شاہد اختر اور خالد سہیل کی”نگر نگر کی کہانیاں“


کہانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی حضرت انسان کی اپنی تاریخ۔ قرین از قیاس ہے کہ اولین انسانوں نے جب زبان کے ذریعے ابلاغ شروع کیا ہو گا تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو، کوئی کہانی، کوئی واقعہ، کوئی قصہ ضرور سنایا ہو گا۔ آج سے آٹھ دس ہزار سال قبل جب انسان نے باقاعدہ لکھنا سیکھا تو سب سے پہلے اپنے گزشتہ احوال لکھے، واقعات لکھے اور ایسی داستانیں لکھیں جو اس وقت کے مطابق دلچسپ قصے تھے۔ یہ اساطیر آثار قدیمہ میں آج بھی ملتے ہیں اور ان کے تراجم ہو چکے ہیں۔ مختلف ادوار میں کہانی نے مختلف اشکال اختیار کیں۔ ڈرامہ، کہاوت، داستان، ناول، افسانہ، اور افسانچہ کہانی کی ہی مختلف جہتیں ہیں۔

دنیا کے ادبی منظر نامے پر عمیق نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بین الاقوامی زبانوں نے سب سے زیادہ ادب تخلیق کیا ان میں، انگریزی، روسی، ہسپانوی، لاطینی اور فرانسیسی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی زبانوں میں، عربی، ہندی، اردو، فارسی، پشتو، براہوی، بلوچی اور پنجابی نے ادب کے میدان بالخصوص داستان گوئی میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔ مگر اوپر بیان کی گئی تمام زبانیں اس وقت تک بین الاقوامی ادبی کینوس پر نمایاں مقام حاصل نہ کر سکیں جب تک ان کے تراجم بین الاقوامی زبانوں میں نہیں ہو گئے۔

ہر زبان اپنے اندر جغرافیائی، ثقافتی اور معاشرتی مزاج رکھتی ہے۔ ترجمہ ابلاغ کی وہ کارآمد ’تار‘ ہے جو مختلف زبانوں میں لکھی گئی کہانیوں کو قاری کی زبان سے جوڑ کر اس تک پہنچا دیتا ہے۔ ترجمے کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اگر الہامی کتابوں کے ترجمے نہ ہوتے تو مذاہب سکڑ کر مقامی ہی رہ جاتے وہ بین الاقوامی شہرت کبھی حاصل نہ کر پاتے۔ اساطیرالاولین کے تراجم نہ کیے جاتے تو آج ہم، بدھا، مہاویرہ، کنفیوشس، افلاطون، سقراط، بقراط، ارسطو اور زرتشت جیسے فلاسفروں اور سماجی سائنسدانوں کے ناموں سے شاید واقف بھی نہ ہوتے۔

الغرض، اگر بین الاقوامی زبانیں بہتے دریا ہیں تو ان کے تراجم وہ نہریں ہیں جو ان دریاؤں کو نہ صرف آپس میں ملاتی ہیں بلکہ ان کے درمیان موجود تشنہ ادبی زمینوں کو سیراب بھی کرتی ہیں۔ ہمیں نگر نگر کے باسیوں کی بود و باش، خوشیاں، غم، نظریات حتیٰ کہ رومان انگیزی تک سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

زیر نظر کتاب: ”نگر نگر کی کہانیاں“ مشہور عالمی ادب کے تراجم پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں روسی، انگریزی، جرمنی، فارسی، عربی اور افریقی ادب سے کل تیس کہانیاں ترجمہ کی گئی ہیں۔ یہ کہانیں اپنے وقت کی دلچسپ اور اثر انگیز داستانیں ہیں۔ جو نہایت مہارت سے اردو افسانے کے قالب میں ڈھال دی گئی ہیں۔

پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کہانیاں اردو ہی میں تحریر کی گئی تھیں۔ یہ مترجموں کی جانفشانی اور انگریزی و اردو زبان پر دسترس کا ثبوت ہے۔ افسانوں میں کہانی کی اصل روح برقرار ہے حالاں کہ اس سے قبل ان کہانیوں کو اپنی خلقی زبان سے انگریزی کے قالب میں بھی ڈھالا گیا ہو گا۔

