کیا کپاس کی کم پیداوار کا سبب ریسرچ ادارے ہیں؟


مالی سال 2020۔ 21 پاکستان میں کپاس کے لئے نہایت ڈراؤنا سال ثابت ہوا اور ہم بدقسمتی سے پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے سے چھٹے نمبر پر آ گئے۔ ہمارا کراپ سائز تقریباً 60 لا کہ گانٹھیں بتایا جا رہا ہے جو کہ پیداواری اعتبار سے 30 سال کی نچلی ترین سطح پر ہے۔

کپاس کی پیداوار کی اس بدترین صورتحال پر مختلف حلقوں کی جانب سے چہ مہ گوئیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کپاس کی زبوں حالی پر حکومت کی جانب سے فوری طور پر قومی کمیشن قائم کیا جاتا اور غفلت کے مرتکب عناصر کی نشاندہی کر کے انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جاتی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے طور پر کپاس کی مطلوبہ پیداوار میں ناکامی کے ذمہ داران کا تعین کیے جا رہا ہے یعنی جتنے منہ اور اتنی باتیں۔

خاکسار مضمون کی طوالت کے خوف کے پیش نظر کپاس کی ناکامی کے تمام پہلوؤں کو تو زیر بحث نہیں لا سکتا مگر حقائق سے مکمل طور پر لاعلم یا جزوی معلومات کی بنیاد پر یا پھر ایک خاص پلاننگ کے ساتھ کچھ طبقوں کی طرف سے کپاس کے معاملے میں تمام تر ناکامی کا ذمہ دار کپاس کے ریسرچ اداروں خاص کر پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو ٹھہرائے جانے پر اپنا نقطہ نظر آپ سب کے سامنے رکھ رہا ہے۔

معترضین کا کہنا ہے کہ پی سی سی سی ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے اور یہاں ملازمین بھاری تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں اور تحقیقات نہ ہونے کے سبب یہ ادارہ کپاس کے کاشتکاروں کو اچھا اور معیاری بیج فراہم کرنے میں بری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور ملک و قوم کے لئے ایک بوجھ بن چکا ہے۔

زیر نظر تحریر کا مقصد پوشیدہ حقائق کو سامنے لانا ہے تاکہ اعتراضات اٹھانے والوں کو صورتحال کا ادراک ہو سکے۔ خاکسار کا مدعا قابل اعتراض بات یعنی کپاس کی کم ترین پیداوار کا سبب محض پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو قرار دینے سے متعلق ہے۔ گرچہ اس دعوے میں قدرے سچائی ہے لیکن یہ آدھا سچ ہے۔

بہت کم لوگ بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہیں۔ عام لوگ نتائج کو دیکھ کر اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں جبکہ ناقدین علت و معلول یعنی سبب اور نتیجہ کو سامنے رکھ کر سائنسی انداز فکر سے مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی جس کا ذیلی ادارہ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان ہے، ایک دہائی پہلے تک کسانوں کو کپاس کے اعلیٰ و معیاری بیج کی فراہمی کے حوالے سے ایک مثال بن چکا تھا مگر اب اس کی کارکردگی کا گراف بتدریج نیچے آتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ادارہ آج بھی دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے پاکستان کے دیگر ریسرچ اداروں کے مقابلہ میں بہترین نتائج دے رہا ہے اور نیشنل کوارڈی نیٹڈ ٹرائل میں سی سی آر آئی ملتان کی کپاس کی اقسام کئی دہائیوں سے ملک بھر میں ٹاپ پوزیشنز برقرار رکھے ہوئے ہیں اور یہ کہ ادارہ ہذا کی اقسام ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضروریات کے عین مطابق ہیں مگر بدلتے موسمی حالات، نئی سیڈ ٹیکنالوجی کا فقدان اور زرعی سائنسدانوں کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت و معیار میں کمی کی وجہ سے ادارہ ہٰذا نئے دور کے چیلنجز اور عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق صد فیصد نتائج دینے سے قاصر ہے۔

