محبت اور نفسانی کشش میں کیا فرق ہے؟


محبت کیا ہے؟ یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ آیا محبت کوئی خوش نما لفظ ہے یا کسی عمل کا ردعمل۔ میری دانست میں محبت دراصل معاشرتی معاہدے کا ایک جزو ہے، جس پر عمل پیرا ہونے والے کامیاب کہلائے جا سکتے ہیں۔ محبت کو فطرت کے حصے کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، بلکہ محبت کا احساس و جذبہ مکافات عمل سے ہے جس میں عمل کے ردعمل میں جذبے پیدا ہوتے ہیں۔

محبت کرنے اور چاہنے کی خواہش ازخود پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ جہاں زندگی کی نمو ہے، وہاں فطرت کے دیگر تقاضوں کی طرح بنی نوع انسان کے علاوہ چرند، پرند، درخت، پانی، ہوا، آگ میں قدرت نے تقاضوں کو پابند کر دیا ہے کہ اسے چاہنے کی خواہش اور صلاحیت کیا معنی رکھتی ہے۔

آگ سے محبت رکھنے والا، اس سے پرستش کی حد تک محبت و عقیدت رکھتا ہے، لیکن آگ کی فطرت میں محبت نہیں بلکہ جلانا ہے۔ اسے خود سے محبت کرنے والے کے جذبات کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ آگ کے آگے ہاتھ جوڑنے والا جب آگ میں ہاتھ ڈالے گا تو اس کا انجام جلنا ہی ہو گا۔ ہوا میں زندگی کی نمود ہے لیکن انسان کے چاہنے اور مسخر کرنے کے باوجود اس کی مقررہ فطرت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح پانی میں بھی زندگی کی نمود ہے۔ لیکن چاہے جانے کی خواہش اس کی فطرت میں نہیں۔ پانی کو ماں کا درجہ دینے والے، اگر آب میں زیادہ سانس روکیں تو نتیجہ موت ہے۔ یہاں تک تو ہم اس بات پر مقدم ہیں کہ محبت کا جذبہ انسان کی فطرت تک محدود ہے۔ لیکن ہر زندہ چیز میں محبت کے جذبے اور صلاحیت کو تلاش کرنا، یا اس کا ہونا ممکن نہیں۔

آگ، ہوا، پانی، زمین، ستارے کی طرح لاتعداد اجزا ہیں جس میں زندگی کی نمود ہے۔ لیکن اختیار کی صلاحیت نہ ہونے کے سبب محبت کے جذبے کو ان میں تلاش نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح جانوروں میں محبت کا جذبہ اختیاری نہیں بلکہ متعین ہے، صنف مخالف سے اپنی خواہشات کی تکمیل یا قدرت کے متعین کردہ اصولوں کو پورا کرنا محبت نہیں کہلایا جا سکتا، اسی طرح جانوروں کا انسانوں سے محبت کرنے کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ عادات ہیں جو انسان اپنے طریقوں سے تبدیل کرا دیتا ہے۔ لہٰذا تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ محبت کا یہ جذبہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ہر زندہ چیز میں محبت کرنے اور چاہے جانے کی ”خواہش“ اور صلاحیت ہوتی ہے۔

محبت کی قسموں یا شکلوں میں خونی رشتوں کی محبت کے تحت جنیٹک میک اپ (Genetic Makeup) کا تصور انسان کا از خود پیدا کردہ ہے۔ انسان کیونکہ ایک سماجی جانور ہے، اس لیے وہ اس ماحول میں خود کو جلد ڈھال لیتا ہے، جس میں وہ رہ رہا ہوتا ہے۔ ماہرین سماجیات نے انسان پر مختلف تجربات میں یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انسان کو کسی جانور کی صحبت میں پرورش دی جائے تو وہ جانوروں (حیوانوں ) کی طرح کی عادات و اطوار اختیار کر لے گا۔

والدین کا اپنے بچوں سے پیار کا تصور، مذہب اور سماج سے جڑا ہے۔ خون کا یہ رشتہ، سماجی معاہدے کے عدم وجود کی بنا پر ناکام ہوجاتا ہے اور خون کے رشتے کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے، محبت پر سماج غالب آ جاتا ہے۔ خون کا یہ رشتہ اسے اپنانے سے روک دیتا ہے، لہٰذا خون کے رشتوں میں محبت کی افزائش کا اہم عنصر ”ازدواجی معاہدہ“ ہے۔

