میڈرڈ: ایک خوبصورت شہر


ہفتہ بھر اپنوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بھول چکا تھا کہ رخش سفر رکا نہیں اور ابھی مزید چند منازل تک پا بہ رکاب رہے گا۔ بہرحال ریلوے سٹیشن اور ائیرپورٹ پر ایک اپنی ہی قسم کی دنیا آباد ہوتی ہے جہاں کوئی بھی اکیلا نہیں ہوتا اور اس گہما گہمی میں مسافروں اور وقت کے پہیوں کے مابین ایک ہمہ وقتی مقابلہ جاری رہتا ہے۔ کہیں مسافر اس دوڑ میں سبقت لے جا کر مطمئن بیٹھے ہیں تو کہیں سرعت وقت کسی کو رنجیدہ کر دیتی ہے۔

میں عمارت کے اندر داخل ہو کر سیدھا آئبیریا کے کاؤنٹر پر پہنچا اور لائن میں جا لگا۔ میری اگلی منزل میڈرڈ تھی۔ دس بارہ منٹ میں کاؤنٹر پر پہنچا اور سامان سکیل پر رکھ دیا۔ بیگیج ٹیگ اور بورڈنگ کارڈ لے کر بریفنگ ہال میں پہنچ گیا۔

مجھے بریفنگ ہال میں پہنچ کر بہت سکون محسوس ہوتا ہے۔ یہاں آپ ائیرپورٹ پہنچنے تک کے مسائل اور بیگیج کی ترسیل کے جھنجھٹ سے آزاد ہلکے پھلکے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور تمام تر فکروں سے بالاتر بلا شرکت غیرے یہ آپ کا ذاتی وقت ہے جیسے چاہیں گزاریں۔

کوئی خوشگوار تحریر پڑھیں یا باتوں میں وقت گزاریں، موبائل کا استعمال کریں یا ارد گرد کے مشاہدے پر اکتفا کریں۔ پرواز صحیح وقت پر تھی۔ تمام مسافر سوار ہو چکے تھے۔ حفاظتی پیٹی باندھنے کا اعلان ہوا اور جہاز نے فضا کی بے کراں وسعتوں میں پرواز سے قبل کرۂ ارض پر الوداعی دوڑ شروع کی۔ جہاز نے ٹیک آف کر لیا اور الجیریا قصۂ پارینہ ہوا۔ ایک مرتبہ پھر بحر قلزم عبور کر کے شمال مغرب کی جانب بڑھنا تھا مگر اب کی بار سمندر پر پرواز کا دورانیہ تقریباً آدھا تھا اور باقی آدھا سفر سپین کے ساحلی علاقے سے میڈرڈ تک خشکی پر تھا۔

پہلی مرتبہ نئی منزل یا نئی جگہ پہنچنے کا تجسس ہوتا ہے جو یقیناً مجھے بھی تھا۔ سپین دیکھنے کی خواہش کو اس کے تاریخی پہلو نے زیادہ اجاگر کیا ہوا تھا۔ اس سر زمین پر آٹھ سو برس مسلمان حکومت کرتے رہے اور اس کے بعد پانچ سو سال وہاں سے بے دخل ہوئے بھی گزر چکے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سپین پر مسلم حکمرانی طارق بن زیاد کا کارنامہ ضرور تھا لیکن مجموعی طور پر یہ حکمرانی مہنگی پڑی اور ذلت کا باعث بنی۔ اس زوال کا سبب بہر حال مسلمانوں کا نفاق تھا۔

تقریباً دو گھنٹے کی پرواز اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جہاز کی بلندی کم ہو چکی تھی۔ میڈرڈ کے نواح کا فضائی منظر اچھا لگ رہا تھا اور اب ہم لینڈ کرنے والے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ائیرپورٹ پر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے مسافر ائیر پورٹ کی عمارت سے باہر آ چکے تھے۔ ائیر لائن کی کوچ کے ذریعے ہم شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ میڈرڈ کی سڑکیں، چوراہے اور راستے حیرت انگیز حد تک کشادہ اور خوبصورت ہیں۔ راؤنڈ اباوٹ اتنے خوشنما اور دیدہ زیب کہ صحیح معنوں میں دل موہ لینے والے۔

