ٹرمپ مواخذے کی زد میں


امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی قرارداد 197 کے مقابلے میں 232 کی اکثریت سے پاس کر لی ہے اور اب ایوان بالا سینیٹ میں ان کا مواخذہ ہو گا۔

ٹرمپ پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں جن کا دو مرتبہ مواخذہ ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے خلاف یہ کارروائی صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے جھوٹے الزامات لگانے اور چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر مظاہرے کے لیے مظاہرین کو ’بغاوت پر اکسانے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

تین دن قبل امریکی ایوان نمائندگان نے 205 کے مقابلے میں 223 ووٹوں سے ایک قرارداد پاس کی تھی جس میں امریکی نائب صدر مائیک پنس کو آئین کی دفعہ پچیس کے تحت صدر ٹرمپ کو عہدہ صدارت سے ہٹانے کا کہا تھا۔ پنس نے اگرچہ انہیں ہٹانے سے انکار کر دیا تھا مگر ان کے مواخذے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔

ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے ان نو ڈیموکریٹس کے نام بتا دیے ہیں جو مواخذہ کے عمل کی قیادت کریں گے۔ ادھر اب تک دس ریپبلکن ارکان نے بھی مواخذے کی حمایت کی ہے لیکن امکان ہے کہ یہ تعداد بڑھ جائے گی کیونکہ پارٹی رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کے مواخذے سے اپنے پارٹی ارکان کو نہ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹرمپ نے ابھی تک ہجوم کو بھڑکانے پر کسی قسم کی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ کانگریس کی عمارت پر حملے میں صدر ٹرمپ کے کردار پر اسے اور اس واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ یہ سب کچھ اچانک، بغیر منصوبہ بندی اور جذبات میں بالکل نہیں ہوا۔ یہ اس مہم اور ان کوششوں کی انتہا تھی جو صدارتی انتخابات کے فوراً بعد صدر ٹرمپ، ان کے حامیوں اور دائیں بازو کے میڈیا نے نتائج تبدیل کرنے کے لیے شروع کیے تھے۔

اس مہم میں صدر ٹرمپ، ان کے اتحادیوں اور منتخب ریپبلکن ارکان کی طرف سے انتخابی نظام کی شفافیت کو مشکوک بنانے کے لیے دھڑلے سے بولے اور پھیلائے جانے والے بے بنیاد جھوٹ بھی شامل تھے۔

اس مہم میں وہ درجنوں بے بنیاد مقدمے بھی شامل تھے جو ووٹوں کی گنتی یا صدارتی کالج کے انتخاب کنندگان کے انتخاب یا صدارتی کالج کے اجلاس اور ان کے نتائج روکنے کے لیے ٹرمپ نے دائر کیے تھے اور جو اتنے مضحکہ خیز اور غیر مصدقہ الزامات پر مبنی تھے کہ مختلف ریاستوں میں جج حضرات نے تھوڑے ہی وقت میں انتخابات میں دھاندلی اور سازش بارے ان غیر معین اور بلاثبوت الزامات والے مقدموں کو مسترد کر دیا اور گنتی اور تصدیق رکوانے کی اجازت نہ دی۔

اس سے پہلے ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے ووٹوں پر شکوک و شبہات پھیلائے۔ پھر ڈاک کے ذریعے ووٹوں، بیلٹ ڈراپ باکسز اور پولنگ اسٹیشنوں تک ووٹروں کی رسائی کو محدود کرنے اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات کے ذریعے اقلیتی ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم کرنے کو کوشش کی۔ روبو کالز کے ذریعے رائے دہندگان کو ووٹ کی جگہ اور وقت پر غلط فہمیاں پھیلائیں اور ڈاک سے آنے والے ووٹوں کی ترسیل میں تعطل و تاخیر کی کوشش کی۔ ان کے حامیوں نے رائے دہندگان کو بھی ڈرایا دھمکایا۔

اس مہم میں ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے چند اہم ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اور تصدیق کرنے والے سرکاری اہلکاروں پر پہلے نتائج روکنے اور پھر اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ بھی شامل تھا حتٰی کہ ان کی بات نہ ماننے والے اہلکاروں کے لیے گھر سے باہر نکلنا مشکل یا خطرناک ہو گیا اور انہیں سرکاری حفاظت مانگنی پڑی۔ انہوں نے کچھ ریاستوں میں ریاستی قانون سازوں کو عوامی ووٹوں کے برعکس انتخابی کالج کے لیے ٹرمپ کے اپنے ارکان کی تقرری پر آمادہ کرنے کی سازش کی۔