خونی رشتوں کو محبت کا جواز نہیں دیا جا سکتا، خونی رشتہ باہمی تعلق، ایک دوسرے کے ساتھ مستقل رہنے، کھانے پینے، سماجی روایات کی پابندی اور ثقافت سے جڑا ہے۔ ہندو معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت نے پانچ مردوں سے شادی کی، تو اسی طرح ان میں ایک شادی شدہ عورت کو زوج میں رکھنے کے بعد دوسری بیوی کا تصور، موجود نہیں۔ بیوہ کو زندہ جلا دیا جاتا تھا، بھائی، والدین رشتے دار، خونی رشتے کے باوجود ”ستی“ کی رسم کو خود سر انجام دیتے۔

اس لیے خونی رشتوں میں احترام کا واحد سبب معاشرتی طور پر مل جل کر رہنے اور ساتھ کھانے پینے سے ہے۔ کیونکہ انسان سماجی جانور ہے، جو ہر ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرلیتا ہے۔ مرد اور عورت یا لڑکے اور لڑکی میں محبت کے تصور کے لیے ماحول کا اثر نفوذ اہم ہوتا ہے، جنس مخالف کی جانب سے سج دھج ہی خواہشات نفسانی کی بیداری کا سبب بنتی ہے۔

محبت کے لطیف گداز جذبے کو جذبہ نفسانی ہوس کے مقابل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے جب ہم اسلام میں دی گئی حدود و قیود کو جدید سائنس کے میزان میں تولتے ہیں، تو واضح طور پر قریبی خونی رشتوں کے جرثوموں سے آئندہ نسل کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام معاشرتی و اخلاقی اقدار کے ایسے تمام رشتوں کے احترام کے حوالے سے حدود و قیود متعین کر دیتا ہے اور یہی اخلاقی ضابطے، مذہبی روایات کے تحت ایمان کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔

انسان اپنی پیدائش سے  لے کر دور جوانی اور بڑھاپے تک اخلاقیات اور سماجی بندھنوں میں جکڑا رہتا ہے اور محبت کے تصور کو اس کے مطابق اپناتا ہے۔ لیکن انسان، مذہب سے دور ہو کر لادینیت اختیار کر لیتا ہے تو اس کے نزدیک مذہب کا تصور ختم ہو جاتا ہے، دوسری جانب اخلاقیات کا بھی کوئی جواز نہیں رہتا۔ لہٰذا خونی رشتوں میں محبت سے زیادہ اخلاقی اور سماجی اقدار کا تصور زیادہ ہوتا ہے۔

محبت اور نفسانی خواہش کے فرق میں یہی نکتہ لطیف ہے۔ جسے عمومی طور پر نہیں سمجھا جاتا کہ خواہشات کی تکمیل کے لیے سب کو جائز سمجھنے کے تصور  نے ہی تباہ کن سماجی اقدار کو جنم دیا ہے۔ سچی محبت کا تصور، ایثار، قربانی، خلوص اور طلب سے ماورا ہے۔

محبت کا حقیقی تصور یہی ہے کہ وہ چاہا جائے جو محبوب چاہتا ہے۔ جو خود چاہا جانا ہے۔ وہ محبت نہیں بلکہ نفسانی خواہش ہے۔ جسم کی طلب، دوسروں سے قربانی، ایثار کی امید، خلوص کی توقع اور مطلب سے طلب، حواصل دراصل محبت کی پہلی سیڑھی ضرور ہے، لیکن حقیقی محبت نہیں ہے۔

اگر دوسروں کے لیے وہ چاہا جائے جو وہ اپنے چاہتا ہے تو دراصل یہی محبت ہے۔ سچی محبت کا تصور اور سماجی معاہدے کے تحت زندگی بسر کرنا الگ الگ معاملات ہیں، سچی محبت کو ایثار، خوشی اور آرام کے ساتھ جوڑ کر انسان طلب آسانی کی خواہش کو ترویج دیتا ہے۔ محبت کے جذبے کو خواہشات کے تابع کر دینا حقیقی محبت کا تصور نہیں سمجھا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).