کہیں یادگار کی تعمیر تو کہیں فواروں کی جلترنگ، کہیں مجسمے تو کہیں آزادی کی آرک، کہیں آرٹ کے نمونے تو کہیں خوبصورت پھولوں کی دعوت نظارہ۔ اتنی دلکشی یورپ کے کسی اور شہر میں نہ تھی۔ ایسا تأثر ملتا ہے کہ ابھی ہی ان کی تزئین و آرائش کی گئی ہے اور جب بھی دیکھیں یہی تأثر ملے گا۔ روایتی طور پر خوبصورتی کے تناظر میں پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں اور سیرگاہوں کا تذکرہ ہوتا ہے جو کہ قدرتی حسن کے شاہکار ہیں ، اس کے برعکس اگر شہری آبادی اور گزرگاہوں کی بات کی جائے تو بلاشبہ میڈرڈ شہر کی دل آویزی کا کوئی مقابلہ نہیں۔

ائیر لائن کی کوچ شہر کے ایک با رونق علاقے تک لے آئی تھی جہاں قریب ہی ایک ہوٹل تھا۔ ہوٹل میں سنگل بیڈ روم مل گیا۔ تیسرے فلور پر واقع کمرے کی فرنشنگ اچھی تھی اور اس کی کھڑکی با رونق بازار میں کھلتی تھی۔ تازہ دم ہو کر باہر نکل گیا۔ چند قدم آگے ایک چوراہا تھا جس کی ایک سڑک پر تو باقاعدہ بازار تھا اور دیگر اطراف بھی با رونق تھیں۔ مغرب ہونے میں ابھی دو گھنٹے تھے۔ چلتے چلتے میں دور تک نکل گیا۔ لوگ انگریزی زبان نہیں سمجھتے تھے لیکن خاصی وضع داری سے پیش آتے۔

زیادہ تر لوگوں کے بال ہماری طرح سیاہ ہیں مگر رنگت سفید۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سڑکوں اور ریستورانوں میں جس انداز میں اچھا وقت گزار رہے تھے ، یورپ کے دوسرے شہروں میں آزادی کو اس طرح یرغمال بنے ہوئے نہیں دیکھا۔ یورپ کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں چیزوں کے نرخ ارزاں تھے۔ واپسی پر ہوٹل پہنچ کر اگلے روز کے لئے میں نے ایک ٹور بک کروا لیا تھا۔

صبح نو بجے گروپ نے شہر کے ٹور کے لئے روانہ ہونا تھا۔ میں کچھ دیر پہلے ہوٹل کی لابی میں پہنچ گیا۔ وقت مقررہ پر بس روانہ ہوئی اور زیادہ تر جگہیں بس میں بیٹھے ہوئے ہی دکھائی گئیں۔ چند ایک مقامات پر ہم بس سے اتر کر بھی گئے اور آخر میں شاہی محل دکھایا گیا۔

شاہی محل ایک بہت ہی عالیشان عمارت ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ یورپ کا سب سے بڑا شاہی محل ہے جو کہ ابھی تک زیر استعمال ہے۔ اگرچہ سپین کا شاہی خاندان خود سے کسی دوسرے محل میں منتقل ہو چکا ہے اور اس محل کا استعمال سرکاری تقریبات تک محدود ہے یا پھر عوام اور سیاحوں کی سیر و تفریح کے لئے وقف ہے۔

اس محل کی جگہ پر ایک قلعہ ہوا کرتا تھا جسے اٹھارہویں صدی کی پہلی تہائی میں آگ لگی پھر اگلے ہی برس اس جگہ محل کی تعمیر شروع ہوئی۔ مکمل ہونے میں بیس سال سے زیادہ عرصہ لگا اور سب سے پہلے بادشاہ کارلوس سوئم کا مسکن بنا۔ یہ محل 1450000 مربع فٹ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں کل 3400 کمرے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اتنے وسیع وعریض محل میں پھرتے ہوئے تھکاوٹ ہونے لگی تھی۔ صرف عمارت ہی نہیں بلکہ کمروں کی تزئین و آرائش بھی بہت اعلیٰ درجے کی ہے۔