پی سی سی سی کے روشن ماضی کے بہترین نتائج کی بنیادی وجہ یعنی اسباب کو جانے بغیر ہم فی زمانہ اس اہم قومی تحقیقی ادارے سے مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں کر سکتے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے ماضی میں کبھی بھی مالی و انتظامی مسائل اس قدر سنگین نہیں رہے جس قدر آج اسے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی سی سی سی کی موجودہ حالت یہ ہے اس اہم قومی ادارے کا آٹھ سال سے کوئی مستقبل سربراہ ہی مقرر نہیں کیا گیا، محض اضافی چارج دے کر کام لیا جا رہا ہے۔

مالی معاملات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ پی سی سی سی ملازمین کئی ماہ کی تنخواہوں اور پینشن سے محروم ہیں، تحقیق کے لئے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے تحقیقی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔ مل مالکان کی جانب سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو کاٹن سیس کی ادائیگی کئی سالوں سے ناجائز طور پر رکی ہوئی ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز کے ذمہ پی سی سی سی کی واجب الاداء رقم جو کہ 2 ارب روپے سے زائد بنتی ہے وہ کئی سالوں سے التواء کا شکار ہے اور مل مالکان حیلے بہانوں سے یہ رقم دبائے بیٹھے ہیں۔ پی سی سی سی میں آج نامساعد حالات کے باعث افرادی قوت کی اس قدر کمی ہے کہ ایک فرد پانچ پانچ ملازمین کے برابر اکیلا کام کر رہا ہے۔

اگر پی سی سی سی کے مالی و انتظامی مسائل کے حل کے اقدامات کیے جائیں تو پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی آج بھی اپنے روشن ماضی کی طرح ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے اور اگر ترجیحات نہیں تو مسائل کا حل بھی ممکن نہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ہی دیکھ لیجیے سال 2011 سے 2020 کے نصف تک اس شعبے سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ 12 سے 14 ارب ڈالرز تک سٹیبل رہا اور اب نئے مالی سال کے پہلے 4 مہینے میں یہ 5 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے اور سال کے آخر تک ماہرین 18 سے 20 ارب ڈالرز تک تخمینہ لگا کر بیٹھے ہیں اور اس ہدف کے پورا ہونے کے قومی امکانات بھی موجود ہیں۔

جب ترجیحات موجود ہوتی ہیں تو گھنٹوں میں ای سی سی اور وفاقی کابینہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس بلا کر فوری فیصلے بھی کرا لئے جاتے ہیں۔ سچے من کے ساتھ ترجیحات طے کر کے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تو ہی اس کے مثبت اثرات نظر آتے ہیں، حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لئے مل مالکان کے تمام مطالبات کو تسلیم کیا اور ان کے مسائل دور کر کے انہیں ہر لحاظ سے مکمل طور پر سپورٹ کیا تو نتیجہ سب کے سامنے ہے مگر افسوس کپاس اور ریسرچ اداروں کے سالہا سال سے موجود حل طلب مسائل جوں کے توں پڑے ہیں۔

کمیٹیاں بنتی جا رہی ہیں لیکن مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ان اہم مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر ای سی سی اجلاس یا وفاقی کابینہ کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ٹیکسٹائل کے ایشوز کی طرح ڈسکس ہی نہیں کیا گیا اور نہ کبھی فوری فیصلے منظور کرائے گئے۔ اسی لئے جب تک تحقیق پر سرمایہ کاری اور ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا جائے گا تو اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔

اگر ارباب اختیار ریسرچ اداروں اور کپاس کی ترجیحات کا پیرامیٹرز ٹیکسٹائل سیکٹرز میں اصلاحات لانے جیسا مقرر کر لیں تو یہاں اعلیٰ معیار کی سیڈ ٹیکنالوجی بھی ہو گی، کپاس کی بمپر کراپ بھی ہو گی اور فی ایکٹر پیداوار میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).