھی اس حوالے سے خواہش ہرگز موجود نہیں۔ ملاقات ہو جاتی تو فقط عرض کرتا کہ’’طوطیا من موتیا‘‘ واضح طور پر دونمبر دِکھتی کمپنی کے سربراہ کی چکنی چپڑی باتوں کو نظر انداز کریں۔ بد عنوانوں کو عبرت کا نشان بنانے کی خواہش میرے دل میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ لالچی اور جھوٹے کے رشتے کو بیان کرتا پنجابی محاورہ تاہم یاد رکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).