تمام کہانیوں کے بارے یہاں لکھنا ممکن نہیں ہے۔ مگر جن کہانیوں نے ہماری ادبی حس کو خوشگوار کیا م ان میں : دو گز زمین (لیو ٹالسٹائی) ، قبرستان کا رشتہ (گائی ڈی مو پاساں ) ، شرط (انتون چیخوف) ، ایک فلسفی کی بات (شیخ سعدی) ، معزز طوائف (ڈرامائی کہانی: ژاں پال سارتر) ، اور کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟ (منظوم کہانی: آرڈی لینگ) قابل ذکر ہیں۔

دو گز زمین، لیوٹالسٹائی کی ایک نا قابل فراموش کہانی ہے۔ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسانی زندگی کے اکثر مسائل اس کی سوچ کے پیدا کردہ ہیں۔ اپنی سوچ کو لالچ، حسد اور بغض سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ نفرت، منفی سوچ اور لالچ انسان کی پر سکون زندگی کو اسی دنیا میں جہنم بنا دیتے ہیں۔

اسی طرح انتون چیخوف کی کہانی ڈاکیہ، ایک ہی ڈھنگ یا یک رنگی ترتیب monotonous routine سے گزرنے والی زندگی کے پس منظر میں پیدا ہونے والے مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ انسانوں کو نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لئے اپنے معمول، جگہ، کام کی ترکیب و ترتیب کو تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ کرنے سے نفسیاتی الجھنیں جنم لیتی ہیں۔ جس میں غصہ، اداسی۔ پژمردگی اور چڑچڑا پن اہم مسائل ہیں۔

گائی ڈی موپاساں کی کہانی ہیروں کی مالا بہت دلچسپ کہانی ہے۔ یہ دو سہیلیوں کی ادھوری ابلاغ سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کی ایک مختصر اور دلچسپ داستان ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر رشتے بالخصوص دوستی کے رشتے میں آپ کو کچھ تنگ کرے تو رواداری، محبت اور رکھ رکھاؤ کو ایک طرف رکھ کر اپنا مسئلہ دوست، یا محبوب، کے سامنے رکھیں۔ اس کو خامشی سے برداشت مت کریں۔ کسی اذیت میں مبتلا نہ رہیں۔ بقول ڈاکٹر خالد سہیل: ”ھارٹ ٹو ہارٹ ٹاک“ کریں۔ رابطے منقطع کرنے کے سے مسائل بڑھتے ہیں اور پھر بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ بلاشبہ نگر نگر کی کہانیاں عالمی ادب کے تراجم کے حوالے سے عالمی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔

شاہد اختر نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک عرصہ انٹرنیشنل کارپوریٹ لا کی پرٹیکس کی۔ اس کے علاوہ جن شعبوں میں انھوں نے کام کیا ، ان میں ٹیلی وژن، صحافت، کینیڈا کی سول سروس اور انسانی حقوق کے شعبے شامل ہیں۔ شاہد اختر آج کل مقامی اور بین الاقوامی ADR (alternate dispute resolution پر کام کر رہے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی کتاب Compass for conflict resolution 7 Cs ایماذون پر چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے۔ اختر اردو و فارسی شاعری اور بین الاقوامی نثر میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور کثیر الجہت زبانوں بالخصوص روسی مصنفین کو ترجمہ کر کے اردو قارئین کو عطا کرتے رہتے ہیں۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل ایک معتبر ادیب، طبیب اور دانشور کے طور شمالی امریکہ میں اہم مقام کے حامل ہیں ہی۔ مگر ڈاکٹر صاحب ترجمے کے میدان میں بھی اتنی ادب کی اتنی خدمت کر چکے ہیں، یہ ہمیں ’نگر نگر کی کہانیاں ”پڑھ کر معلوم ہوا۔ ڈاکٹر صاحب واقعتاً اب کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے۔ بقول شاعر:

میں اس کا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).