زمین پر رنگ برنگے دبیز قالین بچھے ہیں اور نامور فنکاروں کے فن پارے دیواروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ فرنیچر اپنی مثال آپ اور کراکری کٹلری ہر چیز اعلیٰ پائے کی۔ درودیوار پر دلفریب نقش و نگار اور جا بجا شیروں کے مجسمے وغیرہ شاہی محل کے اندرونی منظر کو انتہائی دلکش بناتے ہیں۔ خاص طور پر شاہی تخت والے اور مہمانوں کی ضیافت والے ہال کی سجاوٹ بہت نفیس ہے۔ خواب گاہوں کی آرائش کا ایک اپنا انداز ہے اتنے ہی حسین جتنے کے خواب۔ گروپ لیڈر ہر کمرے کے بارے میں سیر حاصل تبصرہ و دلچسپ حقائق بتاتا جا رہا تھا۔ شاہی محل کی سیر کے بعد ٹور اختتام کو پہنچا اور ہمیں واپس ہوٹل ڈراپ کر دیا گیا۔

 

شاہی محل کی وسعت کے بارہ میں قلم طرازی کے دوران سورہ العمران کی آیت 133 یاد آئی جس میں جنت کی وسعت کا تذکرہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ جلدی کرو ، دوڑو بخشش اور جنت کی طرف ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ، جو متقین کے لئے تیار کی گئی ہے۔ پھر اگلی دو آیات میں متقین کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اگرچہ ذات باری تعالی نے دوسرے مقامات پر جنت کی تزئین و آرائش اور وہاں موجود نعمتوں کا بھی ذکر کیا مگر یہاں صرف چوڑائی کا ذکر کر کے اس کی وسعت کا اندازہ کروایا ہے۔

قرآن پاک کا یہ حسن ہے کہ اس نے کوزے میں دریا بند کیا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ جنت کی تفصیل دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے اور یہاں کلام کو دوہرایا نہیں گیا اور ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے جیسے دنیا میں کسی چھوٹے سے گھر کا ذکر کیا جائے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں فلاں فلاں چیز ایسے ہے جبکہ کسی بڑے گھر کا ذکر ہو تو اتنا کہنا کافی ہے کہ کسی اچھی جگہ پر بڑا بنگلہ ہے۔ اب بنگلے کی آرائش کا ذکر نہ بھی کریں تو سمجھا جاتا ہے کہ بڑا بنگلہ ہے تو تزئین و آرائش بھی اسی مناسبت سے ہو گی۔ بعینہ یہاں جنت کی چوڑائی کا ذکر کر کے سب تفصیل کہہ دی گئی۔ سبحان اللہ۔

دوپہر کے بعد میں ریلوے اسٹیشن گیا۔ قرطبہ اور پھر قرطبہ سے غرناطہ کے لئے ٹرین کی بکنگ کروا کر ٹکٹ خرید لیا۔ پاکستان میں ان دنوں کمپیوٹر کا استعمال نہیں تھا۔ بکنگ والے اہلکار نے جلدی سے تفصیل کا اندراج کیا اور کنفرم کر کے ٹکٹ میرے حوالے کیا۔ میرے لئے یہ متأثر کن بات تھی۔ اس کے بعد شہر کے کسی اور بارونق ایریا میں نکل گیا۔ ایک بڑے سٹور سے اولمپس ایس آر ایل او ایم 10 کیمرہ خریدا۔ کیمرے کے بغیر سیاحت ادھوری لگتی ہے جیسے بغیر پلستر کے چنی گئی دیوار۔

بوجوہ ابھی تک میں نہیں خرید سکا تھا۔ مجھے بل فائٹنگ دیکھنے میں بھی دلچسپی تھی لیکن معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں اس کا انعقاد نہیں ہوتا۔ اس وقت تو مجھے افسوس ہوا لیکن کئی سال بعد جب بل فائیٹنگ کے بارے میں تفصیلات پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اطمینان رہا کہ ایسا وحشیانہ کھیل نہیں دیکھا۔ یہ تو کوئی کھیل نہ ہوا کہ محبوس جانور کو ظالمانہ طریقے سے زخمی کر کے مار دیا جائے۔

میڈرڈ میں ہوٹل بہت اچھا لگا محل وقوع بہترین تھا۔ ریستوران اور دیگر اشیاء ضرورت قریب سے میسر تھیں اس کے علاوہ میٹرو سٹیشن نزدیک تھا۔ کسی بھی شہر میں میٹرو سسٹم میری توجہ مرکوز کرتا ہے۔ میڈرڈ کی میٹرو بہت بہتر لگی۔ لائنز کافی زیادہ تھیں اور لیولز بہت گہرے تھے۔ انتہائی صاف ماحول اور انتظار کے وقفے قلیل مدت کے۔ میں نے غرناطہ سے واپسی کے بعد بھی دو روز کے قیام کے لئے یہیں بکنگ کروا دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).