عوام کی فکر کون کرے گا؟


کہا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف نے حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے سے متعلق اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب وہ جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ ایوان کے اندر سے بھی اسے دباؤ میں لائے گی، ازاں بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرے گی۔

ایسا اس لیے سوچا گیا ہے کہ حکومت نے جلسوں سے زیادہ اثر نہیں لیا۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں اگر حزب اختلاف جلسے کرتی ہے اور عوام کی مطلوبہ تعداد اکٹھی نہیں ہوتی تو اس کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے پھر اس میں شکست و ریخت کا عمل بھی جاری ہے یعنی، بڑی جماعتوں میں دھڑے بندی ہو چکی ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کمزور ہو گئی ہے، آصف علی زرداری نے ساتھی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایوان میں اپنے ووٹ کا استعمال کر کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

آصف علی زرداری کے بارے میں تو یہ بات مشہور ہے کہ وہ ماہر سیاسی جوڑ توڑ ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ سڑک کی سیاست کو بالکل ترک کر دیں اور ساری توانائیاں نئی حکمت عملی پر صرف کر دیں یہ بات کہی جا رہی ہے۔

حزب اختلاف کی اس حکمت عملی کے پیش نظر حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اس نے اس پہلو پر پوری سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ کہتے والے کہتے ہیں کہ حکومتی پارٹی اپنے ناراض ارکان کو منانے کے لیے دوڑ پڑی ہے۔ ان کے مطالبات پر غور کیا جا رہا ہے، حکومت نے انہیں فنڈز جاری کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ فقط اپنے اراکین ہی کو نہیں بعض حزب اختلاف کے لوگوں کو بھی فنڈز دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی عوامی خدمت میں حصہ لے سکیں اور حکومت کے لیے اچھا سوچیں۔

ویسے بھی عمران خان نے اپنی پچھلے برس کی آخری تقریر میں یہ کہا تھا کہ اب خدمت کا وقت ہے، تمام ارکان اس کے لیے کمر باندھ لیں، اس سے پہلے انہوں نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اب بھی کاہلی کا مظاہرہ کریں گے تو پھر وہ آرام کریں۔ اب حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے آمادہ نظر آتی ہے، ایسے منصوبے بھی تیار کیے جا رہے ہیں جن سے براہ راست عوام کو آسانیاں اور سہولتیں میسر آئیں گی۔

سوال یہ ہے کہ اگر حزب اختلاف اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا نیا وزیراعظم اس کا ہو گا یا پھر پی ٹی آئی ہی کا ہو گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا نیب کی کارکردگی محدود ہو جائے گی؟ اس حوالے سے قطعی طور سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا مگر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پی ٹی آئی کا ہی ہو گا جو احتساب کے عمل کو جاری رکھے گا۔

تأثر یہ ابھر رہا ہے کہ فریقین اقتدار کے لیے ہی محترک ہیں، ایک اپنا اقتدار بچانا چاہتا ہے تو دوسرا اسے حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کھینچا تانی میں کچھ عوام کا بھی بھلا ہو جائے گا یعنی اب اگر حکومت لوگوں کو ریلیف دیتی ہے تو یہ اچھی بات ہے اور اس کا کریڈٹ صرف اسے ہی نہیں حزب اختلاف کو بھی جائے گا کیونکہ اس کی وجہ سے یہ ہو گا وگرنہ حکومت تو شاید آخری چند ماہ میں کچھ دینے کا سوچتی اور اس وقت لوگوں کا حال بہت خراب ہو چکا ہوتا۔

حزب اختلاف اور حزب اقتدار کو عوام کے مشوروں سے کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ اپنے ذہن سے سوچتی ہیں اور فیصلے کرتی ہیں ۔ لوگ بے چارے کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سیاست کے اس کھیل میں وہ ہمیشہ طوعاً و کرہاً شریک ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ کوئی تو انہیں سکھ دے گا مگر یہ ایک خواب کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو آنکھ کھلنے پر محو ہو جاتا ہے۔

افسوس تہتر برس کے بعد بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں،  حکمران ذاتی مفادات کے لیے دست و گریباں ہوتے ہیں اور پھر مل بیٹھتے بھی ہیں مگر آج تک عوام کے لیے انہوں نے کبھی بھی اتحاد کیا اور نہ ہی کوئی قانون سازی کی ۔ اگر کی بھی تو اس پر عمل نہیں ہوا۔ اس وقت جب آئین کی بات ہو رہی ہے تو ان سب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ عوامی مفادات سے متعلق جتنی شقیں آئین میں موجود ہیں، ان پر کبھی کسی نے غور کیا نہیں۔

حرف آخر یہ کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں مل بیٹھیں، اسی میں سب کا بھلا ہے۔ لڑائی میں کسی کو کچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔ حزب اختلاف نے کچھ کرنا ہی ہے تو وہ ایوان میں ان نکات پر بحث کا آغاز کرائے کہ حکومت مہنگائی پر کیوں قابو نہیں پا سکی۔ انصاف سستا اور آسان کیوں نہیں کر سکی، ٹیکسوں پر ٹیکس لگا کر عوام کی زندگیاں کیوں اجیرن کر رہی ہے، اس سے وہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، جس کا فائدہ اسے آگے چل کر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).