اس مہم میں انتقال اقتدار سے اول انکار اور پھر اس میں تاخیر لانے کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی شامل تھیں۔ اور پھر جب دباؤ پڑا تو انتقال اقتدار کی ہامی بھری لیکن ساتھ ہی عدالتوں سے مسترد شدہ دھوکہ دہی کے الزامات بھی پھر دہرائے۔ لیکن یہ ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔

پھر آخر میں مائیک پنس نے، جو صدارتی کالج کے نتائج کی تصدیق کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، ٹرمپ کی یہ درخواست مسترد کردی کہ صدارتی کالج کے نتیجے کی کانگریس میں تصدیق سے انکار کردے تو ٹرمپ نے نیشنل مال پر جلسہ کیا، وہاں انتہائی سخت اشتعال انگیز خطاب کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی تاکہ کانگریس جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق اور اعلان نہ کر سکے۔ اس حملے کے نتیجے میں پانچ قیمتی جانیں لی گئیں، کچھ زخمی ہوئے، ارکان مقننہ کی جانوں کو خطرہ ہوا اور کانگریس کی کارروائی میں تعطل آیا اور امریکی جمہوریت پر دنیا بھر میں اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔

ٹرمپ نے 2016 میں بھی صدارتی انتخابات کے دوران کہا کہ وہ صرف اپنی جیت کے بعد ہی انتخابات کے نتائج قبول کریں گے اور اس بار بھی انہوں نے کہا تھا کہ صدارتی انتخابات اگر میں ہار گیا تو میں پرامن انتقال اقتدار کا وعدہ نہیں کرتا کیوں کہ ان کے بقول ووٹنگ میں یقیناً دھاندلی ہو گی۔

اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ٹرمپ کے امریکہ میں مخالف کی جیت ماننے اور اقتدار کی پرامن منتقلی کی روایت نہیں۔ یہاں مخالف کی جیت کو شکست میں بدلنے کے لیے صدر متعلقہ اداروں کو دباؤ میں لا سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ نے جمہوریت اور انتخابی نظام پر اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ میں سفید فام نسل پرستی اور نسلی تقسیم کی سرپرستی کی۔ انہوں نے رائے دہندگان کے بجائے ہجوم کے ذریعے فیصلے کروانے کی کوشش کی۔

ایف بی آئی، 18 امریکی ضابطہ 2331 ( 5 ) میں پائی جانے والی دہشت گردی کی تعریف ”کسی شہری، شہری آبادی کو ڈرانے یا مجبور کرنے کے لئے افراد یا املاک کے خلاف طاقت اور تشدد کا غیر قانونی استعمال“ ہے۔ ایف بی آئی نے اندرونی دہشت گردی کی مزید وضاحت کی ہے کہ یہ کام ”سویلین آبادی کو خوف زدہ کرنا یا زبردستی کرنا ہے یا دھمکیوں اور جبر سے حکومت کی پالیسی پر اثرانداز ہونا ہے“ ۔

چھ جنوری کو امریکی دارالحکومت میں جو کچھ ہوا وہ اس تعریف کے مطابق ہے۔ صدر ٹرمپ نے جان بوجھ کر منتخب حکومت کے خلاف ہجوم کو اکسایا ہے۔ یہ بغاوت اور غداری کے مترادف ہے۔ یہ سب قانون کی حکمرانی پر حملے ہیں اور افسوس کہ امریکہ کے صدر نے ہی جمہوریت، عوام کے حق انتخاب اور ملک میں نظام انصاف پر ان حملوں اور ان خطرناک اور ناپاک سازشوں کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ ایسے جرائم ہیں جن پر کانگریس ان کا سخت ترین ممکنہ احتساب یعنی مواخذہ کرے۔

صدر ٹرمپ کے مواخذے سے نہ صرف آئندہ ایسے کسی دوسرے خودپسند طالع آزما اورخبطی رہنما کو ایسا کرنے کی جرات نہیں ہو سکے گی اورامریکہ میں نظام اور قانون کی حکمرانی پر عوامی اعتماد بحال ہونے میں بھی مددملے گی بلکہ امریکی جمہوریت کے مستقبل اور مضبوطی پر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی پریشانی کا تدارک بھی ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).