ایلزبتھ بشپ کی نظم ’کھو جانے کا فن‘ اور میرا دکھ


بچپن میں ایک نظم سکول کے نصاب میں پڑھی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ہمیں اپنے اپنے کھونے کا ہنر بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی میں بہت سے مرحلے ایسے بھی آتے ہیں جن میں آپ سے بہت سی چیزیں کھو جاتی ہیں، کبھی آپ کے رشتے کھو جاتے ہیں، کبھی وقت و حالات کے ہاتھوں بہت سے پیارے ہم سے دور ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی ہماری کوئی بہت ہی پسندیدہ چیز ہم سے گم ہو جاتی ہے۔

اس سے ملتے جلتے بہت سے واقعات ہر انسان کی زندگی میں رونما ہوتے رہتے ہیں، ایسے میں ان کھو جانے والی چیزوں کے غم سے ہم نے اپنے آپ کو کیسے نکالنا ہے، اس چیز کی تربیت بھی ہم نے خود کو خود ہی دینی ہے۔ اس کو شاعرہ ایلزبتھ بشپ کھو دینے کے فن کا نام دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں میرے والد صاحب کا انتقال ہوا اور میں پردیس میں رہتے ہوئے کورونا وبا کی وجہ سے جڑے حالات کی بدولت ان سے آخری ملاقات اور آخری دیدار نہیں کر سکی۔ جس کا ملال شاہد تاعمر میری اداس یادوں کا حصہ رہے گا مگر اس نظم نے میرے لاشعور میں جیسے مجھے اس غم کو سہنے کا حوصلہ بھی دیا۔ میں نے جانا کہ بالآخر بقول جون ایلیا ہم سب نے مر ہی جانا ہے۔ تو کیوں نہ ہم اس نظم میں درج کھو جانے کے فن کی مدد سے اپنے آپ میں اس غم کو جھیلنا آسان بنا سکیں۔

دنیا کی کوئی بھی نعمت ماں باپ کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، ان کی شفقت اور دعاؤں کی کمی تاحیات پوری نہیں ہو سکتی۔ ان کے بارے میں شاید ہم لکھنا چاہیں تو الفاظ کم پڑ جائیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری والدہ کی وفات پر گہرے غم سے نکلنے میں مجھے دو سے اڑھائی برس لگے تھے۔ اور پھر بھی میں اپنی شدت غم کو کم نہ کر سکی تھی۔ تاہم اس دفعہ میں نے اپنے آپ کو سیلف کونسلنگ اور سیلف مینجمنٹ کے ذریعے کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

اس طریقے کی بدولت مجھے خود کو سنبھالنے میں بہت مدد ملی۔ اس سلسلے میں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ بہت سے ایسے افراد جن کی زندگی سے کوئی بہت پیارا بچھڑ جاتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اس غم سے نکالنے کے پر کام کرنے کے بجائے اس غم کی گہرائی میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ بات صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ ہم اس بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں، وقت بہت بڑا مرہم ہے لیکن یہ مرہم بھی انہی لوگوں پر اثر کرتا ہے جو اپنی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لئے شعوری کوشش کرتے ہیں:

کھو جانے کا فن سیکھنا مشکل نہیں
بہت سی چیزیں اس میں ہماری مدد کرتی ہے
کھو جانا اور کسی کو کھو دینے سے دنیا ختم نہیں ہوتی
ہم روز کچھ نہ کچھ کھو دیتے ہیں
غیر ضروری اشیاء، جیسے کبھی چابیاں
اور بے مصرف گزرا ہوا وقت۔
کھو دینے کا فن سیکھنا مشکل نہیں۔
کبھی بہت زیادہ اور کبھی بہت جلدی کھول دیتے ہیں
نام رشتے اور بہت سی ایسی جگہ جن کا سفر کرنا ہو
کبھی کسی کو بہت پیاری چیز کھو جاتی ہے۔
ابھی بہت پیارا رشتہ
یہ سبھی زندگی کا حصہ ہے
ہمیں اس فن سے آشنا ہونا ہے
کھو دینے کا فن سیکھنا مشکل نہیں۔

Elizabeth Bishop

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).